قاف لیگ کا اے پی سی بلانے کا اعلان
ایک طرف ملک میں سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے تو دوسری جانب سیاسی جوڑ توڑ اور اہم ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے سیاسی عدم استحکام پر قابو پانے اور معاملات کو بات چیت سے حل کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ ترجمان قاف لیگ کے مطابق، پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اے پی سی میں دعوت دی جائے گی۔ ادھر، جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے سابق اراکین اور ٹکٹ ہولڈرز نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس سلسلے میں بلاول ہاو¿س لاہور میں سابق صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر پارٹی رہنماو¿ں اور شمولیت کرنے والے نئے اراکین کی ملاقات ہوئی۔ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں رحیم یار خان، بہاولپور اور مظفر گڑھ، راجن پور، بہاولنگر، میانوالی، اوکاڑہ کے رہنما شامل ہیں۔ دوسری جانب، پی ٹی آئی کوخیر باد کہنے والے رہنماو¿ں فواد چودھری، عمران اسماعیل اور محمود مولوی نے بدھ کو اڈیالہ جیل میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد تینوں رہنماو¿ں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کافی دنوں بعد میڈیا سے گفتگو ہورہی ہے، 9 مئی کے بعد صورتحال بدل گئی ہے۔ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے فواد چودھری، عمران اسماعیل اور محمود مولوی نے کہا کہ معاملہ آگے بڑھے گا، پاکستان 25 کروڑ آبادی کا ملک ہے، 25 کروڑ عوام کو آصف زرداری، نوازشریف، فضل الرحمن پرنہیں چھوڑاجاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں معاشی، سیاسی اور آئینی بے چینی ہے۔ ہماری پی ٹی آئی کی تمام سابقہ لیڈر شپ سے بات ہوئی ہے، اسد عمر، پرویز خٹک، فرخ حبیب سے رابطہ کیا ہے اور شاہ محمود قریشی سے بھی تفصیلی گفتگو ہوئی ہے، ہم نے حل نکالنے ہیں۔ فواد چودھری کے دعوو¿ں کے برعکس پی ٹی آئی کے متعدد رہنماو¿ں نے ان سے رابطوں کی تردیدکی ہے۔ انتخابات کے قریب کے زمانے میں سیاسی جوڑ توڑ معمول کی سرگرمی سمجھی جاتی ہے تاہم سیاسی قیادت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے انھیں ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جن سے سیاسی استحکام آئے تاکہ معیشت کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔ اس وقت جو صورتحال نظر آرہی ہے اس میں معیشت کے سنبھلنے کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں۔ اب سیاسی قیادت کو بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے معاملات کو سدھارنے کے لیے مل بیٹھنا ہوگا۔