نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مادی پرست

Mar 02, 2025

ڈاکٹر ناصر خان 

د نیا میں ہر شخص زندگی کی بہتر سہولیات، عزت، اور خوشحالی کا خواہشمند ہوتا ہے، اور اس کے لیے سب سے اہم ذریعہ پیسہ ہے۔ پیسے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، کیونکہ یہ نہ صرف بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دیتا ہے بلکہ تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات کے حصول کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیسہ زندگی کا واحد مقصد ہونا چاہیے، یا اسے محض ایک ذریعہ سمجھنا چاہیے جو زندگی کو سہل بناتا ہے؟ آج کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مادی پرستی ایک اہم مسئلہ بنتی جا رہی ہے، اور اس رجحان کے پیچھے کئی سماجی، معاشی اور نفسیاتی عوامل کارفرما ہیں۔

ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر پیسے کو ایک ذریعہ سمجھا جائے تو یہ زندگی میں استحکام اور سہولت فراہم کرتا ہے، لیکن جب اسے زندگی کا مقصد بنا لیا جائے تو یہ ذہنی دباؤ، بے چینی اور اخلاقی گراوٹ کا سبب بن سکتا ہے۔ بے تحاشا دولت کی خواہش انسان کو لالچ، حسد اور مقابلے کی ایسی دوڑ میں شامل کر سکتی ہے جہاں وہ اپنے اصولوں اور اخلاقی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ حقیقی خوشی اور اطمینان صرف مادی دولت سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ مثبت تعلقات، اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور ذہنی سکون سے مشروط ہوتا ہے۔ لہٰذا، پیسے کو زندگی کے لیے ایک لازمی ضرورت تو سمجھا جا سکتا ہے، لیکن اسے زندگی کا حتمی مقصد بنانا خطرناک طرزِ فکر ہو سکتا ہے۔
نوجوانوں میں مادی پرستی کے رجحان میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا اور گلیمرائزڈ لائف اسٹائل ہے۔ انسٹاگرام، فیس بک اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر لوگ اپنی زندگی کے خوشنما پہلوؤں کو نمایاں کرکے پیش کرتے ہیں، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مہنگے کپڑے، گاڑیاں، برانڈڈ اشیاء  اور پرتعیش زندگی ہی کامیابی کی اصل پہچان ہیں۔ حقیقت میں، یہ سب ایک فریب ہوتا ہے، کیونکہ لوگ اپنی مشکلات اور حقیقی زندگی کی تلخ حقیقتوں کو چھپا کر محض خوشحالی کا مصنوعی عکس پیش کرتے ہیں۔ نوجوان جب ان چیزوں کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی اسی طرح کی زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں مادی اشیاء کو زیادہ اہمیت دینے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ، آج کی دنیا میں بڑھتی ہوئی مسابقت نے نوجوانوں کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ وہ پیسے کو سب سے بڑی طاقت سمجھنے لگے ہیں۔ تعلیمی اور پیشہ ورانہ میدان میں ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، اور اس دوڑ میں اکثر اخلاقیات اور اصولوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ مزید برآں، موجودہ دور میں مہنگائی اور بیروزگاری جیسے عوامل نے نوجوانوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ انہیں یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ اگر وہ زیادہ پیسہ نہیں کمائیں گے تو ایک اچھی زندگی گزارنا ان کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں اپنے اصولوں سے سمجھوتہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
معاشرتی اور تعلیمی نظام بھی اس مادی پرستی کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا بنیادی مقصد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زیادہ پیسہ کمائیں اور بہتر زندگی گزار سکیں۔ اسی طرح، جدید تعلیمی نظام بھی شخصیت کی نشوونما کے بجائے مادی کامیابی پر زیادہ زور دینے لگا ہے۔ یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے طلبہ کو بلند و بانگ خواب دکھاتے ہیں کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ مالی طور پر مستحکم زندگی گزار سکیں گے، جس سے نوجوانوں میں مٹیریلسٹک سوچ مزید گہری ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً، نوجوانوں کا ذہن اس قدر پیسے کے گرد گھومنے لگتا ہے کہ وہ زندگی کی دیگر اہم اقدار جیسے اخلاقیات، تعلقات، اور سماجی بھلائی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
مادی سوچ کو مکمل طور پر غلط کہنا مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ پیسہ اور مادی وسائل زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں، لیکن اس میں توازن برقرار رکھنا انتہائی اہم ہے۔ اگر ایک نوجوان اپنی زندگی کا واحد مقصد دولت کمانا بنا لے، تو وہ شدید ذہنی دباؤ، بے چینی، اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، وہ انسانی تعلقات اور سماجی اقدار کو پس پشت ڈال سکتا ہے، جو اس کی زندگی میں خوشی اور اطمینان کی کمی کا باعث بنے گا۔ تاہم، اگر پیسے کو صرف ایک ضرورت اور بہتر مستقبل کی ضمانت کے طور پر دیکھا جائے، تو یہ فرد کی زندگی میں استحکام اور ترقی لا سکتا ہے۔ مالی وسائل کا صحیح استعمال تعلیمی، سماجی اور فلاحی ترقی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دولت کے حصول کو مقصد کے بجائے ایک ذریعہ سمجھا جائے تاکہ زندگی کے دیگر پہلو بھی متوازن اور خوشگوار رہ سکیں۔

مزیدخبریں