لاہور (کلچرل رپورٹر + سپیشل رپورٹر) نوائے وقت گروپ کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی نے کہا ہے کہ نوائے وقت کے ساتھ میرا تعلق روز اول سے ہے میں 1943ء میں اپنے آبائی شہر سانگلہ ہل سے لاہور نظامی صاحب کے پاس آیا اور یہاں سے ہی میٹرک کا امتحان دیا‘ میٹرک کرنے کے بعد اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا اور دو سال وہاں گزارے آخری سال 1946ء تاریخی تھا اس میں الیکشن ہوئے اور یہ الیکشن ہی پاکستان کے قیام کا باعث بنے۔ ہمارے کالج کے پرنسپل نے طالب علموں سے کہا کہ آپ مسلم لیگی امیدواروں کیلئے کام کریں۔ انہوں نے کالج بند کر دیا اور ہم لوگ ان امیدواروں کے لئے میدان میں نکل پڑے۔ ان دنوں یہاں پر خضر حیات کی حکومت تھی وہ یونینسٹ تھے وہ قیام پاکستان کے لئے تیار نہیں تھے خدا کا شکر ہے کہ ہم الیکشن جیت گئے اور پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔ پاکستان کے قیام کے بعد لیاقت علی خان اسلامیہ کالج آئے اور جن لڑکوں نے کام کیا انہیں ”مجاہد پاکستان“ کا خطاب دیا۔ اس کے علاوہ ایک سرٹیفکیٹ اور ایک تلوار بھی دی۔ ان لڑکوں میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔ اس طرح میں سند یافتہ مجاہد پاکستان ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما اور نوائے وقت کے بانی جناب حمید نظامی کے 49 ویں یوم وفات کے حوالے سے حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان میں منعقدہ ایک خصوصی نشست میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاد حکم قرآنی ہے اور یہ ہم پر لازم ہے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے جس پر بھارت کا قبضہ ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ہماری فوج مضبوط فوج ہے اور ہم ایٹمی قوت ہیں اور دنیا میں واحد اسلامی قوت ہیں۔ ہمارے ایٹم بم اور میزائل بھارت کے ایٹم بموں اور میزائلوں سے کئی درجے بہتر ہیں میں اکثر یہ مثال دیتا ہوں کہ ہمارے ایٹم بم اور میزائل قرآنی گھوڑے ہیں جبکہ بھارت کے ایٹم بم کھوتے ہیں جو ہمارے گھوڑوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘ بشیرطیکہ قوت ایمانی ہو جو ہمارے حکمرانوں میں نہیں ہے۔ موجودہ کمانڈر انچیف نے مجھے کھانے پر بلایا میں نے وہاں پر ان سے کہا کہ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے حالات سازگار ہونے کے باوجود ابھی تک ایوب خان‘ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کی طرح میرے ہم وطنو!نہیں کہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ملک عوام کے ووٹ سے بنا اس لئے کسی فوجی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی حکومت قائم کرے جہاں تک صحافت کا تعلق ہے تو یہ ایک مشن ہے‘ یہ کاروبار نہیں۔ بے شک یہ کسی لحاظ سے کاروبار بھی ہے‘ لیکن میری اولین ترجیح مشن کی ہے۔ مجھے ایڈیٹر نوائے وقت کے طور پر کام کرتے ہوئے اگلے سال پچاس سال ہو جائیں گے۔ امید ہے کہ اللہ تعالی مجھے ایک سال اور عطا کر دینگے کیونکہ دنیا بھر سے لوگ میرے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ بطور ایڈیٹر پچاس سال کام کرنے کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اخبار مشن ہونا چاہئے‘ کاروبار نہیں۔ 