سینٹ انتخابات اور جوڑ توڑ

سینیٹ انتخابات کیلئے سیاسی جوڑ توڑ عروج پر پہنچ چکا ہے اور سب کی نظریں یوسف رضا گیلانی اور حفیظ شیخ کی سیٹ پر لگی ہیں کیونکہ پی ڈی ایم اپنے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کیلئے سازگار فضا بنا نے میں واضح کامیاب ہو چکی ہے اور وہ تو انہیں چیئرمین سینیٹ کا امیدوار بنا چکے ہیں۔ پی ڈی ایم اپنی حکمت عملی کے مطابق عوام میں یہ تاثر پھیلانے میں بھی کامیاب نظر آرہی ہے کہ جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے نارا ض رہنما یوسف رضا گیلانی کیلئے مہم چلا رہے ہیں اور ایک معروف پراپرٹی ٹائیکون کے فنڈز استعمال کر کے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے ووٹ لینے کی تیاری ہے اور یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو پنجاب میں مسلم لیگ ن کا آئندہ عام انتخابات میں ٹکٹ بھی ملنے کی باتیں زبان زدعام ہیں لیکن حفیظ شیخ صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے امیدوار ہیں اور وہ یہ الیکشن جیت جائیں گے البتہ اس حوالے سے پی ڈی ایم پو لیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کرتی رہے گی اور وہ اپنے سیاسی حربوں سے پی ٹی آئی اور حفیظ شیخ پر دبائو بڑھاتے رہیں گے کیو نکہ وہ اسی حوالے سے تحریک عدم اعتماد کی حکمت عملی بھی بنا چکے ہیں اور اگر یوسف رضا گیلانی کی کا میابی سے ہی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی مشروط ہے۔ سینیٹ الیکشن میں قومی اسمبلی کے 342 اراکین قومی اسمبلی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جبکہ حکومت کے پاس اتحادیوں سمیت 180 ووٹ ہیں .اور اپوزیشن اتحاد کے پاس 160 ووٹ ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو حفیظ شیخ سے جیتنے کیلئے گیارہ ووٹو ں کی برتری درکار ہے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ جی ڈی اے کے تین ووٹ، دو آزاد ارکان، جمہوری وطن پارٹی سمیت حکومت کے بارہ ارکان کے ووٹ حا صل کرلے تاکہ یوسف رضا گیلانی کی جیت ممکن ہو اور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی راہ ہموار ہو سکے ۔ پی ٹی آئی کے امیدوار حفیظ شیخ نے پی ٹی آئی حکومت میں اسد عمر، حماد اظہر کی نا کامی کے بعد عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کیلئے قرضے منظور کراچکے ہیں اور وہ قرضے ہی ملکی معیشت اور پی ٹی آئی کی بقا کے ضامن ہیں تو ایسے مضبوط امیدوار کو پی ٹی آئی کی پالیسیوں کے تسلسل اور معیشت کے استحکام کیلئے عمران خان نے ایک چیلنج کی صورت میں کامیاب کروانا ہے اور یہ امیدوار جسے طاقتور حمایت کے ساتھ مشیر خزانہ بنایا گیا تھا.اس تناظر میں اگر حفیظ شیخ کی پس پردہ حمایت کو مد نظر رکھا جائے تو اپوزیشن کی چال چائے کی پیالی میں طوفان کے سوا کچھ نہیں ہو گی۔ پنجاب میں ن لیگ کی پانچ سیٹیں عددی اعتبار سے بنتی تھیں لیکن انہوں نے دبائو بڑھانے کیلئے چھٹی سیٹ کیلئے سابق گورنر رفیق رجوانہ کو بھی میدان میں اتارا تاکہ تاثر یہ ملے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ توڑے جائیں گے۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے بھی یہی گیم کھیلی اور عددی اعتبار سے چھ سیٹیں جیتنے کی اہلیت کے باوجود سات سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کرکے امیدوار میدان میں اتارے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مدبرانہ کامیاب حکمت عملی سے پنجاب میں پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار بلامقابلہ منتخب کروا لئے۔ سینیٹ الیکشن معرکے میں عثمان بزدار کی قیادت منجھے ہوئے سیاستدان کے طور پر سامنے آئی ہے جبکہ سیاسی ہم آہنگی عثمان بزدار کی بردباری کا نتیجہ ہے جس کی بدولت سیاسی محاذآرائی سے گریز ممکن ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ الیکشن میں جو صورتحال پنجاب میں سامنے آئی دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