پروفیسر نعیم مسعود ۔۔۔
’’ پنجاب میں یونیفکیشن بلاک کے پارلیمانی لیڈر کا کہنا ہے کہ پی پی پی کے استعفوں کے ساتھ ہی حکومت میں شمولیت کا اعلان کر دینگے‘‘۔ ملک بھر کے سنجیدہ حلقے پی پی پی کی نسبت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ میاں نواز شریف کے حق میں ہوتے ہیں۔ اگرچہ اب دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاست کا دور نہیں لیکن پھر بھی مسلم لیگ کی اکثریت اور مذہبی جماعتیں میاں نواز شریف کو پی پی پی پر ترجیح دیتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ آخر میاں نواز شریف کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ اس سوال کے کئی جوابات ہیں لیکن موٹی موٹی بات یہ ہے کہ بے شمار لوگوں کو پی پی پی سے نظریاتی اختلاف ہے اسکے بانی کو کچھ لوگ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب سمجھتے ہیں پھر پاکستان کے کچھ حلقے ذوالفقار علی بھٹو کی پرائیویٹ اداروں کو قومیانے کی پالیسی سے بہت زیادہ نالاں تھے۔ کچھ حلقوں کے قریب وہ مذہب سے دور تھے۔ کچھ ایوب خان کے حق میں تھے اور وہ بھٹو کے علم بغاوت اٹھا نے کے سبب جنرل ایوب خان سے انس میں بھٹو سے نفرت کرتے تھے۔
اسکے بعد جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو سیاست میں آئیں تو ان تمام حلقوں کے علاوہ وہ حلقے جو عورت کی سیاست اور حکمرانی کیخلاف تھے وہ بھی متذکرہ لوگوں کیساتھ پی پی پی مخالف دھڑے میں اکٹھے ہو گئے‘ ان سب کو میاں نواز شریف کی صورت میں ایک قیادت نظر آئی اور لوگوں کی بہت سی امیدیں میاں نواز شریف سے وابستہ ہو گئیں۔
پی پی پی مخالفت میں جلتی پر تیل کا کام بینظیر بھٹو کی دوبار حکومتوں کی بدعنوانیوں اور من مانیوں نے بھی کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر بینظیر بھٹو کے دور حکومت آصف علی زرداری کا ’’مسٹر 10 پرسنٹ‘‘ کے طور پر ’’معروف‘‘ بھی ہو جانا تھا۔
واضح رہے کہ اہلحدیث مسلک نے ہمیشہ میاں نواز شریف کو پی پی پی کی نسبت پسند کیا۔ اسی طرح دیوبندی اور بریلوی حلقوں کی اکثریت بھی اسے پسند کرتی ہے اور فوج پسند حلقوں کے نزدیک بھی میاں نواز شریف پسندیدہ شخصیت قرار پائے۔
مگر بدقسمتی یہ ہے کہ میاں نواز شریف کا پہلا دور حکومت بھی اپنوں میں لڑائی اور سرد جنگ کی بدولت ختم ہو گیا۔ آئی جے آئی کے لوگوں سے ان کو چڑ ہو گئی اور انہوں نے یوٹرن لے لیا اداروں کو پرائیوٹائز کرنا شروع کر دیا اور اپنے ہی گھر بھائیوں اور عزیزوں کو پارٹی کا محور و مرکز سمجھا‘ جس سے قریبی ساتھی سیخ پا ہوئے حتیٰ کہ حامد ناصر چٹھہ، محمد خان جونیجو، سردار آصف احمد علی، یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی، عابدہ حسین، فخر امام سمیت کئی سرکردہ لیڈر جو مسلم لیگی تھے‘ ان سے دور ہو گئے پھر بعد ازاں 1999ء میں وہ وقت بھی آیا جب سابق گورنر اور خلوت و جلوت کے ساتھی میاں محمد اظہر بھی ان سے دور ہو گئے۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی بھی دور نکل گئے۔ اسی طرح اعجاز الحق، ہمایوں اختر خان اور گوہر ایوب بھی بہت دور چلے گئے اور مسلم لیگ کا پورا شیرازہ ہی بکھر گیا۔
جنرل (ر) حمید گل جیسے دوستوں میں بھی اس طرح مقبول نہ رہے جس طرح تھے۔ وجہ یہ تھی کہ میاں نواز شریف الیکشن 1996ء میں ضرورت سے زیادہ خود پسند ہو گئے۔ سپریم کورٹ اور میڈیا سے لڑائی شروع کرلی۔ جنرل علی قلی خان جیسے پروفیشنل سولجر اور حقدار کو آرمی چیف بنانے کی بجائے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا حالانکہ دوست روکتے رہے۔
ان تمام چیزوں کے باوجود آج پھر میاں نواز شریف مقبول ترین لیڈر ہیں۔ میڈیا سے عام آدمی تک انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ میاں نواز شریف اس صورتحال سے خوب سیاسی اور جمہوری فائدہ اٹھاتے وہ لوگ جو پنجاب میں ق لیگ میں تھے انہیں نہ چھیڑتے کیونکہ آنیوالے وقتوں میں وہ خود ہی انکی طرف دوڑے چلے آنے کیلئے تیار تھے۔
