میلاد کی با برکت تقریب
ڈاکٹر سید اسد علی باقاعدگی کے ساتھ کئی سال سے میلاد کی با برکت تقریب کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں امسال یہ بابرکت محفل ان کے السید ہسپتال احاطہ ٹیکسلا میں منعقد ہوئی ۔ مقامی علماء کرام مولانا خالد محمود ہزاروی ، مولانا عاصم سعیدکے ایما ن افروز جہاں سامعین کو سننے کو ملے وہاں یہ نعت خواںحضرات و شعرا ء جن میں نعت گوء شاعر عارف قادری ، نثار احمد سروردی ، محمد فیصل امین نقیبی ، نثار رضا ربانی ، آفاق احمد ، عمر امین ، افتخار رضا ربانی ، شعیب ہمیش ، محمود علی نقی ، آغا عظمت نقوی اور دیگر نے بھی حیا ت النبی ؐ کے مختلف پہلوئوں پہ گلہائے عقیدت پیش کر کے دلوں کو طمانیت ومسرت بخشی حاضرین میں سید رضوان حیدر صدر بار ایسوسی ایشن ٹیکسلا ، سید جابر علی ایڈوکیٹ، حاجی ظہور احمد جی ایم سوئی ناردرن ، ملک سجاد ایڈوکیٹ ، عرفان خان ، سید عرفان شاہ ، سید مظہر شاہ ، ملک ایاز محمود ، مشتاق نقوی ، حاجی ممتاز خان ، حاجی محمد حنیف، حافظ محمد رمضان اور نوجوان علم دوست شخصیت اجمل خان تنولی نے بطور خاص شرکت کی ممتاز عالم دین حضرت مولانا صاحبزادہ منیر عالم ہزاروی نے بحیثیت مہمان مقرر اپنی خوبصورت گفتگو میں حضور اکرم ؐ کی سیرت کے مختلف گوشوں کا احاطہ کچھ یوں فرمایا۔
انھو ں نے کہا شروع کر تا ہوں اس رب کائنات کے نام سے جس نے مجھے پیدا کیا تو ا نسان بنایا جب انسا ن بنا یا تو مسلمان بنایا اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ اس رحمۃ العالمین ؐ کا امتی بنایا جسے ساڑھے چودہ سو سال قبل ہی میری اور آپ سب کی شفاعت کی فکر دامن گیر تھی ۔انھوں نے کہا کہ آج بات ہوگی اس پیامبر آذادی کی جس کے بارے میں قرآن مجید جہاں اطیعو اللہ کا حکم دیتا ہے وہاں اطیعوالرسول کا بھی ذکر فرماتا ہے ۔
؎ پکارے جاتے ہے مدت سے زندگی مجھ کو
تیرے خیال سے فرصت ملے تو اس کی سنوں
انہوں نے حاضرین محفل سے کہا جب چمنستان دھر کی قسمت کا ستارہ ہویدا ہوا اور ظلمت کے اجالوں کی خبر ہوئی مردہ دلو ںکو زندگی بخشنے والے ، ظلمات کے لمعات دینے والے اقوام عالم کی نا ہموار یوں کو تعمیراتی نصب العین سے ہم آغوش کرنے والے، مظلوموں کی فریاد رسی اور ستانے والوں سے بھلائی کرنے والے ، باطل کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکنے والی قوم کو صراط مستقیم کا درس پڑھانے والے سید الاولین و آخرین ، اشرف الانبیاء ، اطیب الانیباء ، خاتم الانبیاء ،امام الانبیاء ، شفیع ا لمذنبین ، عالم قدس سے عالم امکان میں تشریف لاتے ہیں ۔ادھر فرشتگان قصاء و قدر پکار پکار کر کہ رہے تھے صحرانوردوں سے کہو، بیابا نوں کے حدی خوان اپنے نغمے بدل دین ہندوستا ن کے برہمنوں سے کہوباز آجائیں ، افریقہ کے سیاہ فاموں سے کہو کہ مذہب کی رعائیت شروع کر دیں ، واشنگٹن و نیو یارک کے مغربی پاسداروں سے کہو کہ منفی سرگرمیاں بند کر دیں آج زخمو ں پر واویلا مچانے والوں اور مرگھٹوں پر نالہ کرنے والوں کا مفرط مذہبی جنون خطرات میں جا پڑ ا ہے ۔ اب قدسیان ار ض و سماء کا تاجدار آتا ہے جس کے صدقے جگر کو شوق اور تخیل کو ذوق بخشا گیا جس کی بدولت عزم کو پختگی ، روح کو طمانیت او رجذب کو حزب عطا ء ہواجس کے طفیل صبا ء کو ربا ء اور ادا کو وفا ملی ۔
اک پردہ فانوس میں پنہا ں ہے رسالت
آنکھوں میں وہ پنہاں بھی اور پیش نظر بھی
وہ عرش پہ محبوب ہے اور فرش پہ محمود ہے
اس کا رخ پر نور ادھر بھی ہے اور اُدھر بھی ہے
صاحبزادہ مولانا منیر عالم ہزاروی نے کہا نبی کریم ؐ کی ولادت سے قبل دنیا برائیوں کا مرکز بنی ہوئی تھی ، علم و حکمت کے چراغ گل ہو چکے تھے ، عدل و انصاف کی جگہ ظلم وستم نے لے لی تھی ان حالات میں شب ضلالت درخشاں کے انتظار میں بے خود ہوئے جا رہی تھی ۔
