ایسا کیا ہوا کہ کرکٹ کا عالمی چیمپئن رہنے والا پاکستان، چیمپینز کرکٹ ٹرافی سے ہی باہر ہو گیا- یہ سچ ہے کہ انتھک محنت رنگ لاتی ہے اور محنت کرنے والا ہی اوپر جاتا ہے- لیکن محنت اور پرفارمنس کی بات کریں تو پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی ناصرف خراب بلکہ بہت ہی ناقص اور مایوس کن رہی یہی بات اس کی شکست کا باعث بنی- بیٹنگ ہو، فیلڈنگ یا پھر باؤلنگ، ٹیم کسی بھی جگہ ہمت اور صلاحیت نہیں دکھا سکی- کھیل کے عالمی سٹینڈرڈ سے کوسوں دور رہی جس پر پاکستانی شائقین نے سخت غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا- وہ ٹیم سے بہت زیادہ متنفر اور مایوس نظر آئے- ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیئرمین پی سی بی، ہیڈکوچ عاقب جاوید اور کپتان رضوان میڈیا کے سامنے آتے، شکست کی وجوہات بیان کرتے تاکہ قوم غصے اور مایوسی کی کیفیت سے باہر نکل پاتی لیکن انہوں نے میڈیا کے سامنے نہ آنے کو ترجیح دی جس پر سوال اٹھنے لگے اور ان پر اب تک تنقید جاری ہے- بات ہو جاتی تو شاید قوم کی تشفی ہو جاتی اور ذہنوں کو ریلیف ملتا - مگر ایسا نہ ہو سکا- پاکستانی کرکٹ کا جائزہ لیں تو اس کی تاریخ 70 دہائیوں پر محیط ہے- ایک وقت میں ہماری ٹیم عالمی چیمپئن بھی رہی- کرکٹ کے بہت سے معرکے سر کئے اور پاکستان کا نام روشن کیا- ماضی میں جب جب کرکٹ کی تاریخ لکھی گئی، سنہری حروف سے لکھی گئء- ہماری کرکٹ کی ایک دھاک تھی جو دنیائے کرکٹ پر بیٹھی ہوئی تھی-
کرکٹ کی تاریخ کا جائزہ لیں توماضی میں اْس کی کارکردگی نمایاں نظر آتی ہے- اسی بنیاد پر انہیں "شاہینز" بھی کہا جاتا ہے- کھلاڑیوں کی شرٹس گرین کلر پر مبنی ہے- یہ سبز رنگ ہمارے قومی پرچم میں بھی شامل ہے- پاکستان کرکٹ ٹیم پی سی بی (پاکستان کرکٹ بورڈ) کے زیر انتظام میچوں میں حصہ لیتی ہے جو عالمی سطح پر کھیلے جاتے ہیں- ٹیم انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی بھی باقاعدہ رکن ہے- پاکستان نے اب تک 456 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں 148 جیتے، 142 ہارے جبکہ 166 ڈرا ہوئے- پاکستان کو 28 جولائی 1952ء میں ٹیسٹ کا درجہ ملا- اْس نے اپنا پہلا میچ دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں کھیلا- جس میں بھارت نے ایک اننگز اور 70 رنز سے فتح حاصل کی- ٹیم نے اب تک 945 ایک روزہ میچ کھیلے- جن میں سے 498 جیتے، 418 ہارے جبکہ 20 میچ بے نتیجہ ثابت ہوئے- 1992ء میں پاکستان ورلڈ کپ چیمپئن بنا-
یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان نے جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کی میزبانی کی- 1996ء میں ٹی ٹوئنٹی کے فائنل کی میزبانی بھی لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں پاکستان کو حاصل رہی- پاکستان کرکٹ ٹیم نے 194 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ بھی کھیلے- جن میں سے 120 جیتے، 66 ہارے- 2009ء میں آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی بھی پاکستان نے جیتا- آئی سی سی کے ہر بڑے انٹرنیشنل کرکٹ ٹورنامنٹ میں ہر میچ کو جیتنے کا منفرد اعزاز بھی پاکستان کو حاصل رہا-
جون 2022ء تک پاکستان کرکٹ ٹیم آئی سی سی کی طرف سے ٹیسٹ میں پانچویں، ون ڈے میں تیسرے اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی تیسرے نمبر پر رہی ہے- دہشت گردی کی پے درپے کارروائیوں کے باعث غیر ملکی ٹیموں کا پاکستان میں آنا مشکل ہو گیا تھا- اْن کی آمد انتہائی جمود کا شکار تھی- سری لنکن ٹیم پر 2009ء میں حملے کے بعد 2019ء تک ملک میں کوئی انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی گئی- بلکہ پاکستان میں ہونے والے تمام انٹرنیشنل میچز پاکستان کی بجائے متحدہ عرب امارات میں منتقل ہو گئے- تاہم پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی اور سیکورٹی میں اضافے کے باعث غیر ملکی ٹیموں کا اعتماد بڑھا ہے- 2015ء سے اب تک بہت سی غیر ملکی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں- جو اس بات کی غمازی کرتی ہیں کے پاکستان میں کرکٹ اور دیگر سپورٹس کے لیے حالات بہت بہتراور سازگار ہیں – 2015ء سے اب تک کئی غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آ چکی ہیں جن میں زمباوے، سری لنکا، ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا شامل ہیں-
