’’جہیز‘‘
میں عوام و خواص کی توجہ معاشرے کے سب سے اہم مسئلے کی طرف دلانا چاہتی ہوں۔ جسے ہم سب ’’جہیز‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ ہم سب کہتے ہیں اور سُنتے ہیں ’’جہیز‘‘ ایک بری رسم بن چکی ہے لیکن اس کو جَڑ سے اُکھاڑنے اور اس کے تدارک کے لیے ہم نے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھائے۔شادی ایک مقدس بندھن ہے اور اللہ تعالیٰ نے کہا ہے، اس کو انجام دینے میں سادگی اپنائی جائے، لیکن ہمارے یہاں اس مقدس فرض کی ادائیگی کو انتہائی مشکل بنادیا گیا ہے۔ بے شمار فضول رُسومات میں ایک ’’جہیز‘‘ کی رسم بھی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں جہاں والدین اپنی اولاد کے لیے اچھی تعلیم اور تربیت کا انتظام کرتے ہیں وہیں ان کے لیے اپنی بیٹیوں کے لیے ’’جہیز‘‘ کا انتظام کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ہمارے یہاں ’’جہیز‘‘نہ لانے کی بِنا پر کئی لوگ اپنی بہوؤں کے ساتھ اچھا رویہ نہیں رکھتے۔ ان کے ساتھ بدسلوکی تو عام سی بات ہے حتیٰ کہ ان کے جلائے جانے کے واقعات بھی ملتے ہیں۔ ’’جہیز‘‘ کی رسم کو روکنے کے لیے کئی قانون بنائے گئے لیکن اس کو روکنے کے لیے ہم سب کو انفرادی سطح پر بھی کام کرنا ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں سماجی سطح پر آگاہی مہم چلانی چاہیئے اور اس سلسلے میں ہمیں عملی قدم اپنے گھر سے اُٹھانا پڑے گا۔ جب ہما رے گھر میں ہمارے بھائی یا بیٹے کی شادی ہو تو ہم فضول رسومات سے بچیں اور’’جہیز‘‘ کا بوجھ لڑکی کے گھر والوں اور والدین پر نہ ڈالیں۔ آخرمیں صرف یہ کہنا چاہوں گی کہ زندگی کے ہر معاملے میں بالخصوص شادی کے معاملے میں ہم اگر حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں تو ہمارے بہت سے مسئلے حل ہوجائیں گے۔(ماہم مسعود ، گلبرگ، کراچی)