منگل ‘10 ؍ شوال ‘ 1441 ھ‘ 2؍ جون 2020ء
پاکستان ٹڈیوں کو دہشت گرد بنا کر بھارت بھیج رہا ہے: بھارتی نیوز اینکر
بھارتی حکمران و سیاستدان پاکستان پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو جگ ہنسائی کا سبب بنتی ہیں اور ان پر سوار ’’انجانے خوف‘‘ کا بھی پتہ دیتی ہیں۔ بھارت کبھی کہتا ہے کہ پاکستان جاسوسی کیلئے کبوتر بھیجتا ہے، کبھی بھارتی فوجی دراندازی کا الزام لگاتے ہیں۔ خیر! بھارتی حکمران، سیاستدان یا فوجی افسر تو خوفزدہ تھے ہی اب بھارتی نیوز اینکر بھی ’’آہ و زاریاں‘‘ کرنے لگے ہیں۔
ایک ٹی وی شو میں نیوز اینکر ارناب گوسوامی نے مضحکہ خیز الزام لگایا کہ پاکستان ٹڈیوں کو دہشت گرد بنا کر بھارت بھیج رہا ہے۔ اب بھارتی نیوز اینکر اپنے اور اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور فوجی افسروں کے اعصاب کی مضبوطی کا خود ہی اندازہ لگا لیں، وہ قوم کو کیا حوصلہ دے سکیں گے کہ ایک معمولی کیڑے مکوڑے کے خوفزدہ ہیں تو ’’ابھی نندن‘‘ پر تو کسی بھارتی حکمران فوجی افسر، سیاستدان یا نیوز اینکر کو گلہ‘ شکوہ نہیں کرنا چاہئے۔
لگتا ہے کہ ’’ابھی نندن‘‘ کا انجام دیکھ کر اور اس کی تائو دی ہوئی مونچھیں نیچی ہو جانے پر ہی بھارتی نیوز اینکر نے ٹڈیوں والا معاملہ اٹھایا ہوگا کیونکہ ’’سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔‘‘ عین ممکن ہے ٹڈی ان کو خواب میں پاک فضائیہ کا ایف 16ہی بن کر ہی ڈراتی ہو۔ اب بھی مصنوعی ’’اکڑفوں‘‘ کی بجائے بھارت کو اپنے نیوز اینکر کے خوف پر توجہ دینی چاہئے۔ گو ارناب سوامی نے خود ہی اپنی اصلیت دکھا دی اور کہا کہ پہلے ’’کیا پدی کیا پدی کا شوربہ‘‘ کہتے تھے۔ اب اس سے بھی ابتر چیز آگئی ہے اور وہ ہے ’’ٹڈی‘‘۔ ویسے اگر ارناب گوسوامی اپنی تاریخ کا مطالعہ کرلیں تو پتہ چل جائے گا کہ ٹڈیوں سے ڈرنا اس کیلئے نیا نہیں بلکہ یہ ’’انجانا خوف‘‘ اس کو ورثہ میں ملا ہے کیونکہ
لالہ جی جنگ کھیڈ نئیں ہندی زنانیاں دی
٭…٭…٭
خیبرپختونخوا میں پولیس کے جوانوں کو ’’شیرو‘‘ کے نام سے پکارنے کا سرکاری حکم نامہ جاری
سرکاری حکم نامہ میں مزید ہدایات دی گئی ہیں کہ دفاتر، فیلڈ اور مورچوں میں ڈیوٹی دینے والے پولیس جوانوں کو ’’پہلوان‘‘ اور ’’ماماجی‘‘ وغیرہ کہہ کر نہ پکارا جائے بلکہ یا تو ان کے اصل نام سے یا پھر ’’شیرو‘‘ کہہ کر پکارا جائے۔ اب پتہ نہیں شہری بھی پولیس اہلکاروں کو ’’شیرو‘‘ کہہ کر پکار سکیں گے یا یہ ’’خصوصی نام‘‘ صرف پولیس اہلکار و افسر ہی لے سکیں گے۔
لگتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے کسی اعلیٰ حکومتی، سیاسی عہدیدار یا پولیس افسر کو ’’شیرو‘‘ سے خاص پیار ہے۔ زمانہ قدیم میں کسی عرب سردار سے کسی نے بچوں کے نام اسد، کلب وغیرہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہاکہ ہم ایسے نام اس لئے رکھتے ہیں کہ دشمن پر خوف اور رعب طاری رہے۔ اب پتہ نہیں خیبرپختونخوا پولیس میں ’’شیرو‘‘ کی وجہ تسمیہ کیا ہے، جرائم پیشہ عناصر کو خوفزدہ کرنا مقصود ہے یا ’’شیرو‘‘ کہہ کر پکارنا ’’عوامی دوستی‘‘ کا تاثر دینے کیلئے ہے۔ بہرحال یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ’’شیرو‘‘ کیا رنگ دکھاتا ہے، عوام دوستی کا دم بھرتا ہے یا مجرموں پر چڑھ دوڑتا ہے۔
