برادر عزیز نجم الحسن نے میسج کیا۔ افتتاحیہ جملہ تھا ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ میں پریشان ہو گیا۔ اپنے معالج، اپنے محسن، اپنے بھائی حکیم عبدالوحید سلیمانی کی وفات کی اطلاع پا کر دل غم میں ڈوب گیا۔
ہندوستان کے ضلع حصار کے شہر سرسہ سے چند میل دور ایک قصبہ اوڑی تھا، اس کی نسبت سے حکیم محمد عبداللہ اوڑی والے کہلاتے۔ بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالااعلیٰ مودودی نے پٹھان کوٹ میں دارالسلام نام کی بستی بسائی تو تقسیم ہند سے قریباً ایک سال پیشتر حکیم عبداللہ اور ان کے ہم سفر چودھری نذیر احمد نے سرسہ سے چند میل دور ’’دارالسلام ہی کے نام سے بستی قائم کی۔ تقسیم ہند کے بعد مولانا مودودی ہجرت کر کے لاہور آئے اور اچھرہ میں جماعت اسلامی کا مرکز قائم کیا جبکہ حکیم عبداللہ جہانیاں آ کر آباد ہو گئے۔مولانا حکیم محمد عبداللہ قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی ملتان ڈویژن کے امیر منتخب ہوئے۔ 1951ء تک اسی منصب پر ذمہ داریاں نبھاتے رہے، بعد میں علالت کے باعث مستعفی ہو گئے۔ برادرم عبدالوحید سلیمانی نے بتایا تھا: ’’بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو گی کہ حکیم صاحب جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت کے درمیان ایک رابطہ تھے۔ آپ نے مولانا مودودی اور مولانا الیاس کی ملاقاتیں بھی کرائیں اور ایک مشترکہ جلسے کا بھی انتظام کیا۔ جمعیت اہلحدیث، جمعیت العلمائے اسلام اور تبلیغی جماعت کے احباب کو جماعت اسلامی کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہوتیں انہیں دور کرنے میں خاموش کردار ادا کیا کرتے تھے‘‘۔ ایک دن فرمانے لگے ’’جہاں تک یاد پڑتا ہے میں نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا، صرف سچ کی بدولت بے پناہ مالی نقصان اٹھانا پڑے لیکن خود جھوٹ بولنا تو درکنار، آپ کے لئے اگر کوئی دوسرا بھی جھوٹ بولنا چاہتا تو اسے منع کر دیتے۔ مہاجرین کی الاٹمنٹ کے موقع پر بڑے بڑے علماء اور جبے قبے والے جعلی کلیم بھر کر لاکھوں کروڑوں کے مالک بن بیٹھے، آپ چاہتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے کیونکہ الاٹمنٹ کرنے والا افسر آپ کا عقیدت مند تھا لیکن صرف سچ بولنے کی بدولت آپ اپنا جائز حصہ بھی وصول نہ کر سکے‘‘۔ 1970ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے بے شمار کارکنوں کے ساتھ مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا۔ الزام تھا کہ ہم نے وائس چانسلر کی رہائش گاہ پر توڑ پھوڑ کی ہے۔ فوجی عدالت کے سامنے پیشی کیلئے ہم پیپلز ہائوس میں پولیس کے پہرے میں ہتھکڑیاں پہنے بیٹھے تھے۔ میری گرفتاری کا علم ہوا تو فوراً جہانیاں سے لاہور پہنچے اور بصد مشکل ہم سے ملنے کی اجازت حاصل کی۔ مجھے ہتھکڑیوں میں دیکھ کر پریشان ہوئے مگر پھر فوراً کہنے لگے ’’بیٹا! خواہ کتنی ہی سخت سزا کیوں نہ ملے تم جھوٹ نہ بولنا‘‘۔ پہرے پر موجود فوج کے سپاہی حیرت سے دیکھنے لگے کہ ایک بوڑھا باپ اپنے بیٹے کو اس وقت بھی جھوٹ بول کر جان بخشی کرانے کی بجائے سچ کی تلقین کر رہا ہے۔راستی، صلاح، فلاح، دعوت سمیت عبدالوحید سلیمانی نے اوصاف حمیدہ اپنے والد سے ورثے میں پائے تھے۔ جہانیاں سے حصول تعلیم کیلئے لاہور آئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہو گئے۔ حکیم محمد عبداللہ کی حکمت پر لکھی کتابیں جدید، پرکشش انداز میں شائع کرنے کیلئے اشاعت گھر کے قیم کے بعد سلیمانی دواخانے کی شاخ لاہور میں قائم کی۔ اسلامی تحریک سے وابستگی ان کا طرہ امتیاز رہا۔قریباً دو سال قبل ایک آزمائش سے گزرنا پڑا۔ ان کے ادارہ مطبوعات سلیمانی سے ڈاکٹر احمد سرور کی ادارت میں ایک رسالہ شائع کیا جاتا تھا۔ ایک شمارے کے اداریئے میں کچھ قابل اعتراض مواد شائع ہو گیا جس پر بھائی عبدالوحید سلیمانی دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لئے گئے اور ناقابل بیان سختیوں سے گزرے۔ ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی۔ نقاہت کے باوجود باقاعدگی سے مطب آتے رہے۔ ایک ہاتھ میں رعشہ کے باعث نسخے اپنے بیٹے عروہ کو لکھواتے رہے۔ چند سال پیشتر عارضہ قلب کے باعث پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) لاہور میں زیرعلاج رہے۔ میں نے جس طرح جہانیاں سے لاہور ہجرت کرنے میں اپنے بھائی کی پیروی کی تھی اسی طرح ’’بیماریٔ دل‘‘ میں بھی ان کی تقلید میں پی آئی سی جا پہنچا۔ یہ 1902ء کی بات ہے۔ مجھے شدید ہارٹ اٹیک ہوا۔ ایمرجنسی میں ڈاکٹر حضرات قابو پانے میں کوشاں تھے کہ اسی دوران میں ایک اور اٹیک ہو گیا۔ صورتحال ابتر ہو گئی۔ سولہ منٹ تک دگرگوں رہی مگر قابو پا لیا گیا۔ چند روز ہسپتال میں قیام کے بعد گھر پہنچا۔ برادرم عبدالوحید سلیمانی بیمارپرسی کیلئے گھر تشریف لائے۔ اپنا تجربۂ دل بیان کرتے ہوئے طبی مشورہ یہ دیا کہ آپ ایلوپیتھی علاج مرضی کے مطابق کرواتے رہیں مگر ساتھ ہی ساتھ والد محترم مولانا حکیم محمد عبداللہ کے عطا کردہ ایک نسخے سے بھی استفادہ کریں۔ ایک کیپسول اور ایک عرق مطب سے میرے گھر منتقل ہو گیا۔ میں ایلوپیتھی اور طب یونانی کی ادویہ سے اپنے علاج میں مصروف رہا۔ حکیم ابن حکیم کے نسخے نے جو کام کر دکھایا اسے اگر معجزہ نہیں تو ایک خوش آئند واقعہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔نومبر کی ایک دوپہر انہوں نے معمول کے مطابق مطب میں مریض دیکھے۔ اس روز مریض معمول سے قدرے زیادہ ہی آئے۔ عزیزم عروہ وحید سلیمانی بتاتے ہیں میں کائونٹر پر ایک ساتھی کی چھٹی کے باعث مصروف ہو گیا تو والد محترم کو معمول کے مطابق نسخے لکھنے میں معاونت نہ دے سکا، انہوں نے رعشہ کے باوجود نسخے لکھنے کی میری ذمہ داری بھی خود ہی نبھائی۔ مطب میں مریضوں سے جب بھی کبھی فرصت ملتی تو وہ یہ لمحات قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہتے۔ اس روز بھی مریض زیادہ ہونے کے باوجود قرآن کی تلاوت بھی فرماتے رہے۔ بارہ بجے کے بعد معمول کے مطابق وضو کے لئے اٹھے۔ وضو کے دوران ہی طبیعت اچانک زیادہ خراب ہو گئی۔ صوبے پر لٹا دیئے گئے مگر جلد ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔ امجد اسلام امجد یاد آ گئے ہیں…
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
میرا غم، میرا الم مرحوم کے تمام احباب، تمام لواحقین سے بڑھ کر ہے مگر طلحہ، عروہ اور عمار سے زیادہ بہرحال نہیں جنہیں میں چشم تصور میں دیکھ رہا ہوں کہ اس شعر کی تفسیر بنے ہوئے ہیں…
سارے جہاں کی دھوپ میرے گھر میں آ گئی
سایہ تھا جس درخت کا مجھ پہ وہ گر پڑا
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38