بھارتی وجود خطرے میں!
بھارت نے گزشتہ بیس برسوں میں امریکی حمایت اور خطے میں امریکہ کی موجودگی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے جو اقدامات کئے ہیںآج اُن اقدامات نے بھارت کو ایک ایسے موڑ پرلا کھڑا کیا ہے جہاں بھارت کا اپنا وجود ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ آئیے پس منظر کے احوال پر ایک نظر ڈالتے ہیں، امریکی افواج اپنے اتحادی ممالک سمیت پاکستان کی مغربی سرحدوں تک آپہنچی تھیںاور افغانستان کی سرزمین پر آگ و خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی ، ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا جس ملک کو تھا وہ وطن ِ عزیز پاکستان تھا، جس کی مغربی سرحد بالکل غیر محفوظ ہو کر رہ گئی تھی اور یوں پاکستانی افواج کو مشرقی سرحدوں سمیت ڈیورنڈ لائن جیسی وسیع سرحد پر مختلف مراحل میں دشواریوں کا سامنا تھا ۔ ایسے وقت میں بزدل بھارت نے موقعے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکی چھتری تلے افغانستان میں اپنے خفیہ مراکز قائم کرنا شروع کردئیے، اور تسلسل کے ساتھ پاکستان کے اندرونی معاملات سمیت سرحدوں پر کشیدگی کو بڑھانا شروع کردیا ، جس کی قیمت پاکستان کو بہر حال کئی قیمتی جانوں کی صورت میں چکانا پڑی ۔ ایسے وقت میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ء کرنے کے لئے بھارت نے اپنے ہمنوائوں کے ساتھ مل کر پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگاناشروع کردیا ، پاکستان جو کہ پہلے ہی سے کئی سنگین چیلنجز سے پنجہ آزماتھا، اس نئے وار سے عالمی سطح پر ایک نئے محاذ پر آکھڑا ہوا۔ ایسے وقتوں میں بھارتی واویلے کومغربی ممالک نے بھی ہو ا دی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں مغربی ممالک ، امریکہ اور بھارت کے مفادات ایک ہی نوعیت کے تھے۔یوں بھارت نے لگڑبھگوں کے طریقے کے تحت وار کرنے کے لئے جُھنڈ کا سہارا لیتے ہوئے پاکستان کو ہر سمت سے گھیرنا شروع کردیا، جس کا ایک اور سنگین مرحلہ ایران کے رستے اپنے جاسوسی نیٹ ورک کو پاکستان کے سب سے شورش زدہ صوبے میں داخل کرنا تھا۔لیکن کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ آنے والے وقت میں بازی پلٹ جائے گی پھر یوں ہُوا کہ اس جُھنڈکے مرکزی مہرے پر افغانستان کے خاموش پہاڑوں میں جوابی وار ہونا شروع ہوگئے۔ بھارت جس ستون کے سہارے خطے میں اپنا قلعہ مضبوط کرنا چاہتا تھا اس ستون میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں اور رواں سال تک قطر کی مذاکراتی میز پر اس ستون کا خمیازہ مکمل طور پر بکھر چکا تھا۔افغانستان میں ہزیمت اٹھانے کے بعد امریکہ کی ترجیحات بدل گئیں اور یوں اس کی چھتری بھی گول ہوگئی جس کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کو ہوا۔بدلتی صورتحال میں بھارت کا کردار گائوں کی شادی میںمیراثی کے کردار جتنا بھی نہیں رہا۔اب آتے ہیں لداخ کی طرف ،چین ، بھارت اور پاکستان کے سنگم پر واقع اس خطے کی اہمیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے جبکہ چین کو گرم پانیوں تک رسائی دینے کے لئے جو رستہ زیرِ تکمیل ہے وہ بھی اس خطے سے اہم مطابقت رکھتا ہے۔ پاکستان نے سی۔پیک جیسے گیم چینچر منصوبے کو چین کی شہ رگ بنادیا ہے اور اب پاکستان اور چین کے مفادات لازم و ملزوم ہیں ،تاریخ کے اس موڑ پر پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کا آغاز پاکستان کی ترقی کا آغاز ہے ، کیونکہ اس سے ایک طرف پاکستان کی زراعت کو جو ترقی ملنے جارہی ہے وہ انتہائی حوصلہ افزاء ہے۔