آسیب کا اثر ہے یا کسی کی بددعا
پاکستان میں فروری کے اختتام پر کرونا کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے۔ کرونا کے حوالے سے مسلسل دو آراء چل رہی ہیں۔ ایک یہ کہ کرونا واقعی ہے اور دوسری یہ کہ کرونا بالکل بکواس چیز ہے اور اس کا کوئی وجود نہیں۔ پاکستان میں پہلے بتایا گیا کہ ایک آدمی متاثر ہوا ہے پھر دو، پھر چار، اسکے بعد تعداد نارمل انداز میں بڑھنے لگی۔ جونہی اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، امریکہ، انگلینڈ، دیگر ممالک اور اداروں کی طرف سے کرونا کے حوالے سے امدادیں آنی شروع ہوئیں تو پاکستان میں یکا یک دو، تین مریضوں سے تعداد یک لخت 72,000ہوگئی جبکہ صرف 4 ماہ میں مرنے والوں کی تعداد 1600 ہوگئی۔ ہر روز یکایک اتنے زیادہ لوگوں کے مرنے کی خبریں آنے لگیں۔ سبھی نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ کیا کسی نے کرونا کا مریض دیکھا ہے یا کسی نے کرونا سے مرے ہوئے آدمی کی لاش دیکھی ہے لیکن سبھی نے بتایا کہ انہوں نے سنی سنائی خبر سنائی ہے۔ کسی نے کرونا کا مریض یا کرونا شدہ لاش نہیں دیکھی مگر ہر روز اخبارات اور چینلز پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ کرونا کے آج 50متاثرین ہلاک ہوگئے، آج 60افراد کرونا سے لقمہ اجل ہوگئے، آج 80آدمی کرونا سے مر گئے۔ البتہ کچھ لوگوں نے شدید احتجاج کیا ہے اور سوشل میڈیا پر خبریں اور تصاویر بھی شیئر کی ہیں کہ انکے رشتہ دار ہارٹ کے مریض تھے یا انہیں اپنڈکس کا درد تھا یا انہیں گردے میں تکلیف تھی لیکن جب انہیں ہسپتال لے جایا گیا تو ان مریضوں کو کرونا وارڈ میں منتقل کر دیا گیا جہاں ان کا علاج نہیں کیا گیا اور دو چار دن بعد حیرت انگیز طور پر یہ مریض مر گئے یا مار دیئے گئے جبکہ انہیں کرونا نہیں تھا۔سنا ہے کہ مراد علی شاہ کے بہنوئی کوبھی کرونا نہیں تھا، وہ طبعی موت مرے تھے لیکن انہیں کرونا ڈکلیئر کیا گیا۔ اسی طرح چند دوسرے افراد جن کی اموات کسی اور وجہ سے واقع ہوئی تھیں، ان پر کرونا کا لیبل چسپاں کر دیا گیا۔ حیرت ہے کہ اسد قیصر، عمران اسماعیل، سعید غنی اور اسی طرح کئی حکومتی عہدیداروں کے متعلق بتایا گیا کہ انہیں بھی کرونا ہے اور ان کا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے لیکن دیکھا گیا کہ سعید غنی اور عمران اسماعیل سمیت تمام حکومتی عہدیدار بدستور میڈیا پر آتے رہے، انکی سرگرمیاں جاری رہیں اور محض دو تین دن قرنطینہ کرنے کے بعد وہ بھلے چنگے بلکہ ہٹے کٹے ہوگئے۔ ایک طرف یہ دکھایا جا رہا ہے کہ جو مریض کرونا کا شکار ہوتا ہے، وہ چند دن میں مر جاتا ہے جبکہ دوسری طرف یہ حکومتی عہدیدار ہیں جو بیانات بھی دے رہے ہیں، ٹاک شوز میں حصہ بھی لے رہے ہیں، کھا پی بھی رہے ہیں اور گھوم پھر بھی رہے ہیں۔ یہ کیسا کرونا ہے کہ عام آدمی کو لگتا ہے تو وہ مارے آسیب کے مر جاتا ہے لیکن کسی حکومتی عہدیدار کو ہوتا ہے تو جادو سے ٹل جاتا ہے۔ حیرت تو ان نجومیوں، اماموں، عاملوں، پیروں فقیروں پر بھی ہے جو ہر ہفتے دو ہفتے بعد خبریں لگواتے تھے کہ حکومت سال کے اختتام پر گر جائیگی، فلاں لیڈر برسراقتدار آئیگا۔ ملک کی معاشی ترقی معدوم ہو جائے گی، فلاں کو دوام اور فلاں کو موت آئیگی۔ اب وہ نجومی کیوں نہیں بتاتے کہ کرونا کی وباء کب ٹلے گی۔ کوئی پیر یا پیرنی سال کے آغاز میں اپنے علم اور روحانیت سے بتا سکے کہ 2020ء ایک منحوس سال ثابت ہوگا۔ اس سال کرونا کی وباء پھوٹے گی اور لوگ گھروں میں محصور ہو جائینگے۔ کسی عالم، جوتشی، پیر یا پیرنی نے اپنے جادو ٹونے سے کرونا کو قابو کیوں نہیں کیا۔ اس وباء پر منتر کیوں نہیں پڑھا۔ شادیاں کرانے اور رشتے تڑوانے والے پیر فقیر، سنیاسی بابے اور مائیاں کہاں کافور ہوگئے جو اپنے تعویذ گنڈوں سے دشمن کو قدموں میں گرا دیتے تھے اور من پسند محبوب کو نکاح کے جال میں پھنسا لیتے تھے۔ دنیا ان کی کرامات دیکھنے سے تاحال محروم ہے۔ جادو اور ٹوٹکے دکھانے والے سارے منظر سے چھومنتر ہوگئے ہیں۔ جوں جوں غیرملکی امدادیں آرہی ہیں، توں توں کرونا کے مریض بڑھتے جا رہے ہیں۔ پورے پاکستان پر ہیبت طاری ہے۔ ہر شخص کو خوف کے جال میں جکڑ دیا ہے، جس بیماری کا علاج منہ ڈھانپنا، ہاتھ دھونا اور گرم پانی سے غرارے کرنا یا زیادہ سے زیادہ ڈسپرین استعمال کرنا ہے، حکومتی اہلکاروں نے اسے ڈرامائی رنگ دے رکھا ہے۔معزز جج کے استفسار پر حکومتی کی طرف سے جواب دیا گیا کہ ایک مریض پر 25لاکھ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ اگر کوئی کرونا کا مریض مر جاتا ہے تو اسے کرین سے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ یعنی ایک عام اور غریب آدمی بھی اپنے عزیز کے کفن دفن پر 15سے 25ہزار روپے خرچ کرتا ہے لیکن حکومت کی طرف سے تدفینی عمل پر صرف ایک ہزار خرچ آتا ہے اور حکومت کہتی ہے کہ 25لاکھ روپے خرچ کرتی ہے۔ اب تک 16 ممالک اور اداروں سے حکومت پاکستان کو اربوں ڈالر کی امدادیں مل چکی ہیں۔ مختلف چینلز اربوں روپے اکٹھا کرکے دے چکے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی اربوں روپے امداد کیلئے بھیج چکے ہیں۔ مخیر حضرات دل کھول کر کئی ارب روپے دے چکے ہیں۔ ہر ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں سے ایک کھرب سے زیادہ رقم کی کٹوتیاں کی گئی ہیں اگر تمام رقوم اکٹھی کی جائیں تو ساری رقم 50 کھرب سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ گزشتہ 4 ماہ سے تمام پاکستانی گھروں میں قید ہیں، نہ کوئی ترقیاتی کام ہو رہے ہیں نہ دفاتر چل رہے ہیں اور نہ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں اور دیگر ادارے کام کر رہے ہیں۔ نہ بجلی، پانی، گیس، پٹرول یا تیل استعمال ہو رہا ہے البتہ تمام بل اور ٹیکس باقاعدگی سے وصول کئے جا رہے ہیں۔ کیا اس ساری رقم کا آڈٹ نہیں ہوتا؟ کیا عوام پوچھنے کی مجاز نہیں کہ ان کی دی ہوئی رقوم کہاں استعمال ہو رہی ہیں؟