پیر طریقت، رہبر شریعت حضرت صاحبزادہ پیر سید عبداللہ شاہ
تحریر:ایس اے حکیم القادری
نبی رحمت حضرت محمد مصطفیؐکی محبت جوہر ایمان ہے اور اسی طرح حضرات اہل بیت کی محبت اور عقیدت بھی ایمان کا تقاضا ہے۔ ہر چند کہ انساب وخاندان کی تقسیم کا بنیادی مقصد، امتیاز اور تعارف ہے لیکن اس ضمن میں خانوادہ رسولؐ کو خاص شرف حاصل ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے مجھے قریش کے بہترین خاندان میں معبوث فرمایا، قیامت کے روزتمام نسب منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے نسب کے۔ آپؐ کے نسب پاک کا فیضان قیامت تک جاری رہے گا۔قرآن پا کی آیت تطہیر اور آیت مودت اہل بیت کی شان وعظمت کی روشن دلیل ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضورؐسے سنا کہ تم’’میرے اہل بیت کو اپنے نزدیک وہی حیثیت دو جو جسم میں سر اور سرمیں دوآنکھوں کو ہوتی ہے‘‘
گویا اہلبیت کی محبت جہاں جزوایمان ہے وہاں ذہنی صلاحیتوں کو صراط مستقیم پر چلانے کا پیمانہ بھی ہے اور اہل بیت کی شان میں گستاخی اورانہیں ایذاد ینا اپنے ایمان کو زائل کرنے کے مترادف ہے، فرمان نبویؐ ہے کہ جس نے میرے اہل بیت اور قریب ترین رشتہ داروں کو ایذا پہنچائی اس نے یقیناً مجھے ایذا پہنچائی۔
کمزور چیونٹی نے خواہش کی کہ درکعبہ تک پہنچ جائے تو اس نے کبوتر کے پائوں کو ہاتھ سے تھاما اور اچانک وہاں پہنچ گئی۔حدیث نبویؐ ہے کہ میرے اہل بیت تمہارے اندر کشتی نوح کی مانند ہیں جوکوئی اس پرسوار ہوگیا اس کی نجات پائی اور جوکوئی اس سے پیچھے رہ گیا غرق ہوگیا۔ لہذا ان کمالات کو ان کی تمام شاخوں سمیت جو مختلف ولایات کا مرکز ہیں اسی خاندان میں جاری کیا گیا ہے اور اسی چشمہ فیض کو برقرار رکھا گیا ہے ،یہی اہلبیت اولیاء امت کے روحانی سلسلوں کا مرجع ہیں ۔انہی اولیاء امت میں سے ایک نواسہ رسول، جگر گوشہ بتولؓ حضرت صاحبزادہ پیر سید عبداللہ المعروف سید بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں جو 1881ء بروزسوموار بوقت 2 بجے پیدا ہوئے۔آپ بچپن سے ہی خوش اخلاق اور حسین و جمیل تھے۔ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد گرامی سے حاصل کی، فقہ حدیث اورتفسیرآپ نے وقت کے اکابر علماء سے حاصل کی ۔آپ سیرت کے ساتھ ساتھ صورت کے بھی بادشاہ تھے، جو بھی ایک نظر آپ کو دیکھتا آپ کا ہی ہوکر رہ جاتا۔آپ فہم و فراست،ریاضت وعبادت ،زاہد ومجاہدہ ،تقویٰ و طہارت اور صبروقناعت کے پیکر مجسم تھے۔آپ ہمیشہ چہرہ مبارک کو چھپائے رکھتے اور وقت کا بیشتر حصہ عبادت میں گزارتے۔ اکثر گھر میں رہتے ۔آپ شرم و حیا کے پیکرتھے اور غیرمحرم پر کبھی بھی آپ کی نظر نہ پڑی۔تحریک پاکستان میں آپ نے بڑا مجاہدانہ کردار ادا کیا اور پاکستان مسلم لیگ کی بھرپور حمایت کی ۔آپ کی پوری زندگی قرآن و سنت کے فروغ میں بسر ہوئی اور جوبھی سوالی آپ کے در پر حاضری دیتا کبھی بھی خالی ہاتھ واپس نا لوٹتا ۔آپ نے ایک جہاں کو قرآن و سنت سے روشناس کروایا اور لوگوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ قرآن وسنت سے جوڑا۔