پیر‘ 6 ؍ رجب المرجب ‘ 1441ھ ‘ 2 مارچ 2020 ء
ہمارے میڈیا نے 26 فروری کی نام نہاد سرجیکل سٹرائیک پر جشن منالیا بھارتی رہنمائوں کی مذمت
سچائی کو اپنا وجو دثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خودبخود آشکارہ ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس جھوٹ کو بار بار ہر جگہ سب کے سامنے دہرانا پڑتا ہے کہ لوگ اس پر یقین کر لیں۔ مگر پھر بھی جب سچ کا سورج طلوع ہوتا ہے تو جھوٹ کی سیاہی خودبخود ختم ہونے لگتی ہے۔ ایسا ہی سچ پاکستانی نہیں یورپی میڈیا بھی سامنے لا کر بھارت کے جھوٹ کو بے نقاب کر رہا ہے۔ 27 فروری 2019ء اور اس سے قبل پلوامہ حملے کے ڈرامے کو رچاتے ہوئے بھارتی حکومت اور میڈیا نے جھوٹ کو فریب کا جو طومار باندھا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے عملی طور پر سچائی کا مظاہر کرتے ہوئے اس جھوٹ کا جواب دیا وہ بھی دو طیارے مار گرا کر اور بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو زندہ گرفتار کر کے ۔بے شک
رات کے ماتھے پر آزاد ستاروں کا ہجوم
ہے فقط صبح درخشاں کے طلوع ہونے تک
آج خود عالمی میڈیا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ پلوامہ ڈرامے کے بعد بھارت نے جو سرجیکل سٹرا ٹیکس کا ڈرامہ رچایا وہ جھوٹ کا پلندہ تھا۔ 300 دہشت گرد تو کیا بھارت 3 کوے بھی نہ مار سکا۔ پاکستان نے اس وقت عالمی میڈیا کو علاقے کا دورہ کرایا جہاں کوئی کیمپ نہیں تھا بس ایک مرا ہوا کواا ملا۔ اب تو بھارتی میڈیا اور فوج بھی اپنے جھوٹ پر شرمندہ ہے۔ یورپی جریدہ ’’ماڈرن ڈپلومیسی‘‘ نے جس طرح آئی ایس پی آر کے کردار کو سراہا ہے اس نے تو بھارتی حکومت اور میڈیا کے جھوٹ کو مکمل بے نقاب کر دیا ہے۔ بھارت کے رہنما تو مذمت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ جب ہمارا میڈیا نام نہاد سرجیکل سٹراٹیکس کا جھوٹا جشن منا رہا تھا۔ پاکستان میڈیا کرکٹ میچ سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
زمین کا ایک اور چاند دریافت جسا مت چھوٹی کار جتنی ہے‘ رپورٹ
ابھی تو ہم دنیا والے ایک چاند کے سحر سے خود کو آزاد نہیں کر پائے تھے کہ اب یہ دوسرا چاند کہاں سے آن ٹپکا۔ اب اگر
مجھ کو ڈر ہے کہیں لڑ جائیں نہ قاتل قاتل
والا معاملہ درپیش ہو اور چاند بمقابلہ چاند آ گیا تو کیا ہوگا۔ ابھی تو اس ایک چاند کے تصور نے ہر دل میں اپنا چاند بسا رکھا ہے۔ کئی لوگ تو چاند کے معاملے میں کافی خوش قسمت ہیں۔ انہوں نے یک وقت کئی چاند پال رکھے ہیں اپنے ننھے دل میں۔ بس خطرہ تب ہوتا ہے جب یہ ایک سے زیادہ چاند کسی قرن السعدین میں ایک جگہ جمع نہ ہو جائیں۔ پھر صورتحال کافی خراب ہو سکتی ہے۔ یہ آپس میں ٹکڑا کر تباہی کی بھیانک مثال قائم کرسکتے ہیں۔ یوں تو کرہ ارض پر آسمانی چاند کے مقابلے میں کروڑوں چاند چمکتے ہیں۔ کسی کی نگاہوں میں کسی کے دل میں کسی کے آنگن میں کسی کے خواب و خیال میں۔ آسمانی چاند پر تو بس نئے چاند کے موقع پر یامہ کامل یعنی چودھویں کے روز ہی نظر جا اٹکتی ہے۔ اس کے برعکس شاعر تو اپنے چاند کی جھلک دیکھ کر پاگل سے ہو جاتے ہیں اور
تم چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو
کہتے پھرتے ہیں۔ اب اگر یہ نیا چاند بھی مطلع فلک پر طلوع ہونے لگا تو پھر کیا ہو گا۔ ذرا تصور کریں کہ آسمان پر دو چاند اور زمین پر کروڑوں چاند جب آمنے سامنے ہوں گے تو پھر کس کے حواس بجا رہیں گے۔
