کرونا وائرس …پریشان ہونے کی ضرورت نہیں
’’کرونا وائرس ‘‘(SARS COV-2)نے اس وقت چائنا اور پاکستان سمیت پوری دنیا کو پریشان کر رکھا ہے ،لیکن ہمیں ایک بات اپنے ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ کرونا وائرس کسی بھی صورت خطرناک نہیں ،اس سے بھی زیادہ خطرناک اور جان لیوا بیماریاں یہاں پہلے سے موجود ہیں۔لیکن ہمیں ان کا ادراک نہیں ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHOکی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال صرف نمونیہ اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں اسہال (diarrhoea)ابچے مر جاتے ہیںاور امراض قلب کے باعث بھی 2لاکھ افرادہلاک ہو جاتے ہیں ۔پاکستان میں ہر سال 8میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر سے موت کی وادی میں اتر جاتی ہے ۔اسی طرح ہزاروںافراد ٹی بی(TB) کی وجہ سے مر جاتے ہیں ۔ان تمام اعداد وشمارکی روشنی میں کرونا وائرس کا جائزہ لیا جائے تو 15دسمبر 2019ء کو چائنا کے شہر ووہان سے سر اٹھانے والے وائرس سے اب تک چائنا میں 2700سے زائدافراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ایران میں 50کے قریب انسانی جانوں کے ضیاع کی اطلاعات ہیں۔اور یہ دیگر ممالک میں بھی پہنچ چکا ہے اس کے برعکس پاکستان میں کرونا وائرس صرف4مریضوں میں پایا گیا ہے ۔’’کرونا ‘‘بنیادی طورپر اٹلی زبان کا لفظ ہے ،جس کا مطلب ’’تاج‘‘ ہے ،اس میں وائرس کے جسم پر بھی تاج کی طرح کی شاخیں نکلی ہوتیم ہیں اس لیے اس کا نام ’’کرونا ‘‘رکھا گیا ہے ۔سب سے پہلے یہ مرض 1937ء میں دریافت ہواتھا ۔اس وقت یہ مرض پرندوں خاص طور سے مرغیوں میں پایا گیا اس وائرس کی وجہ سے پولٹری کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا تھا ۔لیکن انسانوں میں یہ پہلی بار 1960ء میں دریافت ہوا۔یہ وائرس چین میں اس لئے پھیلا کہ یہاں کے لوگ چمگادڑ،بچھو ،سور،سانپ،بلیاں، کتے،چھپکلیاں اور شارک مچھلیاں بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔جن میںموجود جراثیم سے یہ مرض پیدا ہوتا ہے بنیادی طور پر یہ جانوروں کی بیماری ہے لیکن اس نے اپنی جینیز تبدیل کی تو یہ انسانوں میں بھی پھیلنے لگی ۔لیکن یہ وائرس انسانوں سے جانوروں کو نہیں لگتا ۔اطلاعات کے مطابق یہ وائرس ووہان نامی چائناسٹی سے دوران ریسرچ لیبارٹری سے لیک ہوا اور پھر یہ دیگر شہروں میں پھیل گیا ۔کرونا وائرس کی درج ذیل 7اقسام ہیں 229E,OC43,NL63,MERS- COV,SARS-COV,N-COV2019 ۔پہلی 4طرح کے وائرس عام نزلہ، زکام پیدا کرتے ہیں اور یہ زیادہ خطرناک نہیں ، دسمبر2002ء میں SARS(Server Acute Respiratory Syndome)نامی بیماری جو چائنا سے پھیلی تھی ۔وہ کرونا سے ہی ملتی جلتی تھی۔اس وقت بھی اس نے کافی تباہی پھیلائی تھی ۔اسی طرح MERS(MIDDLE EAST RESPROTARY SYNDROM)نامی بیماری نے بھی تباہ کن اثرات مرتب کئے تھے ۔ ان دونوں بیماریوں میں شرح اموات 10فیصد سے زیادہ نہیں رہی جبکہ اگر کرونا وائرس جسے (SARS COV 2بھی کہتے ہیں،سے شرح اموات پر غور کیا جائے تو یہ صرف 2فیصدسے بھی کم ہیں ۔ کسی مریض میں اس وائرس کے پیدا ہونے کے بعد اس کی علامتیں ظاہر ہونے میں 2ے10دن لگ سکتے ہیں۔کرونا کی علامات Common Coldاور Flueسے ملتی جلتی ہیں،مثلاً بخار، سردرد،کھانسی،گلے میں درداور بعض حالتوں میں نمونیہ اور پھیپھڑوں کا فیل ہونا بھی شامل ہیں ۔حاملہ خواتین بھی اس مرض سے متاثر ہو سکتی ہیں ۔ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ یہ بیماری ایسے عمر رسیدہ افراد ، بچوں یا ایسے افراد جو کسی پرانی بیماری کا شکار ہوں،اورجن کی قوت مدافعت کم ہوجائے ،کرونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب تک شرح اموات بھی انہی لوگوں میں زیادہ پائی گئی ہے ۔یہ مرض کھانسنے سے ، چھینکنے سے اور ہاتھ ملانے سے بھی ایک مریض سے دوسرے انسان کو لگ سکتا ہے اس کے علاوہ وائرس سے متاثرہ حصے کو چھونے یا چیزوں کو ہاتھ لگانے سے بھی یہ مرض حملہ آور ہو سکتا ہے ۔کچا گوشت کھانے سے بھی یہ مرض لگ سکتا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق مریض کے زیر استعمال اشیاء پر یہ وائرس 9دن تک زندہ رہ سکتا ہے ۔