عاصمہ جہانگیر کی برسی پر اس سال برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بے جا تنقید کی۔ سنجیدہ حلقوں میں اس تنقید کو بلا جواز قرار دیا گیا۔ اگر برطانوی سفارت کار تنقید سے پہلے اپنے ملک کے عدالتی فیصلوں پر نادم ہوتیں تو اچھا تھا مگر وہ نہایت ہی بے خوفی سے اس فورم پر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ایک سیاسی جماعت کی پشت پناہی کرتی دکھائی دیں۔ اس پروگرام میں شریک وکلا رہنماء اگر فوری جواب دیکر حساب بے باک کرسکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوا. البتہ اس موقع پر یہ شعر یاد آیا۔
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
اس بدنامی کی ایک وجہ سپریم کورٹ کے ماضی کے وہ چند فیصلے ہیں جنہوں نے جوڈیشری کو بدنام کر رکھا ہے۔ موجودہ جوڈیشری اپنے آپ پر لگے داغ دھونے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ابھی تک ماضی کے چند داغ جوڈیشری دھو چکی ہے ایک ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشیل مرڈر کا فیصلہ، دوسرا نواز شریف کا تا حیات نا اہلی کا فیصلہ اور تیسرا جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو گھر بھیجنے کا فیصلہ۔جن ججز صاحبان نے بھٹو کو پھانسی دلوائی تھی میاں نوازشریف کو تا حیات نااہل قرار دیا تھا اور جسٹس شوکت صدیقی کو گھر بھیجا تھا، ایسے ججز کی کم از کم پنشن اور دیگر مراعات ختم کر دی جاتیں تو اچھا ہوتا ،اسی طرح جو ماورائے آئین اقدام کے تحت آئین توڑتے رہے ان کی پنشن اورمراعات ختم کر دی جاتیں تو نظام میں بہتری آ سکتی تھی۔ایسا کرنے سے جوڈیشری کا سر مزید فخر سے بلند ہو جاتا۔ جب بھی کوئی انگلیاں اٹھائے الزامات لگائے، عدلیہ اسے ضرور دیکھا کرے۔ اگر خامیاں ہوں تو سزا دیں۔ اگر غلط الزامات لگائیں تو کارروائی کریں۔ جب سے برطانوی سفارت کارہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بے جا تنقید کی ہے اس کے بعدسے امید تھی کہ برطانوی ہائی کمشنر کا جواب فارن آفس سے آج نہیں تو کل دے گا'' چنانچہ گذشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کی جانب سے بھی ان کی ہفتہ وار بریفنگ میں برطانوی سفیر کے بیان کا نوٹس لے لیا گیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہدایت پر برطانوی سفارت کارہ کو لکھے گئے خط میں بھرپور جواب دیا ہے۔اس خط کی کاپی صدر سپریم کورٹ برطانیہ، لیڈی چیف جسٹس آف انگلینڈ اور ویلیز کو بھیجی گئی ہے۔ ایسا کر کے ہماری عدلیہ نے سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ اس سے پوری قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ، قوم کو اپنے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر فخر ہے۔ قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔
برطانیہ کی سفارت کارہ نے بند آنکھوں سے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بے جا تنقید کی اور کہا کہ تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے دانستہ محروم رکھا گیا۔ اس خط میں لکھا گیا ہے کہ تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرنے پر برطانوی سفارت کارہ جین میریٹ جو پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر ہے۔ اس کا اعتراض بالکل بلا جواز تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ نے وہی فیصلہ دیا جو قانون ہمارا کہتا ہے، انٹرا پارٹی الیکشن پر پارٹی نشانات سے متعلق فیصلہ براہ راست عدالت سے نشر بھی کیا گیا تھا۔اگر بد نیتی ہوتی تو ساری قوم کو عدالتی کارروائی دکھانے سنانے کی ضرورت نہ تھی۔اسی طرح سپریم کورٹ نے الیکشن تاریخ کا معاملہ صرف بارہ دن میں حل کر دیا تھا۔ یاد رہے قانون کہتا ہے جب کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کراتی تو وہ نشان لینے کی اہل نہیں رہتی۔ موجودہ سپریم کورٹ نے اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ جس طرح سے کیا ہے برطانیہ بھی اپنی غلطیوں کا ازالہ کر کے دکھائے۔ ہم آبادکاروں کی نسلی برتری کے دہانے سے پیچھے ہٹیں، ہم سب اٹھ کھڑے ہوں۔ برابری امن اور انسانیت کے پیمانے سے جانچی جائے۔
خط میں 1953ء میں ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کے فوری اعلامیے کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے قیام کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ خط میں لکھا ہے کہ آئیے ایماندار بنیں اور کھلے پن کے جذبے کے ساتھ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کریں۔ سپریم کورٹ نے اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیا ہے اور ان غلطیوں کا ازالہ بھی کیا ہے۔ جس روز برطانوی سفارت کارہ نے لاہور میں تقریر کی اسی روز اگر اس پروگرام کے کرتا دھرتا اس کا جواب انہیں دے دیتے تو سپریم کورٹ کو خط لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ پاکستانی قوم ان سے پوچھتی ہے کہ ہمارے ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کو برطانیہ نے اسے اپنے حصار میں لے رکھا، برطانوی ہائی کمشنر اس کے کیسوں کے بارے میں بھی لب کشائی کردیتی تو بہتر ہوتا۔ پھر حال ہی میں اسرائیل نے فلسطینوں پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس سے معصوم بچے بچیاں، نوجوان مرد عورتیں شہید ہو چکی ہیں۔اب تک ہزاروں فلسطینی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ ظلم کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس پر دہشتگرد اسرائیل کو منع کرنے کے بجائے برطانیہ کا وزیراعظم اسلحہ گولے بارود سے بھرے جہاز پرخود بیٹھ کر اسرائیل کا ساتھ دینے تل ابیب پہنچا تھا۔ ساری دنیا اسرائیل کے مظالم پر سراپااحتجاج ہے اور برطانیہ پھر بھی ظالم کا ساتھ دے رہا ہے۔ اب تو اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف نے بھی فوری جنگ بندی کا مطالبہ اور فیصلہ دے دیا ہے۔اب تو کچھ شرم کرو حیا کرو اور اسرائیل کو جنگ سے روکو۔ اسرائیلی مظالم پر کیوں کچھ نہیں کہتے ہو۔ کس منہ سے ہماری عدلیہ پر تنقید کرتے ہو۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برطانیہ کی ہائی کمشنر کی تنقید پر خط لکھ کر ایک اچھا اقدام اٹھایا ہے۔ قوم ان کو سلیوٹ کرتی ہے، آپ قوم کا افتخار ہیں۔ امید ہے اب کوئی ملک کسی پر بلا جواز تنقید نہیں کرے گا۔ پاکستان زندہ باد!!