میاں نواز شریف نے سابق گورنر ذوالفقار کھوسہ کے ذریعے ق لیگ کے کچھ لوگوں کو پہلے باغی بنایا اور پھر یونیفکیشن گروپ متحد کرا دیا۔ حالانکہ ن لیگ کو فی الوقت اسکی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس اقدام سے میاں نواز شریف پر حرف آتا تھا ‘ اب جتنی بھی کنی کترائی جائے یہ ممکن نہیں کہ اس نئے لوٹا ازم کو کے الزام سے میاں نواز شریف بچ سکیں۔
میاں نواز شریف اپنا امیج درست کریں اور جمہوری شاہراہ پر گامزن رہیں۔ یوٹرن اور ماضی کے لوٹا ازم کے اطوار ختم کر دینے چاہئیں۔
ایک بات یہ بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اس لوٹا ازم کا آغاز پنجاب سے نہیں ہوا بلکہ بلوچستان سے شروع ہوا، جہاں سے ق لیگ کے لوگ دھڑا دھڑ پی پی پی حکومت میں شامل ہو گئے اور انہوں نے اپنے قائد سے پوچھا تک نہیں تھا لیکن اس وقت مصلحت پسندی سے کام لیا گیا۔ پی پی پی نے اس کا آغاز کیا تھا لیکن میاں نواز شریف چپ رہے اور آج یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں چپ رہے۔
میاں نواز شریف ہوں یا بھٹو خاندان انہیں عوام نے ’’سیاسی مسلک‘‘ بنا کر اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، یہی وجہ ہے عوام بھی اصلی جمہوریت سے دور ہیں اور ترستے پھر رہے ہیں۔ کل پی پی پی پارلیمنٹیرین سے پٹریاٹ نے بھی تو یہی کچھ کیا تھا۔
یہ ساری باتیں اپنی جگہ ۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام اور سیاسی قائدین میاں نواز شریف سے کسی بڑے سیاسی کام کی توقع وابستہ کئے ہوئے ہیں لیکن اگر ملک و ملت کیلئے عوام، میڈیا اور دانشور میاں نواز شریف سے کوئی بڑا کام چاہتے ہیں تو میاں صاحب کو مجبور کر دیں کہ وہ چشم بینا سے کام لیں۔ امیدوں کے محور و مرکز بہر حال ’’پھر سے‘‘ میاں نواز شریف ہی بن گئے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تو ناکام ٹھہرے۔
’’ پنجاب میں یونیفکیشن بلاک کے پارلیمانی لیڈر کا کہنا ہے کہ پی پی پی کے استعفوں کے ساتھ ہی حکومت میں شمولیت کا اعلان کر دینگے‘‘۔ ملک بھر کے سنجیدہ حلقے پی پی پی کی نسبت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ میاں نواز شریف کے حق میں ہوتے ہیں۔ اگرچہ اب دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاست کا دور نہیں لیکن پھر بھی مسلم لیگ کی اکثریت اور مذہبی جماعتیں میاں نواز شریف کو پی پی پی پر ترجیح دیتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ آخر میاں نواز شریف کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ اس سوال کے کئی جوابات ہیں لیکن موٹی موٹی بات یہ ہے کہ بے شمار لوگوں کو پی پی پی سے نظریاتی اختلاف ہے اسکے بانی کو کچھ لوگ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب سمجھتے ہیں پھر پاکستان کے کچھ حلقے ذوالفقار علی بھٹو کی پرائیویٹ اداروں کو قومیانے کی پالیسی سے بہت زیادہ نالاں تھے۔ کچھ حلقوں کے قریب وہ مذہب سے دور تھے۔ کچھ ایوب خان کے حق میں تھے اور وہ بھٹو کے علم بغاوت اٹھا نے کے سبب جنرل ایوب خان سے انس میں بھٹو سے نفرت کرتے تھے۔
اسکے بعد جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو سیاست میں آئیں تو ان تمام حلقوں کے علاوہ وہ حلقے جو عورت کی سیاست اور حکمرانی کیخلاف تھے وہ بھی متذکرہ لوگوں کیساتھ پی پی پی مخالف دھڑے میں اکٹھے ہو گئے‘ ان سب کو میاں نواز شریف کی صورت میں ایک قیادت نظر آئی اور لوگوں کی بہت سی امیدیں میاں نواز شریف سے وابستہ ہو گئیں۔
پی پی پی مخالفت میں جلتی پر تیل کا کام بینظیر بھٹو کی دوبار حکومتوں کی بدعنوانیوں اور من مانیوں نے بھی کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر بینظیر بھٹو کے دور حکومت آصف علی زرداری کا ’’مسٹر 10 پرسنٹ‘‘ کے طور پر ’’معروف‘‘ بھی ہو جانا تھا۔
