منگل17 رجب المرجب 1442ھ‘ 2؍مارچ 2021ء
لانگ مارچ کے لیے مسلم لیگ (ن) نے چندہ کمیٹی بنا دی
گویا ہنوز دلی دور است۔ سب جانتے ہیں چندے والے کاموں میں گھپلا ہوتا ہے اور یہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ برصغیر کی تاریخ تو چندوں کی سیاست سے بھری پڑی ہے۔ ہر سیاسی جماعت یاتنظیم کبھی مذہب کے نام پر کبھی دیش کے کبھی خلافت کے اور کبھی آزادی کے نام پر لوگوں سے چندے وصول کرتی تھیں، وہ اچھادور تھا۔چندے کی اصل رسیدیں ملتی تھیں۔ عطیات لوگ ازخود دیتے تھے۔ ان کی بھی رسیدکٹتی تھی۔ اب موجودہ دور میں تو چندہ صرف ہسپتالوں والے یتیم خانوں والے اور اولڈ ہومز والے ہی مانگتے ہیں اور رسید دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں تو اب فنڈز کے نام پر بھاری رقوم بٹورتی ہیں۔ سو اب یہ لانگ مارچ کے نام پر چندہ عوام کیوں دیں انہیں تو اس میں شرکت کی دعوت دی جانی چاہئے۔ چندہ وہ لوگ دیں جو اس لانگ مارچ کے ثمرات سمیٹیں گے۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں آرام سے لانگ مارچ میں شریک ہوں گے جن کا کھانا پینااعلیٰ کوالٹی کے غیر ملکی فوڈ چین سے آئے گا۔ اگر اپوزیشن والوں میں لانگ مارچ کے اخراجات برداشت کرنے کا دم خم نہیںتو پھر یہ بے کار کی مشق کیوں کی جا رہی ہے۔ ویسے بھی وزیر داخلہ شیخ رشید کہہ چکے ہیں۔ اپوزیشن والے اسلام آباد آئیں انہیں جگہ اور روٹی پانی بھی ہم خود دیں گے۔ شاید وہ جانتے ہیں اس لانگ مارچ کا انجام، اسی لیے تو انہوں نے اپوزیشن کو اتنی فراخدلانہ پیشکش کی ہے، اب چندہ جمع کرنے کی بجائے شیخ جی کی پیشکش پر غور کرنا چاہیے۔ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے…
٭٭٭٭٭
سیالکوٹ میں بھی بسنت ، ہوائی فائرنگ پر 50 افراد گرفتار
راولپنڈی اور فیصل آباد کے بعد گزشتہ روز سیالکوٹ بھی بوکاٹا کی صدائوں سے گونجتا رہا۔ منچلوں نے بسنت پر پابندی کا حکم ہوا میں اڑاتے ہوئے خوب جی بھر کر پتنگ بازی کی۔ تینوں شہروں میں کروڑوں روپے اس بے کار شغل کی نذر ہو گئے۔ ڈور پھرنے اور چھتوں سے گرنے سے متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ پولیس نے روایتی پھرتیاں دکھاتے ہوئے درجنوں افراد کو پکڑا اور پھر مک مکا کے بعد چھوڑ دیا۔ ہوائی فائرنگ کا سلسلہ بھی پتنگ بازی کے ساتھ عروج پر رہا۔ سیالکوٹ میں 50 افراد پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔ یہی حال گوجرانوالہ ، قصور اور دیگر شہروں میں ہوتا ہے۔ جہاں لاہور میں بسنت پر پابندی کے بعد بسنت کا میلہ خوب دھڑلے سے منایا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتوں کا سارا نزلہ صرف لاہور پر ہی گرتا ہے۔ باقی شہروں میں اس کا زور نہیں چلتا۔ یہ غلط بات ہے۔ بسنت اگر خونیں تہوار ہے تو کیا صرف لاہور والوں کے لیے ہی اسکے منانے پر پابندی ہے۔ باقی شہروں میں کیا یہ موسمی تہوار ہے۔ پابندی یا تو سب کے لیے یکساں ہو یا پھر قانون کے دائرے میں کڑے حفاظتی انتظامات کے تحت سب کو یکساں منانے کی اجازت ہو۔ حکومت خود مقررہ مقامات پر ڈور اور پتنگیں فروخت کرے اس کے علاوہ جہاں بھی کوئی ایساکرے تو اسے سخت سزا ور بھاری جرمانہ کیا جائے۔ بسنت لاہور کا روایتی تہوار تھا جو دھاتی ڈور اور قاتل تاروں کی وجہ سے اب لاہور کے سوا باقی شہروں حتیٰ کہ کوئٹہ اور پشاور میں بھی زوروشور منایا جاتا ہے…
