کیا ملک کسی نئی افراتفری کا متحمل ہو سکتا ہے؟
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ اگر ملک و قوم کے مفاد میں ضرورت پڑی تو انقلابی نوجوانوں کے ساتھ ایک اور لانگ مارچ کرینگے۔ گزشتہ روز ماڈل ٹائون لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی تنظیم سازی کے مشاورتی اجلاس کے دوران سندھ کے متعدد ڈویژنوں کے پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر سال کھربوں روپے کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں اور اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے بیرونی امداد پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ عزت دار قومیں غیروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتیں‘ انکے بقول اگر حکومت انکے پیش کردہ ایجنڈے پر عملدرآمد کرتی تو ہم حکومت کا ساتھ دیتے۔ اب ضرورت پڑی تو ملکی مسائل کے حل کیلئے نوجوانوں کے ساتھ مل کر لانگ مارچ کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ موثر‘ مضبوط اور فعال مسلم لیگ ہی ملک کو درپیش چیلنجز اور مسائل سے نجات دلا سکتی ہے جس کیلئے ہمیں مسلم لیگ کو ایک موثر سیاسی قوت بنا کر عوام کے اندر سے مایوسی اور بے چینی کا خاتمہ کرنا ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ آئین توڑنے‘ پاکستانیوں کو بیچنے اور لوڈشیڈنگ دینے والے کو گارڈ آف آنر دیا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ مشرف آمریت نے ملک کی سالمیت اور عوام کیلئے جتنے سنگین مسائل پیدا کئے‘ ان سے ملک اور عوام کو بچانے اور آئندہ کیلئے جرنیلی آمروں کی طالع آزمائی کا راستہ روکنے کیلئے ہی میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے ایک دوسرے کے ساتھ میثاق جمہوریت پر متفق ہوئے تھے اور ملک کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کے قومی ایجنڈہ کے تحت سیاست میں روا داری کو فروغ دینے اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے والی ماضی کی پالیسیوں سے گریز کرنے کا طے کیا گیا تھا۔ مشرف آمریت نے ملکی اور قومی غیرت و حمیت اور آزادی و خودمختاری کا ہی جنازہ نہیں نکالا‘ قومی معیشت کو بیرونی قرضوں اور کڑی شرائط کے تابع امریکی امداد کا مرہون منت کرکے ملک میں آئے روز مہنگائی کے سونامی لانے اور مجبور و مقہور عوام کو ناقابل برداشت ٹیکسوں میں جکڑے رکھنے کا بھی اہتمام کردیا جبکہ اپنی من پسند جمہوریت کو رائج کرکے اسکے ذریعے اپنی شخصی آمریت کو دوام بخشنے کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف رہے‘ نتیجتاً ملک اور عوام کیلئے اندرونی اور بیرونی مسائل کے پہاڑ کھڑے ہو گئے۔ ملک امریکہ کا دستِ نگر بن گیا اور عوام کو جرنیلی آمریت کی غلامی میں جکڑے رکھنے کی سازشوں کو عملی جامہ پہنایا جانے لگا۔ اس وقت ملک کو جن گھمبیر اقتصادی‘ معاشی‘ سماجی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے‘ وہ سب مشرف آمریت ہی کا کیا دھرا ہے‘ جس میں احتساب کا نعرہ لگا کر اسے سیاسی مخالفین کیخلاف انتقامی کارروائیوں کیلئے بروئے کار لایا گیا‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ اور میڈیا کو اپنی مرضی کے تابع رکھنے کے اقدامات کئے گئے اور ماضی کی فوجی آمریتوں کی طرح مفاد پرست سیاستدانوں کو اپنا طفیلی بنا کر اور اقتدار کے حمام کی بھاپ دیکر انکی بدولت اپنے ناجائز اقتدار کا جواز بنانے کیلئے اپنے حلقۂ انتخاب کو ایجاد کیا گیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جرنیلی آمریتوں میں ملکی اور قومی استحکام کو بھی دھچکے لگتے رہے اور برصغیر کے مسلمانوں کے الگ تشخص اور