واضح رہے کہ اہلحدیث مسلک نے ہمیشہ میاں نواز شریف کو پی پی پی کی نسبت پسند کیا۔ اسی طرح دیوبندی اور بریلوی حلقوں کی اکثریت بھی اسے پسند کرتی ہے اور فوج پسند حلقوں کے نزدیک بھی میاں نواز شریف پسندیدہ شخصیت قرار پائے۔
مگر بدقسمتی یہ ہے کہ میاں نواز شریف کا پہلا دور حکومت بھی اپنوں میں لڑائی اور سرد جنگ کی بدولت ختم ہو گیا۔ آئی جے آئی کے لوگوں سے ان کو چڑ ہو گئی اور انہوں نے یوٹرن لے لیا اداروں کو پرائیوٹائز کرنا شروع کر دیا اور اپنے ہی گھر بھائیوں اور عزیزوں کو پارٹی کا محور و مرکز سمجھا‘ جس سے قریبی ساتھی سیخ پا ہوئے حتیٰ کہ حامد ناصر چٹھہ، محمد خان جونیجو، سردار آصف احمد علی، یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی، عابدہ حسین، فخر امام سمیت کئی سرکردہ لیڈر جو مسلم لیگی تھے‘ ان سے دور ہو گئے پھر بعد ازاں 1999ء میں وہ وقت بھی آیا جب سابق گورنر اور خلوت و جلوت کے ساتھی میاں محمد اظہر بھی ان سے دور ہو گئے۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی بھی دور نکل گئے۔ اسی طرح اعجاز الحق، ہمایوں اختر خان اور گوہر ایوب بھی بہت دور چلے گئے اور مسلم لیگ کا پورا شیرازہ ہی بکھر گیا۔
جنرل (ر) حمید گل جیسے دوستوں میں بھی اس طرح مقبول نہ رہے جس طرح تھے۔ وجہ یہ تھی کہ میاں نواز شریف الیکشن 1996ء میں ضرورت سے زیادہ خود پسند ہو گئے۔ سپریم کورٹ اور میڈیا سے لڑائی شروع کرلی۔ جنرل علی قلی خان جیسے پروفیشنل سولجر اور حقدار کو آرمی چیف بنانے کی بجائے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا حالانکہ دوست روکتے رہے۔
ان تمام چیزوں کے باوجود آج پھر میاں نواز شریف مقبول ترین لیڈر ہیں۔ میڈیا سے عام آدمی تک انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ میاں نواز شریف اس صورتحال سے خوب سیاسی اور جمہوری فائدہ اٹھاتے وہ لوگ جو پنجاب میں ق لیگ میں تھے انہیں نہ چھیڑتے کیونکہ آنیوالے وقتوں میں وہ خود ہی انکی طرف دوڑے چلے آنے کیلئے تیار تھے۔
میاں نواز شریف نے سابق گورنر ذوالفقار کھوسہ کے ذریعے ق لیگ کے کچھ لوگوں کو پہلے باغی بنایا اور پھر یونیفکیشن گروپ متحد کرا دیا۔ حالانکہ ن لیگ کو فی الوقت اسکی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس اقدام سے میاں نواز شریف پر حرف آتا تھا ‘ اب جتنی بھی کنی کترائی جائے یہ ممکن نہیں کہ اس نئے لوٹا ازم کو کے الزام سے میاں نواز شریف بچ سکیں۔
میاں نواز شریف اپنا امیج درست کریں اور جمہوری شاہراہ پر گامزن رہیں۔ یوٹرن اور ماضی کے لوٹا ازم کے اطوار ختم کر دینے چاہئیں۔
ایک بات یہ بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اس لوٹا ازم کا آغاز پنجاب سے نہیں ہوا بلکہ بلوچستان سے شروع ہوا، جہاں سے ق لیگ کے لوگ دھڑا دھڑ پی پی پی حکومت میں شامل ہو گئے اور انہوں نے اپنے قائد سے پوچھا تک نہیں تھا لیکن اس وقت مصلحت پسندی سے کام لیا گیا۔ پی پی پی نے اس کا آغاز کیا تھا لیکن میاں نواز شریف چپ رہے اور آج یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں چپ رہے۔
میاں نواز شریف ہوں یا بھٹو خاندان انہیں عوام نے ’’سیاسی مسلک‘‘ بنا کر اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، یہی وجہ ہے عوام بھی اصلی جمہوریت سے دور ہیں اور ترستے پھر رہے ہیں۔ کل پی پی پی پارلیمنٹیرین سے پٹریاٹ نے بھی تو یہی کچھ کیا تھا۔
یہ ساری باتیں اپنی جگہ ۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام اور سیاسی قائدین میاں نواز شریف سے کسی بڑے سیاسی کام کی توقع وابستہ کئے ہوئے ہیں لیکن اگر ملک و ملت کیلئے عوام، میڈیا اور دانشور میاں نواز شریف سے کوئی بڑا کام چاہتے ہیں تو میاں صاحب کو مجبور کر دیں کہ وہ چشم بینا سے کام لیں۔ امیدوں کے محور و مرکز بہر حال ’’پھر سے‘‘ میاں نواز شریف ہی بن گئے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تو ناکام ٹھہرے۔