ایسے نبی کی ضرورت تھی جو پیامبر آذادی بھی ہو او ر صاحب محراب و منبر بھی، جو صاحب شمشیرو نگین بھی ہو اور گوشہ نشین بھی ، شہنشاہ کشور کشاء بھی اور گدائے بے نوا بھی ، مفلس قانع اور نمونہ صدق وصفاء بھی ، جامع کمالات بھی اور رب ذوالمنن کا عظیم مورد عنایات بھی ، حضور نبی کریم ؐ بنی نوع انسا ن کے لیے پیامبر آذادی بن کرآئے وہ پیامبر آذادی جس کی دانائی او رعقل و فہم پر قرآن شاہد ہے جس کی سطوت کا پر تو پڑا تو بتوں کے عزائم خاک میں مل گئے جسکو سب شتم کرنے والے تعریف میں رطب اللسان ہوئے جس کا اسوئہ آفاق ہستی کی کامرانیوںکا محور ٹھہراجس کی تکذیب کرنے والے تصدیق پر مجبو رہوگئے ۔
؎کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا
کس نے قطرو ں کو ملا کر دریا کر دیا
کس کی حکمت نے یتیمو ں کو در یتیم کر دیا
اور غلامو ں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا
صاحبزادہ منیر عالم ہزاروی نے حاضرین سے کہا کہ آج ہم کس کو خراج تحسین اور ان کی دی ہوئی تعلیمات سے استفادہ کر نے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں ؟ جی یہ وہی میرے حضور ؐ ہیں جنہوں نے دنیا میں بے بصر کو با بصر کرنے کے لیے بے نظر کو با نظر کرنے کے لیے ، مردہ دلو ں کو حیات جا ودانی عطا کر نے کے لیے ، نبات الارض کی بے بسی کے خاتمے کیلیے ، قیاصر و اکاسر کی نخوت کا بھرم توڑنے کے لیے اور قصر نبوت کے آخری عمود کو جام رنگین کی رنگینیاںعطا کرنے کے لیے عربستان کے ریگستانوں میں جلوہ گر ہوئے جس نے عرب کو جہالت کی غلامی سے آذاد کراکر ایک ایسا معاشرہ بنایا جس نے اگر بندش شراب کی منادی کی ہونٹوں سے لگے ہوئے پیالے فوراً الگ ہوگئے ۔ جس نے عورت کو پردے کاحکم دیا تو فوراً اوڑھنیاں اور بڑی چادریں بنا لی گئیں، جس نے اگر جہاد کے یے پکارا تو نو عمر لڑکے تک ایڑیوں پر کھڑے ہوکر یہ کوشش کرتے دیکھائی دیتے تھے کہ وہ لوٹا ئے جانے سے بچ جائیں ، جس نے اگر چندہ طلب کیا تو گھر کی ساری متاع تحریک کے قدموں میں ڈال دی گئی ۔ مولانا منیر عالم ہزاروی نے کہا کہ صرف میلا د کی محافل کے انعقاد سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ قرآن اور صاحب قرآن کی زندگی کے عین مطابق ہمیں اپنے کردار و گفتار میں غازی بننا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ قرآن حق و صداقت کا پیغام ہے اورآپ ؐ ا س کے پیا مبر ، قرآن رشدوہدایت ہے او رآپ ؐ راشد و ہادی ، پیامبر آذادی کی شان اس حیثیت سے بھی بلند ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا پہلے اس پر عمل کر کے دکھایابقول حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن اور اس کی عملی تفسیر تھے ۔مولانا منیر عالم ہزاروی اور دیگر مقررین نے خلفائے راشدین اور اہل بیت و شہدا ء کربلا کے حوالہ سے حاضرین کی سماعتوں کو اپنے ایما ن افروز خیالات عالیہ سے جلا بحشی ۔
قارئین کرام ! آج جبکہ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہمارے سامنے ہے او ردور دور تک کوئی بھی شرر چمکتا دکھائی نہیں دیتا لوگ اس سستے اندا ز میںمظاہر ہ عقیدت کر کے اپنے مضطرب ضمیر کو اطمینان دلاتے ہیں ۔ کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب ؐکی امت ہیں۔ پیچھے پلٹ کر نظر ڈالتے ہیں تو محسن انسانیت کے ہاتھوں میں ایک مشعل جھلملاتی دکھائی دیتی ہے جو گزشتہ ساڑھے چودہ سو سال سے آندھیوںاور طوفانو ں کے درمیان ایک ہی شان سے چل رہی ہے موجودہ حالات میں ہم پہ یہ بھاری فرض عائد ہے کہ ہم محسن انسانیت ؐ کی دعوت کا احیاء کریں اور حضور ؐ کے قائم کر دہ خطوط پر تبدیلی احوال کے لیے اپنی زندگیوں میں عملی جہدو جہد کر کے دنیا و آخر ت کی کامیابیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ سکتے ہیں ۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دھر میں اسم محمد ؐ سے اجالا کردے