انکی ترقی و خوشحالی کیلئے اسلامی‘ فلاحی‘ جمہوری معاشرے کی تشکیل پر مبنی قیام پاکستان کے مقاصد بھی فوت ہو گئے جس کا احساس کرتے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے ملک کو فوجی آمریتوں سے ہمیشہ کیلئے نجات دلانے کے ایجنڈا کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ اگر یہ اتحاد قائم رہتا اور میثاق جمہوریت کی شکل میں اس اتحاد کے منشور کو روبہ عمل لا کر سلطانیٔ جمہور کے استحکام کی منزل حاصل کر لی گئی ہوتی توملک کی آزادی و خودمختاری کو لاحق اندرونی اور بیرونی خطرات بھی ٹل جاتے اور عوام کے روٹی روزگار کے مسائل کے حل کیلئے بھی ترقیاتی منصوبوں کی شکل میں عملی پیشرفت ہو رہی ہوتی۔ نتیجتاً سلطانیٔ جمہور سے وابستہ عوامی توقعات پوری ہوتیں تو ایک صحت مند خوشحال معاشرے کی راہ بھی ہموار ہو جاتی جس میں لوگ اپنے اقتصادی مسائل سے بے نیاز ہو کر تعمیر وطن میں مصروف نظر آتے۔ جس نظام میں عوام مطمئن ہوں‘ انہیں روٹی روزگار کا کوئی مسئلہ لاحق نہ ہو اور انکے بچوں کا مستقبل بھی محفوظ ہو۔ وہاں عوامی اضطراب کی بنیاد پر کسی خونیں انقلاب کی سوچ پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ سوچ حکمرانوں کی پالیسیوں کے نتیجہ میں امیر اور غریب میں تفاوت بڑھنے اور اقتصادی ناہمواریوں کے باعث معاشرے کا توازن خراب ہونے کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ مشرف آمریت میں اس سوچ کے پروان چڑھنے کا زیادہ موقع ملا اور پھر عوام نے 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں خاموش انقلاب برپا کر کے سلطانیٔ جمہور کی راہ ہموار کی اور اسکے ساتھ اپنے مستقبل کی امیدیں وابستہ کر لیں مگر سلطانیٔ جمہور والوں نے اپنے لوٹ مار کے ایجنڈا کے تحت عوام کو نہ صرف جمہوریت سے بدظن کیا بلکہ آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے حقیر ٹکڑوں کی خاطر ملکی اور قومی مفادات اور غیرت کے تقاضوں کے منافی ان کی کڑی شرائط قبول کر کے اور انہیں عملی جامہ پہنا کر غریب عوام کو بدحال‘ نڈھال اور زندہ درگور کرنے کی راہ بھی ہموار کی‘ یہی وہ حالات ہیں جو عوام میں غم و غصہ کا باعث بن کر حکمرانوں کیخلاف تیونس‘ مصر اور لیبیا جیسے عوامی انقلاب پر منتج ہوتے ہیں۔
میاں نواز شریف نے مشرف آمریت کی پالیسیوں کا دامن تھامنے والے وفاقی حکمرانوں کیخلاف آزاد عدلیہ کو بحال کرانے کی خاطر اپنا لانگ مارچ ایسے ہی عوامی غم و غصے کی بنیاد پر کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ مگر اسکے بعد بھی انہوں نے حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق جمہوریت کے استحکام کی خاطر وفاقی حکمرانوں کو گرنے سے بچائے رکھا جبکہ اب وہ وفاقی حکمرانوں کی مسلسل بدعہدیوں سے عاجز آکر پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی راہیں الگ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں تو انکے دل میں عوام کے مسائل کے حل کیلئے دوبارہ لانگ مارچ کی سوچ بھی پروان چڑھنے لگی ہے۔
غریب و نادار عوام کے روٹی روزگار‘ مہنگائی اور بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے متعلق مسائل تو اب اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ انکے صبر کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک بھی رہا ہے اور اگر میاں نواز شریف لانگ مارچ کی کال دینگے تو انکے اشارے پر امڈنے والا عوام کا سمندر حکمران طبقات سمیت سب کچھ بہا کر لے جائیگا جبکہ اب وفاقی حکمرانوں کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اذیت ناک اور ناقابل برداشت اضافہ کرکے عوام کے بھڑکے ہوئے جذبات پر مزید تیل ڈالنے کا اہتمام بھی کر دیا گیا ہے۔ حکمران طبقہ کو پٹرولیم ڈیلرز کی مصنوعی ہڑتال کے ردعمل میں کراچی کے عوام کے بھڑکے ہوئے جذبات کی حدت محسوس کر لینی چاہیے جبکہ فیصل آباد میں گیس کی ہفتے میں پانچ روز بندش کے وفاقی حکومت کے فیصلے کیخلاف سخت عوامی ردعمل اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کے اعلان میں بھی حکومت کیلئے ہوش کے ناخن لینے کا کافی مواد موجود ہے۔ اگر اس فضا میں میاں نواز شریف لانگ مارچ کے عزم پر کاربند ہو گئے تو یہ عوامی انقلاب ہردو قیادتوں کے ہاتھ سے نکل کر خانہ جنگی کے راستے پر بھی چل سکتا ہے اور صرف حکمران ہی نہیں‘ تمام اشرافیہ طبقات اور ہر باوسیلہ شخص وسائل سے محروم عوام کے اس انقلاب کی زد میں آسکتا ہے اس لئے حکمرانوں کو ایسے انقلاب کے حالات کی نوبت نہیں آنے دینی چاہیے۔ اب بھی وقت ہے کہ میاں نواز شریف کے دس نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کرکے انہیں سسٹم کی بقاء والے کردار کی جانب واپس لے آئیں اور چاہے ایک دوسرے کی ذمہ دار اپوزیشن کی حیثیت سے ہی سہی‘ موجودہ اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے کی فضا قائم کرکے انتخابی عمل شروع کر دیں۔ اس سلسلہ میں صدر زرداری کو زیادہ دور اندیشی اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور 80ء و 90ء کی دہائی جیسی سیاسی محاذ آرائی کی نوبت نہیں آنے دینی چاہیے۔ گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ تو اس معاملہ میں اب تک تعمیری سوچ پر مبنی حوصلہ افزا بیانات دیتے رہے ہیں مگر اب صدر زرداری نے بلاول ہائوس کراچی میں ان سے ملاقات کرکے نہ جانے کیا پٹی پڑھائی ہو گی کہ اب انکے تیور بھی بدلے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کسی سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ عرب ریاستوں والے حالات ہمارے حکمران طبقات کی خبر لینے کو بھی بے تاب نظر آرہے ہیں‘ اسلئے وہ خود کو عوامی غیظ و غضب سے بچانے کی خاطر اپنی مفاد پرستیوں اور اللے تللوں سے باہر نکل آئیں اور پسے کچلے زخم خوردہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں‘ ورنہ اقتدار کے ایوانوں کو ہی نہیں‘ ملک کی سالمیت کو بھی سخت خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
قیادتیں اسمبلیوں کے اندر اور باہر مسلم لیگ کو متحد کریں
مسلم لیگ (ن) کے پنجاب سے پیپلز پارٹی کے وزراء کو علیحدہ کرنے کے اقدام کے بعد نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے فارغ ہونیوالے وزراء نے راجہ ریاض کی ’’امانت‘‘ میں اپنے نکالے جانے پر داتا صاحب جا کر نوافل بھی ادا کئے‘ گویا انکی شکنجے اندر پھنسی جان چھوٹ گئی۔ اب پیپلز پارٹی کی طرف سے لوٹا کریسی‘ لوٹا کریسی کی آوازیں تواتر کیساتھ آرہی ہیں جبکہ خود پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماء بھی یہ آئینی نقطہ تسلیم کرتے ہیںکہ پارٹی کے اکثریتی ارکان جو فیصلہ کریں‘ اس کو پارٹی کا فیصلہ قرار دیا جائیگا۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کی تعداد 81 ہے‘ ان میں سے 47 نے یونیفکیشن گروپ بنا لیا۔ آئین کے مطابق اب یہ 47 ارکان 36 سے اپنا ساتھ نہ دینے پر جواب طلب کر سکتے ہیں۔ یہ آئینی پوزیشن ہے‘ تاہم اخلاقیات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ بہرحال پنجاب اسمبلی میں (ق) لیگ کے 47 ارکان مسلم لیگ (ن) کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ مسلم لیگیں دراصل ایک ہی لڑی سے ٹوٹے ہوئے دانے ہیں‘ یہ غلط فہمیوں اور بداعتمادیوں کی وجہ سے مرکز سے دور ہوئیں۔ ہٹ دھرمی اور انائوں کے باعث ایک پلیٹ فارم پر آنے کو تیار نہیں۔ اب اسمبلیوں کے اندر مسلم لیگوں کے اتحاد کی فضا بنی ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اسمبلیوں کے اندر اور باہر بھی مسلم لیگوں کو متحد ہونا چاہیے‘ فریقین ملکی مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں۔ تمام مسلم لیگوں کو ایک کرکے ن‘ ق‘ ف بننے کے بجائے اسے صرف اور صرف قائد اور اقبال کی مسلم لیگ بنائیں‘ جو اس ملک کی بانی جماعت ہے۔