پھاٹک لگانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے‘وزیر ریلوے
ٹرین حادثات کے حوالے سے محکمہ ریلوے الزمات کی زد میں رہتا ہے۔ جس میں بے شک ریلوے کی کوتاہیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر سارا الزام اسی پر دھرنا بھی درست نہیں کیونکہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ بسوں، ویگنوں، رکشوں اور کاروں کے ساتھ ٹرین کی ٹکر کا اگر جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں زیادہ تر دوش گاڑی والوں کا ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ سوچے سمجھے بغیر ٹرین کو دیکھنے کے باوجود رکنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اور نڈر بننے کے چکر میں لڑا دے ممولے کو شہباز والی حرکت کرتے ہوئے۔ ٹرین کے سامنے سے گزرنے کی دلیرانہ حماقت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔ ایسے حادثات کھلے پھاٹک والے کراسنگ پر رونماہوتے ہیں۔ صرف یہی کیا بند پھاٹک والے کراسنگ پر بھی موٹرسائیکل سوار اور پیدل حضرات سر پر پہنچی ٹرین کو دیکھنے کے باوجود خود کو سپرمین خیال کرتے ہوئے اس کے آگے سے گزرنے کی کوشش کرتے۔ اور حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔ بے شک کھلے کراسنگ حادثات کا سبب ہیں تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ریلوے اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ، پھاٹک لگوائے تا کہ ٹرین کی آمد پر یہ راہ بند ہو اور ڈرائیور کو رکنا پڑے۔ اسی طرح بند پھاٹک سے گزرنے کی کوشش کرنے والوں کی موٹر سائیکل ضبط کی جائے تو شاید بہت سے سپرمین انسان بن سکیں اور حادثوں کی شرح کم ہو۔
بنگلہ دیش میں بھارتی مسلمانوں کے قتل عام کیخلاف احتجاجی مظاہرہ
بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف نکلنے والے یہ احتجاجی جلوس اور مظاہرے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اندرا گاندھی کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کرنے کا دعوی جھوٹ تھا۔ اگر یہ بات سچ ہوتی تو آج بھارت کے گلی کوچوں میں خاص طور پر بھارت کے دل دہلی میں مسلمانوں کا یوں قتل عام نہ ہوتا۔ ان کی املاک نہ جلائی جاتیں۔ انہیں حب الوطنی کا درس مار مار کر ’’وندے ماترم‘‘ پڑھا کر نہ دیا جاتا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ بھارت میں اس کے اپنے شہریوں کا قتل عام صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ صرف نام پوچھ کر گولیاں ماری جا رہی ہیں جس پر شک ہو اسکے کپڑے اتار کر چیک کیا جاتا ہے کہ یہ کہیں مسلمان تو نہیں۔ اس سے بڑھ کر اب دو قومی نظریہ کی سچائی کا ثبوت اور کیا ہو گا۔جس بنگلہ دیش کو بنا کر بھارت خوش تھا آج اسی بنگلہ دیش میں لاکھوں مسلمان اپنے ہندوستانی مسلمان بھائیوں کے خلاف بھارتی حکومت اور آر ایس ایس کی غنڈہ گردی پر سراپا احتجاج ہیں۔ یہ ہے اس دو قومی نظریئے کا زندہ ثبوت جو دنیا دیکھ رہی ہے اور اسے تسلیم بھی کر رہی ہے۔ آج سب مسلمان قائداعظم کی فراست اور عظمت کو سلام پیش کر رہے ہیں۔ یہ ہندوستانی نیشنلزم اور سیکولر ازم اور اسکے ماننے والوں کی شکست نہیں تو اور کیا ہے۔