آئی ایم ایف کے بغیر بجٹ کی تیاری کے لئے حکومتی بی پلان.
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے آئی ایم ایف مشن چیف کے بیان کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہوئی تو وزارتِ خزانہ آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھی، ہر وقت پلان بی موجود ہوتا ہے۔ گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیح آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ہے۔ پاکستان قانون کے مطابق ہی چل رہا ہے۔ آئی ایم ایف مشن چیف کا بیان غیر معمولی نوعیت کا ہے اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے جو آئی ایم ایف کا مینڈیٹ نہیں۔ ان کے بقول قرض پروگرام میں تاخیر پاکستان اور آئی ایم ایف دونوں کے مفاد میں نہیں۔ وزیر اعظم نے ایم ڈی آئی ایم ایف کو شرائط پر عملدرآمد اور پروگرام مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ امید ہے نئے بجٹ سے پہلے سٹاف لیول معاہدہ ہو جائے گا اور 30۔ جون کو آئی ایم ایف پروگرام ختم ہو جائے گا۔
عائشہ غوث پاشا کے مطابق نئے مالی سال کا بجٹ الیکشن اِئر بجٹ ہو گاجو 9۔ جون کے حساب سے تیار کیا جا رہا۔ آئی ایم ایف پاکستان کو ٹارگٹڈ سبسڈی کی اجازت دیتا ہے۔ ہم خود جاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے ہی بجٹ تیار کیا جائے کیونکہ ہمیں معیشت کو استحکام کی طرف لے کر جانا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ موجودہ حالات میں ایسا بجٹ بنائیں کہ اس سے عام آدمی کو کافی حد تک ریلیف مل سکے اور اس پر اب مزید بوجھ نہ پڑے۔
دوسری جانب پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام مکمل ہوئے بغیر ہی ختم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ نویں اقتصادی جائزے کے بعد آئی ایم ایف سے پاکستان کا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔
بجٹ تجاویز پر آئی ایم ایف سے بات چیت کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بقول عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی سیاست پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف ہم سے پوچھ رہا ہے کہ سیاسی استحکام کب آئے گا۔ دشمن چاہتا ہے کہ ملک میں افراتفری پھیلے۔ ہر روز ڈیفالٹ کی باتیں کی جاتی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے ڈالر اوپر جا رہا ہے۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ رواں ماہ کا بجٹ موجودہ منتخب حکومت کا آخری بجٹ ہو گا جسے نئے انتخابات میں عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے نکتہ نظر سے ہی حکومت کو عوام دوست بجٹ بنا کر عوام کو غربت، مہنگائی کے روز افزوں مسائل میں امید کی کرن دکھانی ہے۔ اس وقت ملک میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل جس انتہاءتک جا پہنچے ہیں اور عوام عملاً زندہ درگور نظر آتے ہیں اس کے پیش نظر مجوزہ بجٹ میں عوام کے لئے مناسب ریلیف کا اہتمام کر کے ہی انہیں مطمئن کیا جا سکتا ہے جبکہ مہنگائی کے اٹھتے سونامیوں نے اس مہنگائی کا باعث بننے والی پی ٹی آئی قیادت کے لئے عوام میں ہمدردی کے جذبات پیدا کر دئیے ہیں اور پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے حکومتی ، انتظامی، ریاستی اقدامات کے باوجود عمران خان کی مقبولیت کا گراف بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔
