پاکستان کو ایک عرصہ سے دہشتگردی کا سامنا ہے اِسکا آغاز1990سے ہو ا 1995میں پاکستان کو پہلے خودکش حملے کا سامنا کرنا پڑا۔وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا اور اَب تو عالم یہ ہے کہ ملک کا کوئی حصہ دہشت گردوں کی دستِ بُرد سے محفوظ نہیں ۔کراچی سے باجوڑ اور کوئٹہ سے کرم تک دہشت گرد جہاں چاہیں جب چاہیں بم کے دھماکوں سے خون کی ہولی کھیلتے ہیں ۔کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی چھتری تلے درجنوں چھوٹی بڑی تنظیمیں اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔اِس میں کچھ کا تعلق فرقہ وارانہ تنظیموں جیسے لشکر جھنگوی، سے ہے ۔اِن لوگوں میں کچھ ایسے گروہ بھی شامل ہو گئے جن کا مذہب کے کسی فرقے سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں جو کلیتًا جرائم پیشہ ہیں اور ملک میں جرائم کا ارتکاب کر کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے شورش زدہ علاقے میں روپوش ہو جاتے ہیں ۔لشکر جھنگوی کے مقابلہ میں اہل تشیع کی تنظیم بھی ہے جو سنی فرقہ کے لوگوں کے متعلق ویسے جذبات ہی رکھتی ہیں جیسے سنی اہل تشیع کے بارے میں رکھتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کا تعلق افغان تحریک طالبان سے ہے۔افغان طالبان کی طرح یہ لوگ بھی ملا عمر کو اپنا امیرالمومنین سمجھتے ہیں ۔افغان حکومت اور افغان خفیہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی امداد کرتی ہے ۔اِس تحریک اور اِس میں شامل دیگر تنظیموں کی مالی امداد کرنیوالے ممالک میں بھارت ،امریکہ ،سعودی عرب ،خلیج کے ممالک اور ایران کا نام لیا جاتا ہے ہر چند کہ حکومت علانیہ عام طور پر اِن سب ممالک پر الزام نہیں لگاتی لیکن عوام میں ایسی خبریں گردش کرتی نظر آتی ہیں ۔کالعدم تنظیموں کی بیرونی ممالک سے امداد ہی کے بل بوتے پر یہ تنظیمیںاِن ممالک کے ایجنڈوں پر کام کرتی ہیں جس سے پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے ۔عوام تقاضہ کرتے ہیں کہ جیسے بھی ہو بیرونی امداد جو صرف روپے پیسہ کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ جدید ترین اسلحہ اور دیگر آلاتِ حرب کی فراہمی تک شامل ہے ، فوری طور پر رو ک کر نقصان سے بچایا جا ئے۔
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے سیاسی جماعتوں نے تقاضہ کیا کہ پہلے مذاکرات کے آپشن کو ایک موقع دیا جائے۔اسکے مطابق حکومتی اور طالبان کی کمیٹیوں مابین مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔ اُمید ظاہر کی کہ مذاکرات کامیاب ہو نگے۔یقین تو نہیں تھا لیکن عوام دعا گو تھے کہ یہ دونوں کمیٹیاں مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن قائم کر سکیں لیکن طالبان ایک طرف تو مذاکرات کا دم بھرتے رہے۔دوسری طرف اُنھوں نے فوج ،پولیس اور دیگر سکیورٹی ایجنسیز پر حملوں میں کہیں زیادہ شدت پیدا کر دی ۔حکومت برداشت کرتی رہی ۔بالاخر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے حکومت کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا ۔طالبان نے 2011میں ایف ۔سی کے کچھ نوجوان کو گرفتار کر لیا تھا ۔مذاکرات کے دوران فروری کے مہینے میں اِن گرفتار ایف سی جوانوں کو بیدردی سے ہلاک کر دیا گیا اور شہداء کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ملک میں اسکا شدید ردعمل ہوا جس پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ امن مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔حکومتی کمیٹی کے کوارڈی نیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ طالبان دہشت گردی کو فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کریں نیز یہ کہ تمام مذاکرات آئین پاکستان کی حدود میں ہو نگے ۔