کسی بھی معاشرے کا بنیادی یونٹ اس معاشرے کا خاندانی نظام ہے اور اس معاشرے کو بنانے کے لیے تین بہت اہم کردار ہیں جو اسے مہذب اور تعلیم یافتہ بناتے ہیں، جن میں اساتذہ کرام، علماء کرام اور والدین ان تینوں کا کردار ایک معاشرے کی تشکیل میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ہم صرف علمائے کرام کا زکر کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ایک مہذب معاشرے میں علماء کرام کا کردار ایک قابل احترام ہستی کے طور پر مانا جاتا ہے۔ علماء کرام کی سب لوگ عزت کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ انہوں نے انسانی زندگی کا وہ درس انسانوں تک پہنچانا ہوتا ہے جو انبیاء کرام علیہ السلام کی ذمہ داری تھا اور وہی علم جو انبیاء کرام علیہ السلام نے اپنی امتوں کو دیا وہی پیغام علماء کرام کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی پاکستان میں بہت سارے علماء کرام آئے اور انہوں نے اپنا ایسا کردار نبھایا جس کو نسلیں آج تک یاد رکھتی ہیں اور بہت سے علماء کرام بھی مسلمانوں اور ہمارے معاشرے کے لوگوں کی تعلیم و تربیت میں اپنا بہترین کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو ایمان لائے اور جنہیں علم عطا کیا گیا حدیث میں آیا ہے علماء انبیاء کے وارث ہیں (ابو دائود ، ترمذی) چونکہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور ہمارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک مکمل انداز میں پہنچا دیا ہے۔ بالکل اسی طرح اس پیغام کو آگے نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے علماء کرام کا کردار انتہائی اہم ہے۔
مگر افسوس در افسوس کہ ہم آج دور حاضر میں ہم علماء کرام کے ساتھ کیا کر رہے ہیں کبھی اس پر سوچا اور غور کیا ہے کہ یہ لوگ جو ہمیں دین کی اصلاح فراہم کرتے ہیں اور انبیاء کرام کے وارث ہیں انہیں ہم کیا دے رہے ہیں۔ جو اس بڑھتی ہوئی ظالم مہنگائی میں اپنا وقت کیسے گزر رہے ہیں اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کس طرح پوری کر رہے ہیں انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے اس طرف کبھی توجہ نہیں دی بلکہ الٹا ان کے خلاف باتیں بناتے ہیں کبھی کوئی کچھ کہتا ہے۔ ہم نے تو انہیں مولوی بھی نہیں سمجھ رکھا بلکہ ہم نے تو انہیں انسان بھی نہیں سمجھ رکھا۔ یہاں پر ہم ہر کسی کی بات نہیں کرتے مگر اکثریت کچھ ایسی ہی ہے کہ انہیں کچھ نہیں سمجھا جاتا جو ان کے منصب کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جنہیں علماء کرام کی مخالفت کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوتا اب زرا غور کریں محکمہ اوقاف کی مساجد کے علاوہ دوسری تمام مساجد میں اس وقت ایک مسجد میں ایک خطیب اور ایک امام جو کہ مؤذن کے فرائض بھی انجام دیتا ہے۔ اور اب آجائیں اس طرف کہ ہم انہیں یہ فرائض انجام دینے کی جو تنخواہیں دیتے ہیں ان پر زرا غور کریں کہ کیا اس مہنگائی کے دور میں ان کا گزارا کیسے چلتا ہوگا۔مؤذن کو پندرہ سے بیس ہزار خطیب اور امام کو بیس سے پچیس ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کوئی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی یہاں پر یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ لاہور شہر میں تقریبا دور دراز پنجاب کے مختلف دیہات سے آئے ہوئے یہ امام خطیب اور خادم حضرات جو قران مجید کے حافظ اور درس نظامی پڑھ کر ان مساجد میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں انہیں یہ نہ سمجھیں کہ یہ لوگ بہت خوش ہیں یقین جانیے کہ ان میں بہت سارے ایسے علماء کرام ہیں جو چھوٹی چھوٹی ٹینشنوں کی وجہ سے مختلف بیماریوں کے شکار ہو چکے ہیں جو ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہو رہی ہے۔ میرے ایک نمازی دوست کہتے ہیں کہ جنہیں گھر اور باہر کوئی نہیں پوچھتا وہ مسجد میں آکر مولوی کے اوپر اپنا رْع?ب جما کر سمجھتا ہے کہ میں نے بہت بڑا اچھا اور نیک کام کیا ہے ارے نادانوں زرا ہوش کے ناخن لیں مولویوں کے ساتھ الجھ کر اپنی دنیا اور آخرت کو برباد نہ کرے بہرحال حکومت کو چاہیے کہ ان علماء کرام کے حقوق کے لیے کچھ ضرور کریں شاید اس مالک کائنات کو یہ عمل پسند آجائے اور یہ اچھا عمل ہم سب کے لیے بخشش کا ذریعہ بن جائے۔
ارے او نادانوں ہوش کرو
Mar 02, 2025