بھارت کا ہمارے قومی بجٹ سے بڑا دفاعی بجٹ
بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں 11.6 فیصد اضافہ کر دیا ہے‘ یعنی 16کھرب 40 ارب روپے سے زائد مختص کر دیئے۔ پاکستانی کرنسی میں بھارتی جنگی بجٹ 31 کھرب روپے ہو گا جبکہ 100 ارب ڈالر سے جدید طیارے اور ہتھیار خریدے جائینگے۔ بھارت کا جنگی جنون بڑھتا ہی جا رہا ہے‘ جس ملک میں غربت عروج پر ہے اور فی الحقیقت لوگ فاقے کرتے ہیں‘ اسکی پاکستان دشمنی کا یہ عالم ہے کہ اس نے ہمارے پورے قومی بجٹ سے بھی زیادہ رقم صرف ہمارے خلاف استعمال کرنے کیلئے جدید ہتھیاروں کیلئے وقف کر دی ہے۔ جب سے پاکستان ایٹمی قوت بنا ہے‘ بھارت پر جنگی تیاریوں کا بھوت سوار ہے۔ وہ اپنے بجٹ کی ایک خطیر رقم کشمیریوں کی نسل کشی پر بھی خرچ کر رہا ہے اور اس کا یہ ناپاک منصوبہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کیلئے آزاد کشمیر کو بھی مقبوضہ بنا لے۔ ادھر ہماری جانب یہ عالم ہے کہ امریکہ کی خدمت پر مامور اپنی جنگی صلاحیت اسکے حوالے کر رکھی ہے‘ ڈیڑھ لاکھ فوج امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑنے پر لگا رکھی ہے جبکہ بھارت جس رفتار سے جنگی ساز و سامان اکٹھا کر رہا ہے۔ وہ ہمارے لئے ایک واقعاتی خطرہ ہے اور ہم اس سے نمٹنے کیلئے تیاری کے بجائے مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ عالمی قوتیں اور بالخصوص اقوام متحدہ بھارت کے اس جنگی جنون کو کیوں لگام نہیں دیتا۔ بھارت ایک طرف مسئلہ کشمیر کے حل سے فرار حاصل کئے ہوئے ہے اور ساتھ ہی اس نے ہمارا پانی روک رکھا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی اس نے دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے حکمران جہاں گڈگورننس لانے میں ناکام رہے‘ وہاں بھارت سے نمٹنے میں بھی انتہائی لوپروفائل میں ہیں۔ عوامی مفادات‘ ملک کے دفاع اور مسئلہ کشمیر کی جگہ ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ امریکہ ایک طرح سے پاکستان کے دفاع اور معیشت کو کمزور کرکے بھارت کی مدد کر رہا ہے اور اس نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بدترین دہشت گردی میں ملوث ہے۔ پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے‘ اس لئے کہ ہم نے امریکہ کو مہمان بنا رکھا ہے اور اپنے دفاع سے غافل ہیں جبکہ کمینہ دشمن اسلحہ و بارود کے ہمالہ کھڑے کر رہا ہے۔ اس نے طاقت کے زور پر ہی پاکستان کو دو ٹکڑے کیا۔ بھارت کا دفاعی بجٹ جنگی جنون کا بھرپور مظاہرہ ہے‘ مگر ہم اس سیناریو کو نظرانداز کرکے سرکریک کے مسئلے کو سرفہرست قرار دیتے ہیں‘ وہ بھی مذاکرات میں۔ جن کا 63 برس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ہمیں فی الفور بھارت کی جنگی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ کی جنگ چھوڑ کر اور اسے نکال باہر کرنا اور اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہو گا بلکہ اب حالات کا یہ بھی تقاضا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں فوجی تربیت کو لازمی قرار دیا جائے اور قوم کو بھی فوجی تربیت حاصل کرنے کی طرف راغب کرنا چاہیے تاکہ ہماری فوج کے پاس ایک سیکنڈ لائن فورس موجود ہو۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ اگر ملک و قوم کے مفاد میں ضرورت پڑی تو انقلابی نوجوانوں کے ساتھ ایک اور لانگ مارچ کرینگے۔ گزشتہ روز ماڈل ٹائون لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی تنظیم سازی کے مشاورتی اجلاس کے دوران سندھ کے متعدد ڈویژنوں کے پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر سال کھربوں روپے کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں اور اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے بیرونی امداد پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ عزت دار قومیں غیروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتیں‘ انکے بقول اگر حکومت انکے پیش کردہ ایجنڈے پر عملدرآمد کرتی تو ہم حکومت کا ساتھ دیتے۔ اب ضرورت پڑی تو ملکی مسائل کے حل کیلئے نوجوانوں کے ساتھ مل کر لانگ مارچ کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ موثر‘ مضبوط اور فعال مسلم لیگ ہی ملک کو درپیش چیلنجز اور مسائل سے نجات دلا سکتی ہے جس کیلئے ہمیں مسلم لیگ کو ایک موثر سیاسی قوت بنا کر عوام کے اندر سے مایوسی اور بے چینی کا خاتمہ کرنا ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ آئین توڑنے‘ پاکستانیوں کو بیچنے اور لوڈشیڈنگ دینے والے کو گارڈ آف آنر دیا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ مشرف آمریت نے ملک کی سالمیت اور عوام کیلئے جتنے سنگین مسائل پیدا کئے‘ ان سے ملک اور عوام کو بچانے اور آئندہ کیلئے جرنیلی آمروں کی طالع آزمائی کا راستہ روکنے کیلئے ہی میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے ایک دوسرے کے ساتھ میثاق جمہوریت پر متفق ہوئے تھے اور ملک کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کے قومی ایجنڈہ کے تحت سیاست میں روا داری کو فروغ دینے اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے والی ماضی کی پالیسیوں سے گریز کرنے کا طے کیا گیا تھا۔ مشرف آمریت نے ملکی اور قومی غیرت و حمیت اور آزادی و خودمختاری کا ہی جنازہ نہیں نکالا‘ قومی معیشت کو بیرونی قرضوں اور کڑی شرائط کے تابع امریکی امداد کا مرہون منت کرکے ملک میں آئے روز مہنگائی کے سونامی لانے اور مجبور و مقہور عوام کو ناقابل برداشت ٹیکسوں میں جکڑے رکھنے کا بھی اہتمام کردیا جبکہ اپنی من پسند جمہوریت کو رائج کرکے اسکے ذریعے اپنی شخصی آمریت کو دوام بخشنے کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف رہے‘ نتیجتاً ملک اور عوام کیلئے اندرونی اور بیرونی مسائل کے پہاڑ کھڑے ہو گئے۔ ملک امریکہ کا دستِ نگر بن گیا اور عوام کو جرنیلی آمریت کی غلامی میں جکڑے رکھنے کی سازشوں کو عملی جامہ پہنایا جانے لگا۔ اس وقت ملک کو جن گھمبیر اقتصادی‘ معاشی‘ سماجی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے‘ وہ سب مشرف آمریت ہی کا کیا دھرا ہے‘ جس میں احتساب کا نعرہ لگا کر اسے سیاسی مخالفین کیخلاف انتقامی کارروائیوں کیلئے بروئے کار لایا گیا‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ اور میڈیا کو اپنی مرضی کے تابع رکھنے کے اقدامات کئے گئے اور ماضی کی فوجی آمریتوں کی طرح مفاد پرست سیاستدانوں کو اپنا طفیلی بنا کر اور اقتدار کے حمام کی بھاپ دیکر انکی بدولت اپنے ناجائز اقتدار کا جواز بنانے کیلئے اپنے حلقۂ انتخاب کو ایجاد کیا گیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جرنیلی آمریتوں میں ملکی اور قومی استحکام کو بھی دھچکے لگتے رہے اور برصغیر کے مسلمانوں کے الگ تشخص اور انکی ترقی و خوشحالی