خلائی مشن، ’’سپارکو‘‘ کو فعال کرنے کی ضرورت

متحدہ عرب امارات ، چین اور امریکہ کے خلائی مشن فروری 2021 میں مریخ پر پہنچ چکے ہیں عرب امارات اور چین پہلی بار مریخ پر پہنچے ہیں امریکہ کی ایک خلائی گاڑی اس سے قبل بھی مریخ پر لینڈ کر چکی ہے عرب امارات کا ہوپ خلائی مشن 9 فروری کو مریخ کے مدار میں داخل ہوا اور چین کا تیان ون خلائی مشن 10 فروری کو وہاں پہنچا جس کی لینڈنگ مئی میں ہوگی امریکی ناسا کے پرسیوریس مشن نے 18 فروری کو مریخ پر کامیاب لینڈنگ کر لی ہے مریخ پر فروری 2021 میں پہنچنے والے یہ خلائی مشن جولائی 2020 میں روانہ ہوئے تھے۔۔۔ انڈیا بھی 2014 میں اپنا خلائی مشن منگلان مریخ پر بھجوا چکا ہے اب مریخ پر انڈیا جاپان اور امریکہ کی مدد سے داخل ہونے والا متحدہ عرب امارات پہلا اسلامی اور دنیا کا پانچواں ملک ہے جو مریخ کے مدار میں داخل ہوا اس کے بعد چین دنیا کا چھٹا ملک ہے جو مریخ پر جانے میں کامیاب ہوا ہے لیکن اب تک مریخ کی سطح پر لینڈنگ صرف امریکہ نے کی ہے جس کے بعد اب چین کا تیان ون اگر مئی میں کامیاب لینڈنگ بھی کر گیا تو وہ مریخ پر لینڈنگ کرنے والا دنیا کا دوسرا ملک ہوگا جس کے خلائی مشن وہاں ڈرلنگ سے زمین کی کھدائی کریں گے اور مریخ کی مٹی سے پتہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ مریخ پر ہزاروں سال قبل انسانی وجود کے آثار تو ملتے ہیں لیکن انسانی زندگی اب وہاں موجود نہیں ہے ایسی کیا تباہ وکاری ہوئی جس نے مریخ کے پانیوں جھیلوں کو ختم کر دیا اور مریخ پر موجود انسانی زندگی کے آثار کتنے ہزار سال پرانے ہیں۔ چین کا بھجوایا گیا تیان ون کام کرے گا جس سے انسانی سائنسی ترقی اس قابل ہو جائے گی کہ مریخ پر جا کر واپس بھی آ سکے اور وہاں سے حاصل کیے گئے نمونہ جات زمین پر لاکر اْن پر تجربات کئے جا سکیں 2030 تک ایسی ٹیکنالوجی کا وجود ممکن بتایا جا رہا ہے کہ مریخ پر بھجوائے جانے والے مشن واپس بھی لائے جا سکیں گے۔
امریکی خلائی ادارہ ناسا 1990 میں ہیبل نامی اپنی خلائی دوربین بھی خلا میں بھیجنے میں کامیاب ہو گیا تھا اب امریکی ربورٹ پرسیوریس مریخ پر لینڈ کیا ہے جس پر بیس طاقتور کیمرے نصب ہیں یہ ربورٹ اپنا ڈرون ہیلی کاپٹر بھی مریخ پر اْڑائے گا جس پر دو کیمرے نصب ہیں جو چھ سو میٹر تک سفر بھی کر سکے گا۔
چین کا چیننگ فور مشن 2019 میں چاند پر بھی لینڈ کر چکا ہے جبکہ امریکی ناسا کا اپالو 8 اس سے قبل دسمبر 1968 میں چاند پر پہنچ کر 1969 میں لینڈ بھی کر چکا تھا۔ ایک چینی نجی کمپنی جیننگ ڈو نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ 2022 تک خلا میں ایسا نقلی چاند بنانے میں کامیاب ہو جائے گی جس سے رات کو زمین کا 80 کلومیٹر تک کا علاقہ بنا سٹریٹ لائٹ کے روشن ہو جائے گا لیکن اس سے بہتر تجربہ تو آٹھویں صدی میں سلطنت اْموریہ کے دوران خراسان میں ایک دھوبی کے گھر پیدا ہونے والا کیمیا دان ہاشم عرف ابن مقنہ بھی بغیر خلا میں پہنچے کر چکا ہے جس نے چاند بنا کر خدائی کا دعوی کر دیا تھا اْس کا بنایا چاند ایک کنویں سے ہر رات طلوع ہوتا اور دو سو کلومیٹر تک کے علاقے کو روشن کر دیتا تھا بعد میں خلیفہ مہدی کی فوج نے ابن مقنہ کا خاتمہ کیا تو اس کا بنایا چاند بھی خودبخود ختم ہو گیا تھا۔
اِس دہائی کے پاکستانیوں کے لیے شاید یہ بات حیران کن ہو کہ 1960 اور 1970 کی دہائی میں پاکستان کا خلائی ادارہ سپارکو بھی دو سو راکٹ خلا میں بھجوا چکا تھا اور اسرائیل جاپان کے بعد دنیا کا دسواں اور ایشیا کا تیسرا ملک تھا جو خلا میں اپنے راکٹ بھجوا رہا تھا 1962 میں پاکستان کا رہبر ون راکٹ خلا میں گیا اور رہبر ٹو راکٹ سے متذکرہ اعزاز پاکستان کو ملے لیکن رہبر ٹو پاکستان کا آخری راکٹ ثابت ہوا کیونکہ 1970 کے بعد کی پاکستانی حکومتوں نے خلائی ادارے سپارکو کی سانسیں بند کرنا شروع کردیں سپارکو کی بدولت ہم میزائل ٹیکنالوجی شروع کرسکے اور اپنا پاک سیٹ سیٹلایٹ خلا میں بھیجا تھا مرحوم بھٹو نے سپارکو کے سائنسدان دیگر اداروں میں شفٹ کر کے وہاں سول و ملٹری افسران تعینات کردئیے اْن سے اگلے دور میں سپارکو کے فنڈز روک دئیے گئے اور سپارکو کے مدمقابل دیگر میزائل ٹیکنالوجی کے ادارے بنا دئیے گئے اب بھی کہیں سپارکو کے تحت کوئی خلائی مشن 2040 زیر تکمیل تو ہے لیکن امریکہ اور چین تو 2030 تک مریخ میں اپنے تجربات کی تکمیل کر کے وہاں باقاعدہ انسانی قدم بھی رکھ چکے ہوں گے اس کے بھی دس سال بعد ہم صرف مریخ کے مدار میں داخل ہونے کا تجربہ کر رہے ہوں گے اب بھی وقت ہے کہ پاکستانی سپارکو کو فعال کر کے پہلے کی بنیادوں پر چلانے کے فوری اقدامات کئے جائیں تاکہ آنے والے وقتوں میں ہم انڈیا سمیت دنیا کی سائنسی ایجادات کا مقابلہ کر سکیں۔