اقوام متحدہ میں امریکہ کے خلاف قرارداد پیش کی گئی کہ وہ القدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل نہ کرے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے چڑ کر کہا کہ ہم سے پیسے بھی لیتے ہو اور ہمارے خلاف ووٹ بھی دیتے ہو۔
اس نے یہ دھمکی بھی دی کہ جس کسی نے ا سکے خلاف ووٹ دیا، اسے نشان عبرت بنا دوں گا۔
امریکہ کے خلاف یہ قرارداد ایک سو اٹھائیس ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہو گئی۔ امریکہ نے جھٹ فلسطین کی امداد بند کی ا ور پاکستان کو ملنے والی امداد پر شرائط عائد کر دیں۔ اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا کیونکہ امریکہ کے خلاف قرداد پیش کرنے والوں میں پاکستان پیش پیش تھا۔ اس نے ایک وار اور کیا ہے اور پاکستان کو دہشت گردوں کی مدد کرنے والوں کی واچ لسٹ میں شامل کروانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس کی یہ کوشش جون میں کامیاب ہو جائے گی۔ تب تک وہ پاکستان کے خلاف کوئی نیا مواد لے آئے گا۔ اسے قرار نصیب نہیں وہ جل بھن رہا ہے اور پاکستان کو سزا دینے پر تلا بیٹھا ہے۔ ستتر میں ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ اسے نشان عبرت بنا دیں گے، بھٹو کا قصور یہ تھا کہ اس نے پاکستان کو ایٹمی راستے پر گامزن کیا تھا۔ بھٹو کو پھانسی دلوا دی گئی۔ بھٹو نے جس جرم کا ارتکاب کیا تھا، پاکستان یہ جرم کرتا چلا جا رہا ہے، وہ ایٹمی قوت بن چکا ہے ا ور امریکہ اس ایٹمی قوت کو ہتھیانا چاہتا ہے۔ اس کے لئے وہ اسرائیل کو آگے کر چکا ہے۔ اسرائیلی اسٹرائیک فورس نئی دہلی، جموں اور دوبئی تک پہنچی مگر اسے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہو سکی، اسرائیل جانتا ہے کہ اسے کیا جواب ملے گا، بھارت بھی جانتا ہے کہ پاکستان کی ا یٹمی طاقت کو للکارا تو بر صغیر کس طرح صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ امریکہ اپنا لشکر افغانستان میں اتار چکا ہے، اس کے ساتھ نیٹو کے اتحادی ممالک کی افواج بھی ہیں، سولہ برس ہو چلے ہیں ، اس متحدہ فورس نے ہر کوشش کر دیکھی کہ پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے، اس کے خلاف پراکسی جنگ جاری ہے، دہشت گردوں کے لشکر پاکستان پر پے در پے حملے کر رہے ہیں ، کوئٹہ میں گزشتہ روز ہونیو الا حملہ آخری نہیں ہے، نہ پہلا ہے، اب تک پاکستان کے ایک لاکھ شہری دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں، پاکستان کی معیشت کو بیس ارب کا ٹیکا لگایا جا چکا ہے۔ مسلح افواج کے چھ ہزار افسروں اور جوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے، جی ایچ کیو تک کو نشانہ بنایا جا چکا ہے،آئی ایس آئی۔ نیوی، کامرہ، واہ فیکٹری تک کو دہشتگردوںنے معاف نہیں کیا۔ مزاروں، مسجدوں، امام بارگاہوں، مارکیٹوں، اسکولوں میں خونریزی کی گئی مگر دشمن کا یہ مذموم منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا کہ پاکستان حوصلہ ہار جائے اور اس کے سامنے سرنڈر کر دے، دشمن ایک بار ہمیں پلٹن میدان میں سرنڈر پر مجبور کر چکا ہے اب اسے لت ہی پڑ گئی کہ پاکستان بات بات پہ سرنڈر کرتا رہے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
