یہ سوال خود بخود ذہن میں ابھرتا ہے کہ جب چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کو پی سی او پر حلف نہ لینے پر ہٹایا گیا تو ان کی بحالی کے لیے تحریک کیوں نہیں چلائی گئی اسی طرح چیف جسٹس منیر چیف جسٹس انوار الحق کے فیصلوں کے خلاف کیوں نہ وکلاء میدان میں آئے یا عوامی تحریک چلائی گئی شاید اس لئے کہ مارشل لاء دور میں ایسی تحریک چلانا آسان نہیں لیکن یہ انقلاب یا تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کے باعث پارلیمنٹ اور جمہوریت بحال ہوچکی تھی۔ اس کی وجہ ہم بتاتے ہیں کہ تب پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 والا آرمی چیف جنرل مشرف نہیں رہا تھا اب وہ محض آئینی سربراہ مملکت رہ گیا تھا۔میں معترف ہوں کہ وکلاء نے جمہوریت کی بحالی کے لیے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر قربانیاں دیں اور آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ اس اعتراف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں بنیادی طور پر کل وکیل بھی تھا اور آج بھی وکیل ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ معزز پیشہ قائداعظم کا تھا اور میں قائداعظم کا عقیدت مند ہوں۔
آمدم بر سر مطلب ظفر علی شاہ کیس کی سماعت کے دوران میں نے ہر وکیل سے پوچھا کہ یہ معاملہ (جنرل مشرف) کا مارشل لاء بڑی حساس نوعیت کا ہے، بہت اہم ہے اس کے فیصلے کے دوررس نتائج ہوں گے آپ میری مدد کریں۔ تین مہینے کی سماعت کے اختتام پر ہم (سپریم کورٹ) نے کہا دیکھو ٹیک اوور تو ہو گیا جو ہو چکا اس کو تو ریورس نہیں کر سکتے۔ اب کوئی ایسا فیصلہ کریں جو درست ہو اور لوگوں کی امنگوں کے مطابق ہو۔ آئیں رائے د یں تاکہ اس کی روشنی میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔ ہم نے خالد انور سے پوچھا آپ بتائیں معاون دوست ڈاکٹر ایس ایم ظفر کی رائے طلب کی خالد انور نے اپنی بحث کے دوران کہا کہ آپ یہ کریں جو ہو چکا اسے کنڈون کریں اگر کنڈون نہیں کریں گے تو ملک میں انارکی پھیلے گی ملک میں افراتفری ہو گی جو ہم نہیں چاہتے لیکن ساتھ ہیں ایک معقول ٹائم فریم دیدیں کہ یہ کب واپس جائیں گے۔ ڈاکٹر ایس ایم ظفر نے کہا اگر عدلیہ جنرل مشرف کو عارضی طور پر اقتدار کے جواز کا حقدار سمجھتی ہے تو اسے اس بات سے مشروط کیا جائے کہ وہ جلد سے جلد افواج پاکستان کو ان کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے اقتدار سے واپس کرتے ہوئے ایک طے شدہ مدت میں ملک میں انتخابات کے ذریعے اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کریں اور عدلیہ وہ غلطی نہ کرے جو اس سے نصرت بھٹو کیس میں ہوئی جب فوج کی واپسی کا مکمل نظام نہیں دیا گیا تھا۔
ظفر علی شاہ کیس سے قبل مسلم لیگ کے لیڈر جناب سرتاج عزیز کی طرف سے پٹیشن دائر کی گئی کہ اگر انتخابی فہرستوں کو اپڈیٹ نہیں کریں گے تو کروڑوں ووٹرز حق رائے دہی سے محروم رہ جائیں گے اور اتنے لوگوں کی حق تلفی سے الیکشن شفاف کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتا انہوں نے سپریم کورٹ سے یہ استدعا کی کہ الیکشن کمیشن انتخابی فہرستیں اپڈیٹ کرے۔ ظفر علی شاہ کیس کے دوران بھی چیف الیکشن کمشنر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہمیں ساری انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنا ہے۔ حلقوں کی حد بندیاں کرانی ہیں۔ ہم نے آبجیکشنز لینے ہیں۔ الیکٹورل رول کے اپ ڈیٹ ہونے پر کسی کو اعتراض نہیں تھا میں نے کہا کہ جب ہم اس چیز کا جوڈیشل نوٹس لیتے ہیں کہ الیکٹورل رول اپڈیٹ نہیں ہے تو ہم کیسے کہہ دیں کہ کل الیکشن کرادو ہمارا تو دل چاہتا ہے کہ فورا الیکشن کرا دیں مگر الیکٹورل رول اپڈیٹ نہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نہیں ہے۔ جب کہ چیف الیکشن کمشنر کہتے ہیں انہیں دو سال کا عرصہ درکار ہے اس پر ہم نے کہا کہ ہم تین سال دیتے ہیں اور اس مدت کا پہلا دن ٹیک اور سے شروع ہوگا اس وقت ٹیک اوور کو چھ ماہ ہوگئے تھے باقی ڈھائی سال میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔
جنرل مشرف کو تین سال میں انتخابات کرانے کا پابند مسلم لیگ نون کے وکیل خالد انور معاون دوست ایس ایم ظفر اور دیگر وکلاء صاحب کے دلائل اور سرتاج عزیز کی پٹیشن کی روشنی میں کیا گیا۔ مشرف حکومت انتخابات سے فرار چاہتے تھی لیکن ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کی بدولت انہیں انتخابات کرانا پڑے آئین مکمل طور پر بحال ہوا اور اکتوبر دو ہزار دو میں ایک جمہوری سفر کا آغاز ہوا جو آج بھی جاری ہے کیونکہ جنرل پرویز مشرف کو اس شرط کے ساتھ قانونی حیثیت دی گئی کہ انتخابات بارہ اکتوبر 2002 سے قبل کرائے جائیں اور اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ 12 مئی دو ہزار کو آیا جو اکیلے ارشاد حسن خان کا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے بارہ رکنی لارجر بینچ کا متفقہ فیصلہ تھا۔ مخالفین کا پراپیگنڈہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ میں نے بن مانگے چیف جسٹس کی حیثیت سے جنرل مشرف کو تین سال کی مہلت دی اور اس کے عوض مجھے تین سال کے لیے چیف الیکشن کمشنر بنا دیا گیا یہ ایک آئینی عہدہ تھا جس کے لیے میں نے کسی کا کندھا استعمال نہیں کیا۔
جنرل مشرف کا یہ موقف تھا کہ انہیں آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے۔ کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ تمہیں ترمیم کا قطعی اختیار نہیں آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ایک طریقہ ہوتا ہے بات کہنے اور تحریر کرنے کا۔ سلجھے انداز میں بات کی جاتی ہے مثلا میں آپ سے غلط بیانی کر رہا ہوں آپ کہہ سکتے ہیں آپ جھوٹے ہیں یہ بھونڈا انداز ہے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ سچ نہیں بول رہے ہم نے فیصلے میں دوسرا طریقہ اختیار کیا وہ لوگوں نے پڑھا ہی نہیں۔ بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ دانشور حضرات سیاست دان اور پڑھے لکھے لوگ بھی بغیر پڑھے بہت سی باتیں کر دیتے ہیں۔یہ کورٹ کی ججمنٹ تھی جس میں گیارہ جج بیٹھے تھے یہ ارشاد حسن خان کا فیصلہ نہیں تھا ہم نے تو انہیں ترمیم کا اختیار دیا ہی نہیں۔
خلیل الرحمٰن خان اور ناصر اسلم زاہد کوئٹہ میں تھے کوئٹہ میں ایک پٹیشن آئی کی سنیارٹی کی بنیاد پر سجاد علی شاہ پر چیف جسٹس نہیں بن سکتے اس معاملے میں، میں سینئر تھا میں نے اس پر فیصلہ دیا ہم نے حکومت پاکستان کو نوٹس دیا اور کہا کہ بادی النظر میں سنیارٹی کے حساب سے یہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نہیں بن سکتے تھے اس کے بعد یہ کیس فل کورٹ کو ریفر ہوا تمام 11 ججز بیٹھے اور انہوں نے فیصلہ دیا کہ انہیں سنیارٹی کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا جائے۔ اس کے بعد اجمل میاں چیف جسٹس آف پاکستان بنے۔
صدر رفیق تارڑ مجھ سے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لینے لگے تو کہا ارشاد اللہ کی شان دیکھو کہ مجھے آپ سے حلف لینا پڑ رہا ہے (مطلب یہ کہ میرا بس چلتا تو میں آپ کو پاکستان کا چیف جسٹس نہ بننے دیتا) ان ریمارکس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ میرے اور ان کے مابین کیسے تعلقات تھے میرے ان کے درمیان کبھی اچھے تعلقات نہیں رہے ہمیشہ آپس میں لگتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود یہ کہنا سچ کے قتل کے مترادف ہوگا کہ وہ بریف کیس لے کر کوئٹہ گئے تھے۔ یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے میں کوئٹہ بینچ کی سربراہی کر رہا تھا لیکن میرے ساتھ خلیل الرحمٰن اور ناصر اسلم زاہد بھی تھے یہ دونوں جج صاحبان اچھی شہرت کے مالک ہیں یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہ دونوں میرے زیر اثر نہیں تھے۔ یہ کوئٹہ بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا نہ کہ صرف میرا۔ یہ ایک عبوری فیصلہ تھا بعد میں سپریم کورٹ کے ایک اور لارجر بینچ نے جناب سعید الزمان صدیقی کی سربراہی میں اس فیصلے پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی تھی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024