سعودی عرب کے وزیر انصاف ڈاکٹر ولید الصمعانی نے مملکت میں کیسز کو ورچوئل طریقےسے نمٹانے کے لیے ورچوئل عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ متنازع مسائل اور کیسز کے حل کے لیے قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے آزاد ہوں گی۔ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کا اصل کام متنازع حقائق و واقعات اور کیسز کے حل کے لیے قانون کا نفاذ کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان قانون سازی کے اجراء سے ماہرین ، وکلاء اور دیگر افراد کے درمیان قانون پرعمل درآمد اور عدلیہ پراعتماد کو مزید بڑھایا جائے گا۔ مملکت میں ورچوئل عدالتوں کے قیام سے عدالتی فیصلوں کے بارے میں زیادہ جان کاری کے حصول اور افواہوں پر قابو پانے میں مدد ملےگی۔
ڈاکٹر الصمعانی نے نجی نوعیت کے کیسز جن میں بچوں کی دیکھ بحال،کفالت کو تمام کیسز پرمقدم رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ خانگی کیسز میں نکاح کے معاہدے کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام تک عورت کی منشا کو ترجیح دی جائے گی۔ عدالتیں من پسند شادی کے کیسز کو بھی قانون کے مطابق حل کریں گی۔ زوجین میں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی خلاف ورزی جیسے معاملات کو بھی نمٹایا جائے گا۔ متاثرہ فریق کے لیے معاوضے اور خلاف ورزی پر جرمانہ جیسی سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں۔ عام طور پر اس طرح کہ معاملات طلاق کے کیسز میں ڈیل کیے جائیں گے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ تعزیراتی نظام کسی مجرمانہ فعل کی اجازت نہیں دے گا۔ کسی مجرم کو قانون اور ضابطے قانون کے تحت مقرر کردہ سزا دی جائے گی۔ عدلیہ صرف وہی سزائیں دے سکے گی جو قانون تعزیرات کے تحت باقاعدہ ریاستی نظام کی طرف سے منظور کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر ولید نے اس بات پر زور دیا کہ استدلال ججوں کا فرض ہے کیونکہ یہ ان ضمانتوں میں سے ایک ہے جو جج کو آزادی فراہم کرتا ہے۔