پاکستان پر حملوں کا انداز ہر آن بدلا جاتا ہے، کبھی ریمنڈ ڈیوس کا وار، کبھی کیری لوگر بل کا وار، کبھی میموگیٹ کا وار،کبھی کنٹرول لائن پر وار۔ اور اب پیرس میں زہر آلود خنجر پاکستان کے پیٹ میں گھونپ دیا گیا ہے کہ یہ ملک دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ا س نے تمام مطالبات پورے کر دیے ۔ متنازعہ تنظیموں پر پابندی عائد کر دی، ان کے بنک اکائونٹس منجمد کر دیئے، ان کی جائیدادیں قبضے میں کر لیں مگر مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ہمارے اقدامات کی رپورٹ کو پڑھا ہی نہیں گیا اور آنکھیں بند کر کے ایک فیصلہ تھوپ دیا گیا۔ مقصد پاکستان کی تذلیل اور تحقیر کرنا تھا۔ اسے سبق سکھانا تھا اور یہ سبق سکھا دیا گیا، یہ سبق بار بار سکھایا جاتا ہے مگرجب پاکستان کسی غلطی پر نہیں ہے ، اسلئے اس نے کبھی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا، کبھی واویلا نہیں مچایا۔
مگر کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے، پاکستان اس وقت بھی امریکہ کا حلیف ہے، پہلے دن سے حلیف چلا آرہا ہے، سیٹو سنٹو کے زمانے سے امریکہ کے کیمپ میں ہے، سوویت روس کے خلاف جاسوسی کے لئے امریکی یو ٹو طیاروں کو اڈوں کی سہولت فراہم کر چکا ہے۔ سوویت روس نے افغانستان میں پیش قدمی کی تو پاکستان نے امریکی جہاد کی کمان کی۔ اب دہشت گردی کے خلاف طبل جنگ بجا تو جنرل مشرف نے صرف ایک ٹیلی فون کال پر اور وہ بھی نصف شب کو، امریکہ کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی۔ یہ جنگ سولہ برس سے جاری ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتی مگر پاکستان نے اپنے علاقے دہشت گردوں سے صاف کروا لئے ہیں، ایسی کامیابی دنیا کی کسی فوج کو دہشت گردی کے خلاف نصیب نہیں ہوئی، امریکہ ا ور دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں پاکستان کی ا س کامیابی کا اعتراف کیا جا چکا مگر اب الٹا پاکستان ہی دہشت گردی کے الزامات کی زد میں آ گیا۔ کون مانے گا اس منطق کو، اس بلیم گیم کو۔ کوئی نہیں مانے گا۔
امریکہ کی عادت ہے کہ وہ یار مار ہے، جس سے کام لیتا ہے، اسی کو ڈستا ہے، کام ہو جائے تو اس کے کردار کو پس پشت ڈال دیتا ہے جیسے کوئی آشنائی ہی نہ ہو، اس طرح منہ موڑ لیتا ہے۔ امریکہ نے بار ہا پاکستان کو دھوکا دیا۔ ایک وقت تھا کہ صدر جانسن پاکستان میںمٹک مٹک کر چلتا تھا، اور کینیڈی کی بیگم اونٹ کی سواری کے لئے مچل مچل جاتی تھی۔ امریکہ ہمارے بشیر ساربان کو ساتھ لے گیا۔ مگر پھر اکہتر میں پاکستان پر برا وقت آیا، مشرقی پاکستان میں بھارت نے بغاوت کے بیج بوئے تو امریکہ جو سیٹو سنٹو جیسے معاہدوں کے تحت روسی بلاک کی جارحیت کے خلاف ہماری مدد کا پابند تھا، وہ دغا دے گیا اور اس نے پاکستان ٹوٹنے دیا۔ بھٹو دور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آڑ میں پاکستان کی مکمل امداد بند کر دی۔ پھر پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ سرخ بتی عبور کر چکا ہے ا ور جنرل ضیا کو اپنے ہی سفیر کے ساتھ جہاز کے ایک حادثے کا شکار کر دیا۔ پاکستان کے ساتھ ایسے حادثے ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں اور امریکہ مزے لیتا ہے ۔
اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی قوم ایک فیصلہ کرے۔ باہمی چپقلش سے چھٹکارا پائے۔ ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا بند کرے اور امریکہ کے بارے میں مستقل پالیسی بنائے، ایک طرف امریکہ کی دغا بازی کی تاریخ ہے، دوسری طرف چین کے سی پیک کا روشن باب کھلا ہے۔ فیصلہ اس قدر آسان تو کبھی نہ تھا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024