کیلئے اسلامی‘ فلاحی‘ جمہوری معاشرے کی تشکیل پر مبنی قیام پاکستان کے مقاصد بھی فوت ہو گئے جس کا احساس کرتے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے ملک کو فوجی آمریتوں سے ہمیشہ کیلئے نجات دلانے کے ایجنڈا کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ اگر یہ اتحاد قائم رہتا اور میثاق جمہوریت کی شکل میں اس اتحاد کے منشور کو روبہ عمل لا کر سلطانیٔ جمہور کے استحکام کی منزل حاصل کر لی گئی ہوتی توملک کی آزادی و خودمختاری کو لاحق اندرونی اور بیرونی خطرات بھی ٹل جاتے اور عوام کے روٹی روزگار کے مسائل کے حل کیلئے بھی ترقیاتی منصوبوں کی شکل میں عملی پیشرفت ہو رہی ہوتی۔ نتیجتاً سلطانیٔ جمہور سے وابستہ عوامی توقعات پوری ہوتیں تو ایک صحت مند خوشحال معاشرے کی راہ بھی ہموار ہو جاتی جس میں لوگ اپنے اقتصادی مسائل سے بے نیاز ہو کر تعمیر وطن میں مصروف نظر آتے۔ جس نظام میں عوام مطمئن ہوں‘ انہیں روٹی روزگار کا کوئی مسئلہ لاحق نہ ہو اور انکے بچوں کا مستقبل بھی محفوظ ہو۔ وہاں عوامی اضطراب کی بنیاد پر کسی خونیں انقلاب کی سوچ پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ سوچ حکمرانوں کی پالیسیوں کے نتیجہ میں امیر اور غریب میں تفاوت بڑھنے اور اقتصادی ناہمواریوں کے باعث معاشرے کا توازن خراب ہونے کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ مشرف آمریت میں اس سوچ کے پروان چڑھنے کا زیادہ موقع ملا اور پھر عوام نے 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں خاموش انقلاب برپا کر کے سلطانیٔ جمہور کی راہ ہموار کی اور اسکے ساتھ اپنے مستقبل کی امیدیں وابستہ کر لیں مگر سلطانیٔ جمہور والوں نے اپنے لوٹ مار کے ایجنڈا کے تحت عوام کو نہ صرف جمہوریت سے بدظن کیا بلکہ آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے حقیر ٹکڑوں کی خاطر ملکی اور قومی مفادات اور غیرت کے تقاضوں کے منافی ان کی کڑی شرائط قبول کر کے اور انہیں عملی جامہ پہنا کر غریب عوام کو بدحال‘ نڈھال اور زندہ درگور کرنے کی راہ بھی ہموار کی‘ یہی وہ حالات ہیں جو عوام میں غم و غصہ کا باعث بن کر حکمرانوں کیخلاف تیونس‘ مصر اور لیبیا جیسے عوامی انقلاب پر منتج ہوتے ہیں۔
میاں نواز شریف نے مشرف آمریت کی پالیسیوں کا دامن تھامنے والے وفاقی حکمرانوں کیخلاف آزاد عدلیہ کو بحال کرانے کی خاطر اپنا لانگ مارچ ایسے ہی عوامی غم و غصے کی بنیاد پر کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ مگر اسکے بعد بھی انہوں نے حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق جمہوریت کے استحکام کی خاطر وفاقی حکمرانوں کو گرنے سے بچائے رکھا جبکہ اب وہ وفاقی حکمرانوں کی مسلسل بدعہدیوں سے عاجز آکر پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی راہیں الگ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں تو انکے دل میں عوام کے مسائل کے حل کیلئے دوبارہ لانگ مارچ کی سوچ بھی پروان چڑھنے لگی ہے۔
غریب و نادار عوام کے روٹی روزگار‘ مہنگائی اور بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے متعلق مسائل تو اب اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ انکے صبر کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک بھی رہا ہے اور اگر میاں نواز شریف لانگ مارچ کی کال دینگے تو انکے اشارے پر امڈنے والا عوام کا سمندر حکمران طبقات سمیت سب کچھ بہا کر لے جائیگا جبکہ اب وفاقی حکمرانوں کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اذیت ناک اور ناقابل برداشت اضافہ کرکے عوام کے بھڑکے ہوئے جذبات پر مزید تیل ڈالنے کا اہتمام بھی کر دیا گیا ہے۔ حکمران طبقہ کو پٹرولیم ڈیلرز کی مصنوعی ہڑتال کے ردعمل میں کراچی کے عوام کے بھڑکے ہوئے جذبات کی حدت محسوس کر لینی چاہیے جبکہ فیصل آباد میں گیس کی ہفتے میں پانچ روز بندش کے وفاقی حکومت کے فیصلے کیخلاف سخت عوامی ردعمل اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کے اعلان میں بھی حکومت کیلئے ہوش کے ناخن لینے کا کافی مواد موجود ہے۔ اگر اس فضا میں میاں نواز شریف لانگ مارچ کے عزم پر کاربند ہو گئے تو یہ عوامی انقلاب ہردو قیادتوں کے ہاتھ سے نکل کر خانہ جنگی کے راستے پر بھی چل سکتا ہے اور صرف حکمران ہی نہیں‘ تمام اشرافیہ طبقات اور ہر باوسیلہ شخص وسائل سے محروم عوام کے اس انقلاب کی زد میں آسکتا ہے اس لئے حکمرانوں کو ایسے انقلاب کے حالات کی نوبت نہیں آنے دینی چاہیے۔ اب بھی وقت ہے کہ میاں نواز شریف کے دس نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کرکے انہیں سسٹم کی بقاء والے کردار کی جانب واپس لے آئیں اور چاہے ایک دوسرے کی ذمہ دار اپوزیشن کی حیثیت سے ہی سہی‘ موجودہ اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے کی فضا قائم کرکے انتخابی عمل شروع کر دیں۔ اس سلسلہ میں صدر زرداری کو زیادہ دور اندیشی اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور 80ء و 90ء کی دہائی جیسی سیاسی محاذ آرائی کی نوبت نہیں آنے دینی چاہیے۔ گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ تو اس معاملہ میں اب تک تعمیری سوچ پر مبنی حوصلہ افزا بیانات دیتے رہے ہیں مگر اب صدر زرداری نے بلاول ہائوس کراچی میں ان سے ملاقات کرکے نہ جانے کیا پٹی پڑھائی ہو گی کہ اب انکے تیور بھی بدلے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کسی سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ عرب ریاستوں والے حالات ہمارے حکمران طبقات کی خبر لینے کو بھی بے تاب نظر آرہے ہیں‘ اسلئے وہ خود کو عوامی غیظ و غضب سے بچانے کی خاطر اپنی مفاد پرستیوں اور اللے تللوں سے باہر نکل آئیں اور پسے کچلے زخم خوردہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں‘ ورنہ اقتدار کے ایوانوں کو ہی نہیں‘ ملک کی سالمیت کو بھی سخت خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
قیادتیں اسمبلیوں کے اندر اور باہر مسلم لیگ کو متحد کریں
مسلم لیگ (ن) کے پنجاب سے پیپلز پارٹی کے وزراء کو علیحدہ کرنے کے اقدام کے بعد نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے فارغ ہونیوالے وزراء نے راجہ ریاض کی ’’امانت‘‘ میں اپنے نکالے جانے پر داتا صاحب جا کر نوافل بھی ادا کئے‘ گویا انکی شکنجے اندر پھنسی جان چھوٹ گئی۔ اب پیپلز پارٹی کی طرف سے لوٹا کریسی‘ لوٹا کریسی کی آوازیں تواتر کیساتھ آرہی ہیں جبکہ خود پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماء بھی یہ آئینی نقطہ تسلیم کرتے ہیںکہ پارٹی کے اکثریتی ارکان جو فیصلہ کریں‘ اس کو پارٹی کا فیصلہ قرار دیا جائیگا۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کی تعداد 81 ہے‘ ان میں سے 47 نے یونیفکیشن گروپ بنا لیا۔ آئین کے مطابق اب یہ 47 ارکان 36 سے اپنا ساتھ نہ دینے پر جواب طلب کر سکتے ہیں۔ یہ آئینی پوزیشن ہے‘ تاہم اخلاقیات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ بہرحال پنجاب اسمبلی میں (ق) لیگ کے 47 ارکان مسلم لیگ (ن) کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ مسلم لیگیں دراصل ایک ہی لڑی سے ٹوٹے ہوئے دانے ہیں‘ یہ غلط فہمیوں اور بداعتمادیوں کی وجہ سے مرکز سے دور ہوئیں۔ ہٹ دھرمی اور انائوں کے باعث ایک پلیٹ فارم پر آنے کو تیار نہیں۔ اب اسمبلیوں کے اندر مسلم لیگوں کے اتحاد کی فضا بنی ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اسمبلیوں کے اندر اور باہر بھی مسلم لیگوں کو متحد ہونا چاہیے‘ فریقین ملکی مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں۔ تمام مسلم لیگوں کو ایک کرکے ن‘ ق‘ ف بننے کے بجائے اسے صرف اور صرف قائد اور اقبال کی مسلم لیگ بنائیں‘ جو اس ملک کی بانی جماعت ہے۔
