سپریم کورٹ کی سینیٹ الیکشن خفیہ کرانے کی رائے ، الیکشن کمیشن کو کرپٹ پریکٹسز روکنے کی ہدایت
سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ انتخابات خفیہ ہی ہوں گے۔ عدالت نے سینیٹ انتخابات سے متعلق رائے کا فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے دیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت سینیٹ الیکشن خفیہ ہوں گے، الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کو یقینی بنائے، انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، کرپٹ پریکٹسز روکنے کیلئے الیکشن کمیشن جدید ٹیکنالوجی کی مدد لے، تمام ادارے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا، تفصیلی وجوہات بعد میں دی جائیں گی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا معاملہ ہے، کیا وجہ ہے کہ انتحابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ترمیم نہیں کی جا رہی ؟ انتحابی عمل شفاف بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے متعلق ترمیمی بل پارلیمنٹ میں موجود ہے تو ترمیم میں کیا مسئلہ تھا ؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا دور گزرا ترمیم کیوں نہیں کی ؟ پیپلز پارٹی دور میں بھی سینیٹ الیکشن سے متعلق موقع تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں سینیٹ الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کو تسلیم کررہی ہیں، آپ نے ویڈیوز بھی دیکھی ہیں، کیا آپ دوبارہ وہی کرنا چاہتے ہیں، سب کرپٹ پریکٹس کو تسلیم بھی کر رہے ہیں لیکن خاتمے کے لیے اقدامات کوئی نہیں کر رہا، ہر جماعت شفاف الیکشن چاہتی ہے لیکن بسم اللہ کوئی نہیں کرتا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے دیگر ججز کی رائے سے اختلاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات کے متعلق صدارتی ریفرنس پررائے نہیں دینی چاہیے۔ بینچ میں شامل دیگر ججز نے اپنی رائے میں کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوں گے۔
سینیٹ انتخابات میں ووٹوںکی خرید و فروخت کی ہوشربا کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں۔ اب تو ویڈیوز نے بھی کئی لوگوں کو بے نقاب کر دیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے سینیٹ الیکشن خفیہ کرانے کی تائید کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کوشفافیت یقینی بنانے کی تاکید کی گئی ہے۔ فیصلہ آئین کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ووٹنگ اوپن کرانے کی ضرورت ہے تو اس کے لئے بہترین اور متعلقہ فورم پارلیمنٹ ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب کی طرف سے کہا گیا ہے کہ فیصلہ آئین کے مطابق ہے سپریم کورٹ نے رائے دی ہے کہ سینیٹ الیکشن آئین کے مطابق ہونگے، ماضی میں خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہمارے 6 سات ووٹ چوری ہو گئے۔ آپ لوگوں کے حق پر ڈاکہ ڈالیں اور شور کریں کہ اپوزیشن اوپن بیلٹ نہیں چاہتی۔ مسلم لیگ ن کے چوری ہونے والے ووٹوں کی پارٹی کی طرف سے کبھی نشاندہی نہیں کی گئی۔ تحریک انصاف کے 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں 20 ووٹ چوری ہو گئے تھے جس کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے 20 ایم پی ایز کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ ان نکالے جانے والوں نے خود کو بے قصور باور کرانے کے لئے قسمیں بھی اٹھائیں مگر گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ویڈیوز میں یہ لوگ نوٹوں کے بیگ سمیٹتے نظر آئے۔ حکومت کی طرف سے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے امید کی جاتی ہے کہ کمیٹی نوٹ تقسیم کرنے والوں کو بھی سامنے لائے گی۔ نوٹ وصول کرنیوالوں کی طرح تقسیم کار بھی برابر کے مجرم ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ تاریخی ہے۔ لیکن ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ الیکشن کمیشن انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے تمام اقدامات کرے، اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ ووٹ کی رازداری حتمی نہیں ہے۔شبلی فراز کا کہنا تھا’’الیکشن کمیشن سے ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ ووٹ چاہے بار کوڈ کے ذریعے ہوں یا سیریل نمبر کے ساتھ ہو یا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے، اس بات کو یقینی بنائیں کہ سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں ووٹ کی رازداری دائمی نہ ہو۔" ان کا مزید کہنا تھا ’’یہ ایک اہم سنگ میل ہے کیوں کہ ہم شفافیت اور بدعنوانی سے پاک معاشرے کا نظریہ لے کر نکلے تھے اور یہ وہ عملی اقدامات ہیں جو اس سلسلے میں ہماری حکومت نے اٹھائے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے تفصیلی فیصلے میں مزید تشریح سامنے آ سکے گی۔ سرِدست سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے نکتہ نظر کی جیت قرار دے رہی ہیں۔ اس فیصلے میں دو اہم باتیں کی گئی ہیں۔ ایک تو الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی ہدایت کی گئی ہے جو کوئی نئی بات نہیں ہے یہ آئینی تقاضہ ہے مگر آج سینیٹ کے الیکشن کو لے کر بحث چل رہی ہے الیکشن کمیشن کا ماضی کے مقابلے میں متحرک و فعال ہونا فطری امر ہے۔ دوسرے سپریم کورٹ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا ہے کہ ووٹنگ خفیہ ہو گی مگر الیکشن کے علم میں ہو گا کہ کس نے کس کو ووٹ دیا ہے۔ یہ فواد چودھری کی رائے ہے۔ الیکشن کمیشن اس کو کس نظر سے دیکھتا اور سپریم کورٹ کی اس رائے پر کس طرح عمل کرتا ہے اس کے مظاہر کل کے الیکشن میں سامنے آ سکتے ہیں۔
ہارس ٹریڈنگ کی کوئی بھی حمایت نہیں کرتا مگر اس کے خاتمے کے لئے سب ایک ہی طرف کھڑے ہونے کے لئے تیار بھی نہیں ہیں۔ ہر پارٹی سینیٹ الیکشن میں ووٹ چوری کرنے کی شکایت کرتی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کا رونا رویا جاتا ہے۔ جمہوری رویوں کی پاسداری کی جائے تو ایسی خرافات سے نجات حاصل کرنا آسان ہے جس کی ایک مثال پنجاب اسمبلی میں ایک درخشاں روایت کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ سینیٹ الیکشن سے قبل ہی جس پارٹی کی جتنی نشستیں بنتی تھیں ان پر نامزد امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے حصے میں 5 جبکہ مسلم لیگ ق کے حصے میں ایک نشست آئی۔ ایک صوبے میں اگر کسی پارٹی کے حصے میں 4 نشستیں آ سکتی ہیں مگر وہ آٹھ امیدوار سامنے لے آتی ہے تو اس سے اس پارٹی کے ’’عزائم‘‘ کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے آئین کے تحت سینیٹ الیکشن خفیہ ہی کرانے کا فیصلہ دیا گیا ہے۔ اگر کچھ جمہوری قوتیں سینیٹ الیکشن اوپن کرانا چاہتی ہیں تو پارلیمنٹ سے رجوع کریں۔ ہو سکتا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ان کے تحفظات دور ہو گئے ہوں۔ اگر پنجاب کی قائم کردہ روایت کو دیگر صوبے بھی اپنا لیں تو آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں رہے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024