٭…٭…٭
طالبان قیادت کرونا کا شکار ہوگئی، غیرملکی جریدہ کا پروپیگنڈا، ترجمان کی تردید
ایک بڑا زبان زدعام ’’لطیفہ‘‘ ہے کہ ایک لڑکا اپنی ماں سے پوچھتا ہے کہ اگر ’’پنڈ دا چودھری مر جائے تو پھر چودھری کون بنے گا‘‘ تو بیٹے کی نفسیات سے واقف ماں نے جواب دیا کہ ’’پتر تیری واری کدی نئیں آئونی۔‘‘ اب اگر (اللہ نہ کرے) طالبان قیادت کرونا کا شکار ہو بھی جائے تو پھربھی ’’ان‘‘ کی باری تو نہیں آئے گی، ویسے بھی کئی ملکوں کی قیادتیں، وزیر اور مشیر کرونا کاشکار ہوئے اور پھر صحت یاب بھی۔ اب ’’فارن پالیسی میگزین‘‘ کو پتہ نہیں اتنی فکر کیوں لاحق ہے کہ اس نے طالبان لیڈروں، ملاہیبت اور سراج حقانی کے کرونا وائرس کا شکار ہونے کی خبر دے دی حالانکہ افغانستان امن معاہدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام عالمی طاقتیں طالبان قیادت کے ساتھ نہ صرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں بلکہ ان کی صحت و تندرستی اور ’’عمر خضر‘‘ کیلئے بھی خواہشمند ہیں تو ایسی صورتحال میں کرونا کا شوشہ چھوڑنا محض کسی ’’چلے ہوئے کارتوس‘‘ کی شرارت ہی ہوسکتی ہے۔ تاہم طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اسے مغربی پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔ اس وقت تو پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں بسنے والا ہر شخص افغانستان کو ’’کرونا‘‘ سے پاک دیکھنا چاہتا ہے، اس لئے ایسے پروپیگنڈا پر تو مرزا غالب کی زبان میں یونہی کہا جاسکتا ہے کہ …؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
٭…٭…٭
پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوٹل میں کرنا پیسے کا ضیاع ہے، 2کروڑ روپے خرچ ہونگے: فواد چودھری
عید کے چاند پر ’’کامیابی‘‘ کے بعد فواد چودھری کے بارے میں رائے عامہ کافی حد تک تبدیل ہوگئی ہے۔ پہلے پہل تو لوگوں نے یہی سمجھا تھا کہ فواد چودھری ’’جٹ جھپا‘‘ لگاتے ہیں۔ ’’لگ گیا تو تیر، نہ لگا تو تکا۔‘‘ لیکن عیدکے چاند کے بعد کا فواد چودھری تو کافی ’’سیانا‘ سیانا‘‘ لگتا ہے، اسی لئے اب انہوں نے ایک اور مفید مشورہ بھی دیا ہے کہ کرونا کے باعث پارلیمنٹ کا ورچوئل سیشن بلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوٹل میں کرنے پر دو کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ فواد چودھری نے مفادعامہ کی بات کی ہے، اس پر پنجاب اسمبلی کے کسٹوڈین چودھری پرویز الٰہی سمیت تمام ’’سٹیک ہولڈرز‘‘ کو غور کرنا چاہئے اور ایسی اچھی تجاویز کو فواد چودھری کی ’’روایتی چھیڑچھاڑ‘‘ سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حکمت و دانش اور بھلائی کی بات جہاں سے بھی ملے، عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
٭…٭…٭