دوسری طرف بھارت کی آبی جارحیت کو روکنے کے لئے پاکستان کے پاس یہ ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔تیسری طرف ملک میں پانی کی قلت کا خاتمہ ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سی ۔پیک کی سڑک پاکستان کو عالمی منڈی میں آگے لے جانے کا انتہائی کارآمد رستہ ہے، جوکہ نہ صرف پاکستان کی معاشی صورت کو بدلنے کا آغاز ہے بلکہ پاکستان کے دفاع میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی رستہ پر اپنی جانبداری قائم کرنے کے لئے بھارت نے لداخ میں انگڑائی لی تو چین نے بھارت کو ایسی رامائن سنائی جس نے بھارت کی نیندیں اُڑا دی ہیں اور اب چین اپنی مکمل عسکری قوت کے ساتھ لداخ کے ماتھے پر جا بیٹھا ہے جو کہ چین اور پاکستان دونوں کے دفاع کے لئے از حد ضروری ہے۔ جواب میں بھارت کے ممیانے کی آوازوں پر نیپال جیسا ملک بھی ہنس رہا ہے۔ دوسری طرف نیپال کے سرحدی تنازعے پر چین نے نیپال پر اپنی چھتری تان دی ہے جس سے دہلی سرکا ر کو آئے دن کڑوے گھونٹ پینا پڑ رہے ہیں۔ پاکستان نے کشمیر ایشو کو دنیا کے سامنے انسانی بنیادوںپر اٹھاکر عالمی اداروں کی توجہ بھی حاصل کرلی ہے اور مغربی اخبارات کی رپورٹس کے مطابق مودی سرکار انتہا پسندی کا جو کھیل کشمیر میں کھیل رہی ہے اس کا خمیازہ بھارت کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔یہ تمام کی تمام باتیںایک طرف رکھ کر افغان جنگجوئوں کا بھارت کے فسادی ایجنڈے کو بے نقاب کرنا نہلے پہ دھلے کے مترادف ہے۔جبکہ ترکی نے بھی بھارت میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر اپنا منصفانہ موقف پیش کیا ہے جس کی وجہ سے بھارت کی سراسیمگی میں اضافہ ہوا ہے ۔بھارت اب نہ تو افغانستان میں محفوظ ہے اور نہ ہی کابل انتظامیہ کے لئے کوئی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ جبکہ خود بھارت کا اپنا وجود بھی تین اطراف سے کشیدہ سرحدوں کے حصار میں ہے اور پھر کشمیر کی وادی میں مقامی نوجوانوں نے آزادی کے لئے ایک بار پھر سربکف ہو کر نعرہ ئے آزادی بلند کرنا شروع کردیا ہے۔ بھارت کے دفاعی ماہرین آج کل گنگا جل میں اپنے پاپوں کا اشنان کر رہے ہیں جبکہ بھارتی میڈیا پاکستان سے آئے کسی کبوتر کے پنچرے کے گرد گھوم رہا ہے۔ سنا ہے کہ وہاں پاکستان سے آئے کبوتر بھی باعثِ خوف و ہراس ہیں۔ بھارتی سپوت نہ تو لداخ میں اپنا آپ دکھا سکے اورنہ کشمیر میں جبکہ پاکستانی چائے کا خوف ابھی تک بھارتی وائی سینا کے افسران کی نیند خراب کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستانی سرحدوں میںگھسنے والا بھارتی جاسوس ڈرون اب کسی میوزیم کی زینت بننے جارہا ہے۔ بھارت کی مسلسل ذلت آمیز صورتحال پر وہاں کے کئی ایک نامور دفاعی ماہرین سوگ میں اپنی ایک طرف کی مونچھ کٹوا بیٹھے ہیں ، ان حالات کے پیشِ نظر آنے والے وقتوں میں بھارت میںحجام کی دکانوں پر رش دیکھنے کو ملے گا۔کسی سیانے نے کہا ہے کہ انسان اپنے دشمن کی چالوں سے اتنا نقصان نہیںاٹھاتا جتنا وہ اپنی غلطیوں سے اٹھاتا ہے۔مودی جسیے شدت پسند اور انتہا پسند کا بھارتی وزارت عظمی کے منصب پر براجمان ہونا بھارت کی سب سے بڑی بدبختی ہے۔لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ عالمی برادری بھارت کا فاشسٹ ایجنڈے کو مکمل طور پر دیکھ چکی ہے۔اب بھارت کا وجود صرف ایک آخری غلطی پر موقوف ہے۔