لیکن یہ وائرس 30سے 40ڈگری پر ازخود مر جاتا ہے ۔اس لئے امید کی جا سکتی ہے کہ گرمی کے شروع ہوتے ہی یہ بیماری ختم ہو جائے گی۔کرونا وائرس کی علامت سے آگاہی بھی ضروری ہے ،اس لئے ہمیں ہ جان لینا چاہئے کہ جب کسی انسان کو فلو ،بخار یا سردرد کی شکایت کے ساتھ ساتھ ناک سے رطوبتیں خارج ہونے لگیں یا آنکھوں میں سوزش محسوس ہونے لگے تو سمجھیں کہ یہ کرونا وائرس کا حملہ ہے لیکن ایسی صورت میں پریشان ہونے کی بجائے ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا ضروری ہے ۔اس کیلئے فوری طور پر خون کے مختلف ٹیسٹس کروا لینا چاہئے جیسے کہ Anti body testاورPCRوغیرہ۔ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ یہ مرض اس قدر پھیلاؤ کی جانب بڑھ رہا ہے کہ اس کیلئے Test مطلوبہ مقدار میں دستیاب ہی نہیں ہیں ۔عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق کرونا وائرس کی ابھی تک کوئی ویکسین تیار نہیں کی جا سکی ،مارکیٹ میں Anti-Viral Drugsکی عدم دستیابی کی شکایات بھی عام ہیں۔جو اس مرض پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ اگر انسان کو کسی قسم کی فلو ، بخار یا سردرد کی تکلیف محسوس ہو رہی ہو تو ایسی صورت میںبڑوں کیلئے پیرا سیٹامول کی گولیاں جبکہ بچوں کوپیراسیٹامول کا سرپ استعمال کروایا جا سکتا ہیں ۔نمونیہ کی صورت میں فوری طور پر کسی ماہر معالج سے رجوع کیا جانا چاہئے ۔موجودہ حالات میں اس بات کا ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ اگر کرونا وائرس کی علامات کی بروقت تشخیص ہو جائے تو مریض کو ایسی ادویات یا غذائیں دی جائیںکہ جن سے متاثرہ شخص کی قوت مدافعت میں خاطرخواہ اضافہ ہو سکے ۔بروقت تشخیص ہوتو یہ مرض زیادہ خطرناک نہیں ،اس پر قابو پانا ممکن ہے ۔کرونا کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں علاج کے ساتھ ساتھ متاثرہ فرد کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنا چاہئے ۔ایسے کام سے اجتناب کرنا لازم ہے کہ جس سے تھکاوٹ محسوس ہو ، زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے ۔سگریٹ نوشی سے پرہیزضروری ہے ۔باربار ہاتھ دھونے چاہئے ،ہوسکے تو بھاپ لی جائے ، دستانے اور ماسک پہنیں ،ہاتھوں کو خشک رکھیں ،اور جانوروں کے نزدیک جانے سے احتیاط برتنا چاہئے ۔اگر کسی عورت کو جو اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے ،اس مرض کا شکار ہوجائے تو اسے اپنے بچے کو دودھ پلاتے رہنا چاہئے کیونکہ ماں کے دودھ میں موجود Anti Bodiesوائرس سے محفوظ رکھتی ہیں۔مریض کے زیر استعمال چیزوں کو65فیصد ایتھانول (ETHANOL)ٰٓیا ایک فیصدسوڈیم ہائیڈو کلورائیڈ(SODIUM HYPOCHLORIDE)ٰٓیا پھر 5ٰٖفیصدہائیڈروجن پر آکسائیڈ(HYDROGEN PER OXIDE)سے صاف کرنے سے بھی ایک منٹ میں وائرس مرجاتا ہے ۔پاکستان میں کرونا وائرس نے ہر سطح پر تشویش پیدا کر رکھی ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ صحت عامہ کے حوالے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں ۔کرونا وائرس ہی نہیں دیگرتمام امراض کے بارے بھی شعور آگاہی مہم کو ہنگامی بنیادوں پر چلایا جانا چاہئے ۔کیونکہ بیماریوں کے اسباب ، احتیاطی تدابیر اور علاج کے حوالے سے معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بھی شہریوں کو بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑتاہے ۔بلاشبہ!بیماریاں اور پریشانیاں اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوا کرتی ہیں ، اس قسم کی صورتحال میں ہمیں چاہئے کہ ہم صبر و برداشت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں ۔کرونا وائرس کی اطلاعات کے ساتھ ہی بعض حلقوں نے بلاوجہ عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی باقاعدہ ایک مہم چلا رکھی ہے ،جس کی وجہ سے لوگوں میں ذہنی اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے ۔یہ وقت اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم آزمائش کی اس گھڑی میں عوام کا حوصلہ بڑھائیں ۔کیونکہ کسی بیماری کے آنے سے زیادہ وہ کیفیات تکلیف دہ ہوا کرتی ہیں جو ہم اپنے اپنے فائدے کیلئے انہیں استعمال کرنے لگتے ہیں۔