بھارت کا ہمارے قومی بجٹ سے بڑا دفاعی بجٹ
بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں 11.6 فیصد اضافہ کر دیا ہے‘ یعنی 16کھرب 40 ارب روپے سے زائد مختص کر دیئے۔ پاکستانی کرنسی میں بھارتی جنگی بجٹ 31 کھرب روپے ہو گا جبکہ 100 ارب ڈالر سے جدید طیارے اور ہتھیار خریدے جائینگے۔ بھارت کا جنگی جنون بڑھتا ہی جا رہا ہے‘ جس ملک میں غربت عروج پر ہے اور فی الحقیقت لوگ فاقے کرتے ہیں‘ اسکی پاکستان دشمنی کا یہ عالم ہے کہ اس نے ہمارے پورے قومی بجٹ سے بھی زیادہ رقم صرف ہمارے خلاف استعمال کرنے کیلئے جدید ہتھیاروں کیلئے وقف کر دی ہے۔ جب سے پاکستان ایٹمی قوت بنا ہے‘ بھارت پر جنگی تیاریوں کا بھوت سوار ہے۔ وہ اپنے بجٹ کی ایک خطیر رقم کشمیریوں کی نسل کشی پر بھی خرچ کر رہا ہے اور اس کا یہ ناپاک منصوبہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کیلئے آزاد کشمیر کو بھی مقبوضہ بنا لے۔ ادھر ہماری جانب یہ عالم ہے کہ امریکہ کی خدمت پر مامور اپنی جنگی صلاحیت اسکے حوالے کر رکھی ہے‘ ڈیڑھ لاکھ فوج امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑنے پر لگا رکھی ہے جبکہ بھارت جس رفتار سے جنگی ساز و سامان اکٹھا کر رہا ہے۔ وہ ہمارے لئے ایک واقعاتی خطرہ ہے اور ہم اس سے نمٹنے کیلئے تیاری کے بجائے مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ عالمی قوتیں اور بالخصوص اقوام متحدہ بھارت کے اس جنگی جنون کو کیوں لگام نہیں دیتا۔ بھارت ایک طرف مسئلہ کشمیر کے حل سے فرار حاصل کئے ہوئے ہے اور ساتھ ہی اس نے ہمارا پانی روک رکھا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی اس نے دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے حکمران جہاں گڈگورننس لانے میں ناکام رہے‘ وہاں بھارت سے نمٹنے میں بھی انتہائی لوپروفائل میں ہیں۔ عوامی مفادات‘ ملک کے دفاع اور مسئلہ کشمیر کی جگہ ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ امریکہ ایک طرح سے پاکستان کے دفاع اور معیشت کو کمزور کرکے بھارت کی مدد کر رہا ہے اور اس نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بدترین دہشت گردی میں ملوث ہے۔ پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے‘ اس لئے کہ ہم نے امریکہ کو مہمان بنا رکھا ہے اور اپنے دفاع سے غافل ہیں جبکہ کمینہ دشمن اسلحہ و بارود کے ہمالہ کھڑے کر رہا ہے۔ اس نے طاقت کے زور پر ہی پاکستان کو دو ٹکڑے کیا۔ بھارت کا دفاعی بجٹ جنگی جنون کا بھرپور مظاہرہ ہے‘ مگر ہم اس سیناریو کو نظرانداز کرکے سرکریک کے مسئلے کو سرفہرست قرار دیتے ہیں‘ وہ بھی مذاکرات میں۔ جن کا 63 برس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ہمیں فی الفور بھارت کی جنگی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ کی جنگ چھوڑ کر اور اسے نکال باہر کرنا اور اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہو گا بلکہ اب حالات کا یہ بھی تقاضا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں فوجی تربیت کو لازمی قرار دیا جائے اور قوم کو بھی فوجی تربیت حاصل کرنے کی طرف راغب کرنا چاہیے تاکہ ہماری فوج کے پاس ایک سیکنڈ لائن فورس موجود ہو۔