دنیا کی سپر طاقت امریکہ کے صدر ٹرمپ کی دھمکیوں نے عالمی سطح پر کشیدگی پیدا کر دی ہے اور ممالک اپنی خود مختیاری کو برقرار رکھنے کی فکر میں متبادل طریقوں پر غور کر رہے ہیں ، دنیا کے کئی ممالک نے ڈالرز کے بجائے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کا عمل کچھ سالوں سے بڑھا ہے، سب سے پہلے چین نے دیگر ممالک کے ساتھ اپنی کرنسی یوا ین میںتجارت شروع کی ، چین نے اپنے تجارتی شراکت داروںکے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کی پالیسی اس وقت اختیار کی جب امریکہ کی مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھائو ہو رہا تھا ، لہذا یورپ نے بھی اسی سمت میں قدم بڑھایا اور یورپی یونین نے یورو کو عالمی تجارت میں ایک مضبوط کرنسی کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ، تاہم یہ رجحان تیزی سے مقبول ہوا اور کئی ممالک نے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارتی معاہدے کئے تاکہ ڈالرز پر انحصار کم کیا جاسکے۔
دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل برکس گروپ جن میں ۔برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریکہ ہیں ، یہ گروپ اقتصادی ، سیاسی، اور تجارتی تعاون کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے، اور عالمی سطح پر ڈالر کے بجائے متبادل مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے ، امریکی صدر ٹرمپ کو صدارت سنبھالنے کے بعد جب بھی موقع ملا ، وہ برکس ممالک کو بھاری ٹیرف عائد کرنے سے ڈراتے دھمکاتے رہے ہیں، وہ برکس ممالک سمیت کسی بھی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان ہیں انہیں ڈر ہے کہ اگر برکس ممالک نے اپنی کرنسی بنا لی تو امریکہ برباد ہو جائے گا ، نیز ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں یہ بھی کہا کہ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ برکس ممالک خود کو ڈالر سے دور کر رہے ہیں اور ہم دیکھتے ہی رہیں گے ،ان نام نہاد حریف ممالک کو واضح طور پر وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ طاقتور امریکی ڈالر کو بدلنے کے لئے نہ تو نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے ، اگر ایسا نہ ہوا تو انہیں 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا ، یہی نہیں بلکہ انہیں امریکہ کی عظیم مارکیٹ میں اپنا سامان بیچنا بھی بھولنا پڑے گا، یہ ممالک کوئی اور احمق ملک تلاش کرسکتے ہیں ، اور انہیں امریکہ کو بھی الوداع کہنا پڑے گا ۔
اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کی 150 فیصد ٹیرف کی دھمکی نے برکس گروپ کو توڑ دیا ہے ، عالمی تناظر میں اس دھمکی کے دور رس نتائج نکلیں گے ، کیونکہ امریکہ پر کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ، امریکی صدر ٹرمپ اب تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیراء ہیں ، جغرافیائی سیاست میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے پس پردہ عوامل میںتیسری عالمی جنگ کی دھمک سنائی دیتی ہے، جیسا کہ روس اور یوکرین کی جنگ ، چین اور تائیوان کے درمیان کشیدگی ، اسرائیل فلسطین تنازع ، امریکہ اور ایران کے درمیان تنائو ، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو دنیا میں جنگوں کو بڑھا سکتے ہیں ، اس وقت جنگیں روایتی ہونے کے بجائے معاشی سائبر اور پراکسی جنگوں کی شکل میں جاری ہیں عالمی حالات میں کشیدگی کے سبب دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑی عالمی طاقتیں اگر باہمی تباہی کی گارنٹی (MAD)Mutualy Assured destruction کے اصول پر کاربند رہیں گی تو جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے براہ راست تصادم سے گریز کریں گی ۔
امریکی صد ر ٹرمپ کے متضاد بیانات عالمی سطح پر تشویشناک صورتحال اختیار کر تے جا رہے ہیں ، میامی میں ایف آئی آئی کے سربراہ اجلاس سے خطاب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’ تیسری عالمی جنگ سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتامگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یہ جنگ اب دنیا سے دور نہیں ہے ‘‘ ٹرمپ کا یہ بیان واضح اعلان جنگ ہے جیسا کہ اکتوبر 2001 ء میں سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے نائین الیون کے حملوں کے بعد اپنی مختلف تقاریر میں افغانستان پر حملے کو ایک ضروری جنگ قرار دیتے ہوئے اس کا دائرہ کار عالمی سطح پر پھیلنے کا عندہ بھی دیا تھا ، ٹرمپ کے حالیہ بیان کے پس پردہ عوامل اور ر یا کاریاں بھی پوشیدہ ہیں ، جس سے تیسری عالمی جنگ کے خدشے کو تقویت ملتی ہے ، امریکہ اس وقت یوکرین جنگ کا خاتمہ اس وجہ سے چاہتا ہے کیونکہ اس پر مالی اور عسکری دبائو بڑھ رہا ہے ، دوسری طرف غزہ کی جنگ میں بھی امریکہ کی توجہ معنی خیز ہے ، کیو نکہ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو 2000 پائونڈ وزنی بموں کی فراہمی پر عائد کردہ پابندی کو ختم کیا ہے جب کہ اسرائیل کوجو بائیڈن کی انتظامیہ نے غزہ جنگ کے دوران 17.9 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی جس میں ہتھیاروں کی ٖفروخت ، فوجی فنانسنگ اور امریکی ہتھیاروں کے ذخیرے سے منتقلی شامل ہے ، یہ رقم7 ، اکتوبر 2023 ء سے 7 ، اکتوبر 2024 ء تک کے ایک سال کے دوران خرچ کی گئی ۔
ایسی صورتحال کے پیش نظر اگر روس مشرق وسطیٰ میں کھل کر مداخلت کرتا ہے چاہے وہ ایران ، شام یا کسی اور مقام سے ہو ، تو یہ امریکہ کے لئے ایک بڑا چیلنج ہو گا ، امریکہ براہ راست جنگ سے گریز کرے گا اور اپنے اتحادیوں کو روسی اثر و رسوخ کے خلاف مضبوط کرے گا اور خاص طور پر اسرائیل کو مزید عسکری امداد فراہم کرے گا ، جیسا اس نے یوکرین میں کیا ، لہذا ممکنہ روسی مداخلت کے بڑھنے کی صورت میں امریکہ اسے اپنے عالمی اثر ورسوخ میں کمی کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے براہ راست عسکری کاروائی کا فیصلہ کر سکتا ہے ، اور اگر یہ ایسا ہوا تو ایک بڑی جنگ میں بدل سکتا ہے جو ممکنہ طور پر عالمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے ۔
امریکی صدر ٹرمپ کی دنیا کے ممالک کو نفرت انگیز دھمکیاں برکس ممالک خاص کر روس اور چین کو ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں جس سے امریکہ کی معاشی بالا دستی کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا ، یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب روس اور چین برکس گروپ میں توسیع کر کے ڈالر کے متبادل کو عملی جامہ پہنا دیں، جو کہ امریکہ کے لئے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے ،جس کی وجہ سے امریکہ خود کسی بڑی جنگ کی طرف بڑھے گا پھر یہ معاملات عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔
ٹرمپ کی دھمکیاں اورعالمی جنگ کی دھمک
Mar 02, 2025