سوداور بینکاری نظام پر ایک قابل ذکر مکالمہ

بلاسودی سیمینار میں سرور حسین نقشبندی کی شرکت سراسر نیکی اور رحمت اور نعمت الہیٰ کا باعث تھی۔ انہوں نے حمد اور نعت میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور پوری تقریب پر ایک جامع تبصرہ بھی کردیا۔
مکالمہ ذہنی و فکری نشو و نما کا ضامن ہوتا ہے۔زندہ معاشرے اس کی اہمیت اور افادیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس کا تسلسل افراد کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں مکالمے کی فضا اور کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔اپنی بات کو حرف آخر سمجھنے سے سیکھنے اور آگے بڑھنے کا عمل تھم جاتا ہے۔ہم بات کے اختلاف کو ذات کا اختلاف بنا کر قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی دولت فکر و تدبرکے آگے خود بند باندھ لیتے ہیں۔لیکن آج بھی معدودے چندایسے لوگ موجود ہیں جو اس کی اہمیت اور افادیت کا ادراک رکھتے ہوئے اپنے تئیں اس کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔اسد اللہ غالب کا نام صحافتی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہے۔انہیں نثر کی تسبیح میں لفظوں کے موتی پروتے عمر گزر گئی ہے۔پریس کونسل برائے بین الاقوامی امور کے نام سے ان کے واٹس ایپ گروپ میں سودی نظام کے حوالے سے شروع ہونے والے بحث اس خوبصورت تقریب کے انعقاد کا سبب بنی۔سابق ڈپٹی گورنرسٹیٹ بینک سعید صاحب جنہیں بیرون ملک بلا کر خاص طور پراسی حوالے سے ذمہ داری سونپی گئی تھی۔غالب صاحب کے استفسار پر انہوں نے اس پر کی جانے والی پیش رفت پر اپناتحریری موقف بھجوایاجسے انہوں نے اپنے کالم میں جگہ دی۔تقریب کا آغاز غالب صاحب کے پوتے اور عمار بھائی کے صاحبزادے عفان کی تلاوت سے ہوا جس نے بہت پرسوز آواز میںسود کے حوالے سے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کا شرف حاصل کیا۔راقم الحروف نے میاں محمد بخش کے حمدیہ اشعار اور جناب حفیظ تائب کے نعتیہ اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔فرید پراچہ صاحب جو وفاقی شرعی عدالت میں سود ی نظام کے خلا ف ہونے والی کاروائی میں پٹیشنر ہیں بات کرتے ہوئے کہاکہ تجارت اور سود کے بنیادی فرق کو خود قرآن کریم نے کھول کر بیان کر دیا ہے۔ کسی بھی برائی کے حد سے تجاوز کر جانے سے اصول دین اور حلال و حرام کے ضابطے تبدیل نہیں ہو سکتے۔ تکمیل دین کے فرمان خداوندی کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ معیشت جیسے زندگی کے اہم شعبے کے حوالے سے کوئی مربوط سسٹم موجود نہ ہو۔مشارکہ مضاربہ اور دیگر بہت ساری اسلامک ٹرمینالوجیز کا ایک پورا نظام موجود ہے۔کیسی عجیب بات ہے کہ ہم ریاست مدینہ کا نام تو لیتے ہیں لیکن اس میں قائم کئے گئے غیر شرعی نظام کو نافذ کرنے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔اللہ اور رسول کے خلاف اعلان جنگ کے بعد ہم کیسے عافیت اور سکون حاصل کر سکتے ہیں۔فرزند ڈاکٹر اسرار جناب عاطف وحید صاحب نے بھی بہت جامع گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ سب سے گزارش کروں گا کہ سود کے حوالے سے شریعت کورٹ کا فیصلہ جو تقریبا دوسوپچاس اور سپریم کورٹ کا فیصلہ کم و بیش چھ سو صفحات پر مشتمل ہے اس کا وقت نکال کر مطالعہ ضرور کریں جن میں ایسے بہت سے سوالوں کے جوابات دئیے گئے ہیں جو آج ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں۔آج ہم سود کی رقم ادا کرنے کے لئے بھی بھاری مارک اپ پر مزید قرض لیتے جا رہے ہیں جس کے سبب نہ ہم سے انرجی پرائس کنٹرول ہو رہی ہے اور نہ ہی دیگر شعبوں میں عام آدمی کو ریلیف دینے کے قابل ہو پا رہے ہیں جس کے فی الحال دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ہم اب 31 فیصد سے بھی زائد کے حساب سے سود ادائیگی کے لئے لانگ ٹرم قرض لے رہے ہیں جو بہت مضحکہ خیز اور خطرناک صورتحال ہے۔تقریب کے میزبان افتخار سندھوصاحب بہت وضعدار اور کشادہ دل شخصیت ہیں۔عرصہ دراز بعد کسی بزنس مین کو ایسی علمی اور فکری نشست میں دلچسپی لیتے دیکھ کر بہت مسرت ہوئی۔انہوں نے کہا کے میں قرآن کا طالب علم ہوں اور تمام مسالک کے علما کے تراجم اور تفاسیر میرے مطالعے میں رہتی ہیں۔ہماری تقلیدی روش نے ہمارے تفکر اور تدبر کی صلاحیت کو جامد کر کے رکھ دیا ہے۔سب کا احترام کریں لیکن اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے جہاں ضروری سمجھیں اختلاف بھی رکھیں۔ان کا روئے سخن علما کی طرف تھا جنہیں موجودہ نظام بینکاری میں شریعت سے متصادم پہلوؤں کے متبادل پر بہت باریک بینی سے غور و فکر کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومیں علم اور اخلاق کی ترقی سے آگے بڑھتی ہیں اور ہم ان دونوں میں بہت پیچھے ہیں۔اگر صرف سود سے معاشرے تباہ ہوتے تو جن لوگوں سے ہم نے یہ نظام معیشت لیا ان کو تو اب تک رزق خاک ہو جانا چاہئے تھا۔ ابھی بھی اسلامک بینکنگ سسٹم جو بہت محنت سے مرتب کیا گیا ہے کی زیادہ تر چیزیں سوائے نام کی تبدیلی کے شرعی معیارات پر پورا نہیں اترتیں۔ہم آج کے نوجوان کو کیسے قائل کریں گے کہ ہماری بات سنے اگرہم اس پورے نظام کو سودی کہہ کر اس کی بساط لپیٹنے کی بات کریں۔
(جاری)