جواب میں طالبان نے کہہ دیاکہ حکومت پہلے سیز فائر کا اعلان کرے نیز یہ کہ وہ پاکستان کے دستور کو تسلیم نہیں کرتے لہذا مذاکرات دستور کی حدود میں نہیں ہو سکتے۔حکومت فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئی کہ عوام ،فوج سکیورٹی ایجنسیز پرہرحملہ کا فوری اور بھرپور جواب دیا جائے۔اِسکے بعد سے پاک فضائیہ فاٹا ،شمالی وزیرستان ، جنوبی وزیرستان ،خیبر ایجنسی تیرہ وادی کے علاقوں میں واقع دہشت گردوں کے کمانڈروں، ہیڈ کواٹرز،بم بنانے کے کارخانوں،خودکش بمباری کی تربیت گاہوں اور اُنکے ہیڈ کواٹرز کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔انٹیلی ایجنسیز کی کارکردگی پہلے کے مقابلہ میں بہت بہتر ہو گئی ہے اور نشانے ٹھیک ٹھیک لگائے جا رہے ہیں۔اِن کاروائیوں میں پاکستان میں بنے ہو ئے ڈرون بہت کار آمد ثابت ہوئے ، دہشت گردوں کے ٹیلی مواصلات سے حاصل کردہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خوفزدہ ہیں کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو جنگ سے پہلے ہی طالبان ختم ہو جائینگے۔ تجزیہ کار کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کو جس قسم کی دہشت گردی کا سامنا ہے اُسکا مقابلہ کرنے کی تربیت ہماری فوج یا سکیورٹی ایجنسیز کو اَبھی تک حاصل نہیں۔اُنکی بات درست اِس وجہ سے بھی لگتی تھی کہ اَبھی تک ہماری فوج نے جوابی کاروائی کے طور پہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر وہ تابڑ توڑ حملے شروع نہیں کئے تھے جو حال ہی میں دیکھنے میں آئے ہیںاور جن کا اعتراف طالبان کے ترجمان خود اپنی زبان سے کرنے پر مجبور ہوئے ہیں لیکن جو سب سے اہم پیشرفت اِس ضمن میں ہوئی وہ ہے ایک قومی سکیورٹی پالیسی جسکے خدوخال وزیرداخلہ نے قومی اسمبلی میں بدھ کے روز اپنی 40 منٹ کی تقریرمیں متعارف کرائے۔وزیرداخلہ نے پارلیمنٹ میں نیشنل سکیورٹی پالیسی پیش کرتے ہوئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان بہتر رابطوں کیلئے مشترکہ ڈائر یکٹریٹ اور ایک ریپڈرسپانس فورس کے قیام کا اعلان کیا۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ امریکہ کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ 26 انٹیلی جنس ایجنسیز قائم ہیں لیکن انکا آپس میں رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اِن سے اب تک پورا فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا ۔نیکٹا ) (NACTAکے مشترکہ ڈائریکٹر یٹ میں تمام ایجنسیز کی کوارڈی نیشن ہو گی اور ایجنسیز کی رپورٹ پر کاروائی کی جائیگی۔100 صفحات پر مشتمل اِس پالیسی کے تین حصے ہیں۔پہلا صفحہ خفیہ ہے ۔دوسرا حصہ سٹرٹیجک ۔تیسرا حصہ آپریشن اور مذاکرات ہیں۔500افراد پر مشتمل ایک ریپڈ ر یسپانس فورس ہو گی۔جسے ہیلی کاپٹرز مہیا ہونگے۔یہ فورس جہاں دہشتگردی ہو گی وہاں استعمال کی جائیگی۔ دہشت گردی کا خاتمہ سیاسی قیادت کے اتفاق رائے سے ہوگا۔ظاہر ہے پالیسی حرف ِآخر نہیں تجربہ کے ساتھ اِس میں ترمیم ہوتی رہیگی لیکن شکر ہے 13 سال بعد ہی سہی ایک نہایت ضروری شروعات تو ہوئی اِس پہ تنقیدضرور کی جائے تاکہ اِسے بہتر بنایا جاسکے لیکن اِس اہم سکیم پر بلا جواز سیاسی پوائنٹ سکور نگ نہیں ہونی چاہئے ۔پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی سیاسی اتفاق رائے سے دشمن پر ثابت کر دیا جائے کہ وطنِ عزیز کے دفاع اور ریاست کے تحفظ میں ہم سب ایک ہیں اور مکمل طور پر اپنی سپاہ کے پیچھے کھڑے ہیں۔ حکومت پر اگر منفی اقدامات کی تنقید ہوتی ہے تو مثبت پیشرفت کی تحسین بھی ہونی چاہئے۔ دستیاب تجربہ کی بناء پر ایک پالیسی مرتب کی گئی ہے اسے بہتربنایا جاسکتا ہے اور یقیناً بنایا جائیگا۔ بلا جواز تنقید سے احتراز مناسب حکمت عملی نظر آتی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024