اسمبلی کی میعاد پوری ہونے کے بعد بہرحال نگران سیٹ اپ تشکیل پانا ہے جس کے ماتحت نئے انتخابات ہوں گے۔ اگر اتحادی جماعتوں کی حکومت نے نگران سیٹ اپ کی تشکیل سے پہلے پہلے عوام کو ان کے گھمبیر مسائل کے حل کے لئے مطمئن کرنے کے عملی اقدامات نہ اٹھائے تو انتخابات میں عوام کے ہاتھوں ان کا انجام نوشتہ دیوار ہے۔ اس تناظر میں موجودہ حکومت کے لئے عوام کو امید کی کرن دکھانے کا واحد ذریعہ رواں ماہ پیش ہونے والا وفاقی بجٹ ہی ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف بھی نئے بجٹ میں بالخصوص کاشتکاروں کو کھاد پر براہ راست سبسڈی اور زرعی شعبہ میں دیگر مراعات کا عندیہ دے رہے ہیں اور حکومت کی اقتصادی، مالیاتی ٹیموں کو بھی عوام دوست بجٹ کی تشکیل کا ٹاسک سونپا گیا ہے جبکہ گزشتہ پندھرواڑے سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی کمی جا رہی ہے اور روس سے درآمد شدہ سستے تیل کی پہلی کھیپ پاکستان آنے کے نتیجہ میں بھی متعلقہ وزراء پٹرولیم نرخوں میں مزید کمی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود عوام کو بالخصوص آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عمل کرنے کی حکومتی پالیسی کے باعث اپنے اچھے مستقبل کی توقع پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
آئی ایم ایف پروگرام وہ آسیب ہے جو گزشتہ پچاس سال سے زائد عرصہ سے ہماری معیشت کو چمٹا ہوا ہے جس نے ہماری اقتصادی، معاشی ترقی کا سفر بھی کھوٹا کر دیا ہے۔ اس کے سود در سود پر مبنی قرض سے ملک کو خلاصی دلانا اب عملاً ناممکن ہو چکا ہے اور ہمارے حکمران آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے مطابق اپنی قومی اقتصادی اور مالی پالیسیوں میں ردوبدل پر مجبور نظر آتے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کی بنیاد پر اٹھائے گئے حکومتی اقدامات سے عوام براہ راست مہنگائی کے سونامیوں کی زد میں آتے ہیں جن کے لئے تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے تو ان کے اضطراب اور سخت ردعمل کے اظہار سے اقتدار کے ایوانوں پر بھی لرزہ طاری رہتا ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ ایجنڈہ درحقیقت ان بیرونی طاقتوں کا ایجنڈہ ہے جو پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ایٹمی ملک کی حیثیت سے پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ انہی قوتوں کا ایجنڈہ پاکستان کو ہمہ وقت خلفشار اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار رکھنے کا ہے جس کے لئے ہماری قومی سیاست میں موجود مفاد پرست عناصر محض اپنے اقتدار کی خاطر ان کے ہاتھوں میں کھیلتے اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار رکھتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی بدطینتی کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے اس کے قرض پروگرام سے متعلق معاہدہ کی خلاف ورزی کو جواز بنا کر اس نے پاکستان کا قرض پروگرام روک دیا جس کی بحالی کے لئے آئی ایم ایف پاکستان کی موجودہ مخلوط حکومت سے اپنی آئے روز کی بے سروپا شرائط پر ایڑیاں رگڑوانے اور ان کے ہاتھوں عوام کو راندہ¿ درگاہ بنوانے کے باوجود قرض پروگرام بحال کرنے پر آمادہ نہیں اور اب اس پروگرام کی بحالی کے بغیر ہی اس کی میعاد رواں ماہ میں ختم ہونے کا عندیہ دیا جا رہا ہے جو نئے بجٹ کے لئے آئی ایم ایف پر تکیہ کئے بیٹھے ہمارے حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ عائشہ غوث پاشا کے بقول آئی ایم ایف کے مشن چیف کا گزشتہ روز کا بیان پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے جبکہ آئی ایم ایف کی عائد کی جانے والی ہر شرط پاکستان کی خودمختاری کے منافی اور اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہی ہوتی ہے۔ اگر موجودہ حکومت کا آخری بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع ہو گا تو اس بجٹ کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کبھی حقیقت کے قالب میں نہیں ڈھل سکیں گے نتیجتاً ملک میں انتشار و خلفشار بڑھتا ہی رہے گا۔ اس تناظر میں اگر حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے سہارے کے بغیر بجٹ کی تیاری کا کوئی بی پلان موجود ہے، جس کا امورِ خزانہ کی وزیر مملکت نے عندیہ بھی دیا ہے تو حکومت کو اس پلان کو بروئے کار لانے کو ہی ترجیح دینی چاہئے تاکہ عوام کو کم از کم آئی ایم ایف سے مستقل خلاصی کے لئے ہی امید کی کوئی کرن نظر آ سکے۔