1962ءمیں نوائے وقت 6 صفحے کا تھا اور شورش کشمیری کے پریس سے چھپتا تھا میں اسے آفسٹ پر لے کر آیا اور اپنا پریس لگوایا۔ پھر انگریزی اخبار نیشن نکالا ۔ فیملی‘ ندائے ملت اور پھول جیسے معیاری پرچے نکالے پھر وقت نیوز کے نام سے وقت ٹیلی ویژن شروع کیا جسے میں ” وخت“کہتا ہوں انشاءاللہ ہم ”وخت“ سے نکل آئیں گے۔ یہاں پر کسی نے میری بیٹی کا ذکر کیا‘ اس نے لندن سے پولیٹیکل سائنس میں اعلی تعلیم حاصل کی اور اب وہ اس قابل ہے کہ دونوں ادارے چلا رہی ہے۔ میں 1946ءسے جہادی ہوں اور ساری عمر جہاد کیا ہے۔ 32 سال کا نوجوان تھا کہ ایوب خان نے ایڈیٹرز کو بلایا میں بھی ان میں موجود تھا اس نے کہا کہ آپ لوگوں کو شرم آنی چاہئے اپنے گریبانوں میں جھانکیں، میں نے کہا کہ جان کی امان ہے انہوں نے کہا کہ امان ہے۔ میں نے کہا کہ کس بات کی شرم آنی چاہئے‘ میں نے تو اپنے گریبان میں جھانکا ہے مجھے تو شرم نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا۔ اس کے بعد جنرل یحییٰ آئے اس دور میں تین چار اخبارات کے خلاف مقدمات چل رہے تھے۔ نوائے وقت بھی ان میں شامل تھا‘ یحییٰ خان نے ایڈیٹرز کی میٹنگ بلائی جس میں کوثر نیازی نے یحیی خان سے کہا کہ اخبارات کے خلاف مقدمات واپس لے لیں جس پر یحیی خان نے کہا کہ یہ معافی مانگ لیں تو مقدمات واپس لے لیں گے‘ جس پر کوثر نیازی نے کہا کہ ہال میں خاموشی ہے آپ سمجھیں کہ معافی مانگ لی ہے‘ میں نے کہا کہ کس بات کی معافی۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے جرم کیا ہے‘ میں نے کہا کہ ہم نے جرم نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پھر آپ مارشل لاء کورٹ میں جائیے میں نے کہا کہ مارشل لاء کوئی قانون نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی عدالت ہے۔ ان کے بعد جنرل ضیاءآ گئے وہ میری پیار کی بات بھی سنتے تھے اور سختی کی بات بھی۔ ان کا گروپ انٹرویو کرنے کے لئے ہم نے کہا تو انہوں نے کہا کہ نظامی صاحب بھی ہونے چاہئیں‘ میں بھی چلا گیا اور خاموشی سے بیٹھا رہا انہوں نے کہا کہ نظامی صاحب آپ نے سوال نہیں کیا ان کے اصرار پر میں نے سوال کیا اور ان سے پنجابی میں پوچھا کہ جنرل صاحب! ” ساڈی جان کدوں چھڈو گے“ ان کے بعد پرویز مشرف آئے‘ 9/11 کے واقعہ کے بعد مشرف نے ایڈیٹرز کو بلایا بہت سے ایڈیٹرز نے ان کی تعریفیں کیں وہ سمجھتے تھے کہ میں میاں برادران کا دوست ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے سوال نہیں کیا‘ میں نے کہا کہ آپ نے ایک کال پر ہی سرنڈر کر دیا‘ سرنڈر کا لفظ فوجی کے لئے ایک گالی ہے وہ سرنڈر کا لفظ سن کر اچھل پڑے‘ اس مکالمے کے بعد ایک جنرل نے مجھے کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا‘ میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں انہوں نے کہا کہ آپ مجھے نہیں جانتے میں نے کہا کہ نہیں‘ انہوں نے کہا کہ میں طارق عزیز ہوں۔ اس واقعہ کے بعد طارق عزیز نے مجھے پرویز مشرف کا میسج دیا کہ آئندہ کسی ایڈیٹرز میٹنگ میں آپ کو دعوت نہیں دی جائے گی۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد گورنر پنجاب جنرل خالد نے فون کیا کہ پرویز مشرف نے چند ایڈیٹرز کو بلایا ہے آپ تشریف لے آئیں‘ میں نے انہیں کہا کہ آپ کے علم میں ہے کہ میرے بارے میں انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ آئندہ کسی میٹنگ میں آپ کو نہیں بلایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جی ہاں میرے علم میں ہے‘ میں نے کہا کہ انہوں نے زیادتی کی ہے وہ میرے گھر آئیں اور معذرت کریں پھر میں آﺅں گا۔ میری اہلیہ کی وفات پر جنرل خالد میرے پاس آئے اور کہا کہ میں اس دن سے آپ کا مداح ہو گیا ہوں جب آپ نے ایک سرونگ جنرل کے سامنے بات کی۔ اب میں ایک سویلین جنرل کا ذکر کرتا ہوں جن کا نام نواز شریف ہے ان کی حکومت بنی تو میں نے شیخ رشید کو انفارمیشن منسٹر بنوایا۔ میاں صاحب نے شیخ رشید کو کہا کہ ابا جی کی وجہ سے میں نوائے وقت کے اشتہارات کو بند نہیں کر سکتا تم نیشن کے اشتہارات بند کر دو شیخ رشید نے کہا کہ میں نے نیشن کے اشتہارات بند کئے تو پھر ہمارا کیا ہو گا۔ اس طرح جنرل ایوب سے لے کر جنرل نواز شریف تک میں نے کئی جنرلوں کا مقابلہ کیا۔ میں نے کبھی اشتہارات کی بندش کی پرواہ نہیں کی‘ بے شک اشتہارات اخبارات کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں لیکن اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ نوائے وقت اس وقت چار جگہوں سے اور نیشن تین جگہوں سے نکلتا ہے۔ میں اب بھی ایک ایسے گھر میں رہتا ہوں جو کھیتوں میں بنا تھا میں نے اپنی زندگی مڈل کلاس میں گزاری ہے‘ میری دعا ہے کہ اپنی کلاس سے ہی اٹھایا جاﺅں۔ قبل ازیں تقریب کے مہمان خصوصی وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس (ر) محبوب احمد نے کہا کہ حمید نظامی بہت بڑے کردار کے مالک تھے، حمید نظامی نے اُصولوں پر مبنی صحافت کی، ان کی سب سے اہم خصوصیت جو مجھے نظر آتی ہے ان کو صحافتی اور سیاسی کردار کے لئے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے منتخب کیا تھا اور جس کو قائد اعظمؒ منتخب کریں گے وہ عام صلاحیتوں کا مالک نہیں تھا۔ حمید نظامی کی لیڈر شپ کی صلاحیت پر ذرا کم روشنی ڈالی گئی ہے کیونکہ قائد اعظمؒ نے ان کو مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن بنانے اور بعدا زاں ان کو صدر منتخب کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دوسری کوالٹی جو قائداعظمؒ نے حمید نظامی میں دیکھی تھی وہ ان کی قلم کی طاقت تھی اور جس میں یہ کوالٹی ہوتی ہے وہ کردار ساز ہوتا ہے ۔ اس لئے اب میں یہ کہوں گا کہ حمید نظامی کا مشن مجید نظامی نے پورا کیا تھا اب مجید نظامی کی بیٹی رمیزہ مجید ان کی جگہ لے رہی ہے اور وہ مجید نظامی سے تربیت حاصل کی ہے اس لئے وہ حمید نظامی اور مجید نظامی کا مشن جاری رکھے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس ملک میں مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جب پاکستان بنا تھا تو ملک میں 18 لیڈی ڈاکٹر تھیں اب مردوں سے زیادہ خواتیں اس ملک میں اس شعبہ میں آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شعبہ ہائے زندگی ہو اس کا ضابطہ اخلاق اہم ہوتا ہے اور صحافت کے ضابطہ اخلاق پر بھی عمل ہونا چاہئے لیکن افسوس کے ساتھ اب بعض ایسی باتیں آجاتی ہیں جو غلط ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں صحافت میں بددیانتی ہونا ناقابل معافی جرم ہے۔ سابق ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب حمید نظامی میڈیا کمیونیکشن سٹڈی بنانے کا وقت آگیا ہے کیونکہ فکر قائد کو بعض این جی اوز اور میڈیا کے لوگوں نے ہائی جیک کر لیا ہے اور وہ قائد اعظم کو بار بار سیکولر بنانے پر تلے ہوئے ہیں جس طرح فکر قائد کو ہائی جیک کرنے کی کوششیں کی جارہی ہےں اسی طرح فکر حمید نظامی کو بھی ایک گروپ اب ہائی جیک کرنے کی کوششیں کر رہا ہے ہندوستان نواز لوگوں کا گروپ ان کے پیچھے کھڑا ہے۔ مجھے تین چار دعوت نامے بھارت سے ملے تھے لیکن میرا دل ہی نہیں کیا کہ میں وہاں جاﺅں کیونکہ مجید نظامی کی اس سوچ کا قائل ہوں کہ جب تک ہمارا حق بھارت سے ہم کو نہیں مل جاتا اس وقت تک بھارت نہیں جاﺅں گا۔اگر کوئی پاکستانی خاتون اداکارہ بھارت کے اداکار کے گلے لگ جائے اس کو بولڈ نہیں بے غیرتی کہیں گے۔ اسلئے میں کہوں گا کہ نوائے وقت پوری قوم کا فورم ہے ہمیں لائن ڈرا کرنی چاہیے کہ ملک کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا ان لوگوں کے ساتھ جو دن رات ملک کو بیچنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل فرید احمد پراچہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حمید نظامی فرد نہیں بلکہ وہ ایک ادارہ تھے۔ مجید نظامی ہی حمید نظامی کے مشن کو آگے چلا رہے ہیں۔ اسی لئے مجید نظامی کبھی بھی کسی آمر کے سامنے نہیںجھکے ہیںان کا کردار ہمارے لئے اقبال کے پیغام کی تشریح ہے۔ فوج انگریزوں کی بنائی ہوئی تھی بیورو کریسی بھی اسی طرح تھی انہوں نے پاکستان سنبھال لیا اور اب 63 سال بعد بھی ہم کو یہ لگتا ہے کہ ہم آزاد ہیں کہ نہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے پکڑے جانے کے بعد ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ جتنے بھی مزاروں ، مسجدوں ، میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں وہ بھارت اور امریکہ کا نیٹ ورک تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجید نظامی ، حمید نظامی کے وارث ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر پروین خان نے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ حمید نظامی آج بھی اپنے نظریہ جو مجید نظامی کی شکل میں موجود ہے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ حمید نظامی وقت کے ولی تھے اسلئے ان کو طاقت اللہ نے دی تھی وہ باضمیر انسان تھے اسلئے حق اور اصولوں پر ڈٹے رہے۔ نوائے وقت کا زندہ رہنا اللہ کا معجزہ ہے کیونکہ اس کو مجید نظامی کا سایہ نصیب ہوا اور مجید نظامی پوری قوم کے لئے ایک ساےہ دار درخت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ طیبہ ضیا کالم نگار نوائے وقت نے کہا کہ میں نے حمید نظامی کو نہیں دیکھا لیکن ان کے ساتھ نوائے وقت کی صورت میں ہمارا روحانی رابطہ ہے اس کی وجہ سے قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ سے بھی ہمارا روحانی رابطہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس ایک چور ہاتھ آگیا سارے اپنے جلسوں میں اس کے بارے میں لگ گئے ہیں۔ لیکن ہمارے لئے دوچہرے والے خطرناک ہیں جو یہاں آکر کچھ کہتے ہیں جبکہ امریکہ میں ان کی بولی کچھ اور ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مجیدنظامی کے بعد نوائے وقت کا کچھ نہیں ہو گا لیکن ان کو بتانا چاہتی ہوں کہ مشن کبھی کہیں نہیں جاتے ہیں اور فاطمہ جناحؒ کو بھی تو ووٹوں سے شکست ہوئی تھی لیکن ان کے مشن کو تو کوئی شکست نہیں دے سکا تھا۔ اسلئے میں کہوں گی کہ لالچ کی کوئی اخیر نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریمنڈ کے اندر انتقام مت ڈھونڈو بلکہ ہر ایک کے اندر جو ریمنڈ چھپا بیٹھا ہے اس کو قابو میں کرو اور عافیہ صدیقی پر سیاست چمکانے والوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اپنی بیٹیوں کو عافیہ صدیقی بناﺅ۔ معروف عالم دین مولانا احمد علی قصوری نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قلم کی قسم اٹھائی ہے جس سے اس کی عصمت اور حرمت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قلم کی عصمت، حرمت اور تقدس کا جس قدر خیال حمید نظامی سے لے کر مجید نظامی تک رکھا گیا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ 9/11کے بعد اس اخبار نے ”افغان باقی کہسار باقی“کا نعرہ لگایا جو اس دور کے فرعون اور استعماری طاقتوں کے خلاف ایٹم بم ہے۔ نظامی برادران آج روشنی کے مینار ہیں۔حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کے ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی نے کہا کہ اس حوالے سے ہم صحافت کی پچھلی نصف صدی پر نظر ڈالیں تو یہ نصف صدی جن عہد ساز صحافیوں کے ناموں سے پہچانی جاتی ہے ان میں نمایاں ترین نام مجاہد صحافت حمید نظامی کا ہے جنہوں نے صحافت کی بنیاد یعنی ”حق گوئی“ کے خمیر سے اپنا لہجہ تراشا اور بے خوفی سے سچ لکھنے کو اپنی پہچان بنایا۔ انہوں نے پاکستان کے پہلے فوجی آمر کے غیظ و غضب اور طنطنے سے مرعوب ہوئے بغیر وہ بات کہی جو پاکستان کی بقاءکے لئے ضروری تھی۔ وہ آمر سے مرعوب نہیں ہوئے، ہاں معتوب ضرور ہوئے جس کے نتیجے میں انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے مگر اس طرح وہ آمر کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کا استعارہ بن گئے یہ استعارہ نصف صدی کے بعد بھی حمید نظامی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی حوالے نے بعد کے صحافیوں اور آج کے میڈیا پرسنز کو حق گوئی کا حوصلہ دیا۔ یہی وہ پروفیشنل کمٹمنٹ ہے جسے اپناکر صحافیوں اور میڈیا پرسنز نے فوجی اور غیرفوجی آمروں کو للکارا اور آج آزادی صحافت کی جس فضا میں ہمارا قلم اور ہماری زبان سانس لے رہی ہے اس کی راہ حمید نظامی نے ہموار کی اور آج جناب مجید نظامی اسی راستے کو نشان منزل بناکر حق گوئی کا علم تھامے نفع نقصان کو خاطر میں لائے بغیر خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے چل رہے ہیں اور اس طرح چل رہے ہیں کہ
ہم چلے ایسے کہ رستوں کو پسینہ آ گیا
جناب مجید نظامی علامہ اقبال اور قائداعظم کے معتبر پیروکار ہیں۔ علامہ اقبال کی اُمید قائداعظم تھے، قائداعظم کی امید حمید نظامی تھے، حمید نظامی کی اُمید مجید نظامی ہیں اور مجید نظامی کی اُمید پاکستان کے نوجوان ہیں جن کے فکر وعمل میں نظریہ پاکستان راسخ کرنے کے لئے وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ذریعے ناقابل فراموش خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ہم چلے ایسے کہ رستوں کو پسینہ آ گیا
جناب مجید نظامی علامہ اقبال اور قائداعظم کے معتبر پیروکار ہیں۔ علامہ اقبال کی اُمید قائداعظم تھے، قائداعظم کی امید حمید نظامی تھے، حمید نظامی کی اُمید مجید نظامی ہیں اور مجید نظامی کی اُمید پاکستان کے نوجوان ہیں جن کے فکر وعمل میں نظریہ پاکستان راسخ کرنے کے لئے وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ذریعے ناقابل فراموش خدمات انجام دے رہے ہیں۔