ماضی میں جائیں تو ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار تھے- جن کی کپتانی میں پاکستان نے اپنا پہلا میچ دہلی میں کھیلا- یہ پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز تھی- جسے بھارت نے 2-1 سے جیتا- پاکستان 1954ء میں انگلینڈ گیا اور اوول میں ٹیسٹ سیریز 1-1 سے برابر کی- جس میں فاسٹ باؤلر فضل محمود نے 12 وکٹیں حاصل کیں- پاکستان کا پہلا ہوم ٹیسٹ میچ جنوری 1955ء میں بھارت کے خلاف کھیلا گیا جو مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کے بندھو نیشل سٹیڈیم ڈھاکہ میں ہوا- جس کے بعد لاہور، بہاولپور، پشاور اور کراچی میں مزید ٹیسٹ کھیلے گئے- سیریز کے پانچوں میچ ڈرا ہوئے-
روائتی طور پر پاکستانی کرکٹ ٹیم با صلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل رہی ہے- لیکن اب ٹیم پر یہ الزام ہے کی وہ محدود نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتی ہے جس کے باعث اس کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے- خاص طور پر پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں جب آمنے سامنے ہوں تو بہت جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے- دونوں ملکوں کے مابین ہونے والے میچوں میں دشمنی کا رنگ غالب آنے لگتا ہے- دونوں طرف کے عوام اتنے چارج ہو جاتے ہیں کہ ٹیم کی ہار برداشت نہیں کر پاتے-جو ٹیم ہار جائے اس پر اپنا غصہ نکالتے ہیں-
پاکستان اور بھارت کے مابین جب بھی میچ ہوتے ہیں، سٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں جس میں لوگوں کا جوش و ولولہ دیدنی ہوتا ہے- ہر میچ انتہائی چارج شدہ ماحول میں کھیلا جاتا ہے جبکہ دونوں اطراف میں کھلاڑیوں کو سپورٹ کرنے کے لیے بہت بڑی تعداد میں شائقین موجود ہوتے ہیں-
اس بار چیمپئن ٹرافی کی میزبانی پاکستان کو حاصل تھی- چیمپینز ٹرافی میں جو ٹیمیں حصہ لے رہی تھیں- اْن میں پاکستان (میزبان) بھارت، انگلینڈ، آسٹریلیاِ ، افغانستان اور نیوزی لینڈ شامل تھے- تاہم بھارت نے سیکورٹی کی وجوہات کو بہانہ بنا کر پاکستان آنے سے انکار کر دیا- جس کے باعث آئی سی سی کو بھارت کے میچ دوبئی منتقل کرنا پڑے-
پاکستان کو چیمپینز ٹرافی کا میزبان ہونے کے باوجود بھارت سے اپنا میچ کھیلنے کے لیے دوبئی جانا پڑا- لیکن بدقسمتی سے پاکستان یہ میچ ہار گیا- اس سے پہلے ہوم گراؤند پر پاکستان نیوزی لینڈ سے بھی میچ ہار چکا تھا- میچ ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم کا مورال بہت زیادہ ڈاؤن تھا- تاہم رضوان پھر بھی یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ اس یقین کے ساتھ میدان میں اتریں گے کہ روائتی حریف بھارت کو ہرائیں گے-
لیکن میدان سجا اور مقابلہ ہوا تو نظر آیا کہ ہماری بیٹنگ میں کوئی دم ہیٍ نہ باؤلنگ کسی معیار کی ہے- رہی فیلڈنگ تو وہ بھی بیٹنگ اور باؤلنگ جیسی ہی تھی- آخری اوور ز میں نتیجہ بالکل واضح تھا کہ بھارت آسانی سے یہ میچ جیت جائے گا- یہ میچ ہارنے سے پاکستان چئمپینز ٹرافی سے باہر ہو گیا- اگرچہ ٹرافی کا ہمارا ایک میچ بنگلہ دیش کے ساتھ تھا لیکن بارش نے اسے درہم برہم کر دیا اور نہ ہونے دیا-
ٹیم پر بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں- چیئرمین پی سی بی کو سخت تنقید کا سامنا ہے-ایک سابق کرکٹر کا کہنا ہے محسن نقوی نے جتنی توجہ لاہوراور کراچی کے سٹیڈیم اپ گریڈ کرنے پر بھی دی ، اگر اتنی توجہ وہ ٹیم پر دے دیتے تو شاید ٹیم کچھ کر لیتی- افغانستان نے انگلینڈ جیسی ٹیم کو شکست دے کریہ بات ثابت کی کہ ٹیم باہمی کارکردگی، انتھک محنت اور جان لڑانے سے ہی بنتی ہے- پاکستان کے لیے یہ سبق ہے- افغانستان کی جیت سے انہیں ضرور کچھ سیکھنا چاہیے- تاکہ فیوچر میں ہم چیمپینز ٹرافی جیسی ذلت کا سامنا نہ کر یں-
اور کرکٹ ہار گئی
Mar 02, 2025