٭٭٭٭٭
ن لیگ نے پی کے 63 کا الیکشن چوری کیا: پرویز خٹک
آج تک اپوزیشن کا یہ رونا رہتا تھا کہ ووٹ چوری ہوگیا، جھرلو پھر گیا، فرشتے ووٹ ڈال گئے، غیبی ہاتھ کام دکھا گیا۔ اب یہ پہلی بار ہوا ہے کہ خود حکمران کہہ رہے ہیں کہ الیکشن چوری ہوگیا۔ بڑی عجیب بات ہے۔ حکومت آپ کی، الیکشن کمشن ، پولنگ سٹاف آپ کا، صوبہ آپ کا سب کچھ آپ کا تھا تو الیکشن چوری کیسے ہوگیا؟ کس نے چوری کر لیا۔کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ فلاں تو آنکھ کا سرمہ یا کاجل چرا لے جاتا ہے، آج کل لگتا ہے یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے۔ کچھ لوگ الیکشن چرا لے جاتے ہیں تو کچھ الیکشن چھین کر لے جاتے۔ گویا ہارنے والا جو کوئی بھی ہو وہ روتا ہی ہے۔ ن لیگ والوں کا رونا ہے کہ ڈسکہ الیکشن چرایا گیا۔ پرویز خٹک کا رونا ہے کہ پی کے 63 الیکشن چوری ہوگیا ہے، اب اس چورا چوری اور چھینا جھپٹی میں بدنامی اگر ہورہی ہے تو صرف اور صرف الیکشن نظام کی جو پہلے ہی غنڈوں میں پھنسی رضیہ کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔ سب اس پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں، اس کی نیک نامی پر سوال اٹھ رہے ہیں، وہ گھبرائی حالت میں ’’منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے‘‘ کے مصداق سب کے طعنے سہہ رہا ہے سب کچھ ہوتا دیکھ بھی رہا ہے…
٭٭٭٭٭
وہاڑی میں سرکاری سکول کے بچوں کو ایک گھنٹہ دھوپ میں کان پکڑنے کی سزا، دو بے ہوش
شاید سکول کے ہیڈ ماسٹر کو اسی لیے اب محکمہ ایجوکیشن نے طلب کیا ہے کہ جان سکیں یہ کونسا طریقہ ہے تعلیم عام کرنے کا۔ اس قسم کے وحشیانہ طریقے کے بعد تو بیشتر طلبا تعلیم حاصل کرنے کی بجائے سکول چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہی وحشیانہ سزائوں اور مار پیٹ کے غیر کی وجہ سے ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں بچے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ تعلیم عام کرنے کا ہر پروگرام انہی مہربانیوں کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوتا ہے۔ سابق حکومت نے مار نہیں پیار کا جو نعرہ لگایا تھاوہ بھی کوئی خاص اثر نہیں دکھا سکا۔ اب تو لگتا ہے ایک بار پھر پیار نہیں مار کے اصولوں پر اساتذہ سختی سے عمل پیرا ہونے لگے ہیں۔ دیکھتے ہیں ان کے اس طرز عمل سے شرح خواندگی میں اضافہ ہوتا ہے یا وہ مزید نیچے گرتی ہے۔ طلبہ معصوم ہوتے ہیں ذرا ذرا سی بات پر انہیں ایسی سخت سزائیں دینے سے ان کی خوداعتمادی بھی متاثر ہوتی ہے اور ان میں خوف سرایت کر جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ تعلیم سے باغی ہو جاتے ہیں اور ان کی شخصیت بگڑ جاتی ہے۔ حکومت ایسے اساتذہ پرکڑی نظر رکھے اورایسی سزائوں کے خاتمے کے قانون پر سختی سے عمل کرائے۔ ڈر ضروری ہے مگر اس حد تک جہاں طالب علم بھی خوف محسوس کرے مگر اس طرح سخت سزا دینا وحشیانہ تشدد کرنا کسی صورت اساتذہ کو زیب نہیں دیتا۔ افسوس کے ہمارے سکول ہوں یا مدارس ہر جگہ یہی مار پیٹ و تشدد عام ہے۔