15اپریل 1971ء کو آپ لاکھوں افراد کو قرآن و سنت کا پیکر بنا کر اس جہاں سے رخصت ہوئے۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان بمقام سدرہ شریف دفن کیا جائے ۔ یہ گائوں ڈیرہ اسماعیل خان سے30کلومیٹر کے فاصلے پر بنوں روڈ کے قریب واقع ہے۔ بعض وجوہات کی بنا پر آپ کو بطور امانت یکہ توت پشاور دفن کیا گیا۔ 10جولائی1976بعد نماز عصر قبرکشائی کیلئے خانوادہ رزاقیہ کے چشم و چراغ اپنے خدام کے ساتھ قبر کشائی کے بعد جب تابوت نکالا گیا تو بلکل تروتازہ اور اصل حالت میں تھا اور جو گلاب کے پھول آپ کے جسد خاکی پر تھے وہ بھی تروتازہ تھے۔کیا کسی نعت گو شاعر نے خوب لکھا ہے کہ ’’زمین میلی نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا محمدؐ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا‘‘ ایک دن اور ایک رات آپ کا تابوت زیارت کیلئے رکھا گیا اور ہر خاص وعام نے آپ کی زیارت کی۔ یہ کوئی عرصہ درازکی بات نہیں اور نہ داستانوں میں سے کوئی داستان ہے۔ یہ واقعہ 1976کا ہے جس کے عینی شاہد آج بھی موجود ہیں اور بتاتے ہیں کہ تابوت پر بادل کے ایک ٹکڑے نے سایہ کررکھا تھا۔11جولائی1976ء کو اس تابوت کو زرگر آباد بیرون یکہ توت پشاور سے ایک ویگن کے ذریعے سدرہ شریف لایا گیا۔ سدرہ گائوں سڑک سے 5میل دور بے آب و گیاہ بنجر زمین جو آپ کی آمد سے زائرین کا مرکز بن گئی۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور دورو نزدیک سے لوگ آپ کی زیارت کیلئے جمع ہوگئے اور یوں آپ کی آمد سے اس ویرانے میں بہار آگئی اور سدرہ گائوں سدرہ شریف بن گیا۔آپ کے جانشین نے آپؒ کی قبر مبارک پر ایک خوبصورت مزار تعمیر کروایا، مزار شریف پر ایک خوبصورت پرکشش منفرد طرزتعمیر کا حامل رقبہ اپنی انفرادیت میں’’سیدبادشاہ‘‘ کی طرح گنبدوں کا بادشاہ کہلانے کا مستحق ہے جو سیدبادشاہ کی عظمت وبادشاہت کا اعلان شب و روز کرتا نظر آتا ہے۔ مزار کے ساتھ ایک وسیع و عریض خوبصورت مسجد ہے۔ اور مسجد سے ملحقہ ایک درسگاہ سیدالجامعہ کے نام سے منسوب موجودہے جہاں طلباء قرآن حکیم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دریائے سندھ کے کنارے کوہ سلیمان کے درہ پیزوکی کی یہ گمنام بستی ’’سدرہ شریف‘‘ آج مسلمانان برصغیر کی عظیم زیارت کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور ہر سال آپ کا عرس مبارک بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ امسال بھی آپ کا سالانہ عرس مبارک زیر صدارت سجادہ نشین نقیب الاشراف پیر انور شاہ الگیلانی القادری9، 10، 11مارچ 2018 بروزجمعتہ المبارک، ہفتہ، اتوار کو آستانہ عالیہ غوثیہ قادریہ رزاقیہ سدرہ شریف’’ڈیرہ اسماعیل خان‘‘ صوبہ خیبر پختونخواہ میں نہایت عقیدت واحترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ جس میں ملک بھر کے علاوہ بیرون ممالک سے بھی مریدین اور علماومشائخ، قراء ونعت خوانان حضرات کثیر تعداد میں شرکت کریں گے۔ ضلع سیالکوٹ سے قافلہ خلیفہ مجاز سدرہ شریف پیر سید فدا حسین زنجانی کی قیادت میں 8 مارچ بروز جمعرات صبح 10 بجے عرس مبارک میں شرکت کے لئے روانہ ہو گا۔