اضطراب و انتشار کی یہ صورتحال منتخب جمہوری نظام کیلئے بھی کوئی نیک شگون نہیں
حکومت کا نئے پٹرولیم بم کی صورت میں عوام کو عید کا تحفہ اور منتخب ایوانوں میں اٹھتے ہوئے حکومت مخالف جذبات
حکومت نے عیدالفطر سے چار روز قبل پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرکے مہنگائی کے مارے عوام پر پٹرول بم برسا کر انہیں عید کا تحفہ دے دیا۔ اس سلسلہ میں اوگرا کی سمری پر جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے تحت پٹرولیم مصنوعات کے نئے نرخ 31 مئی کی رات 12 بجے سے نافذالعمل ہوگئے جو اس ماہ 30 جون تک برقرار رہیں گے۔ نئے نرخوں کے تحت پٹرول کی قیمت میں چار روپے 26 پیسے‘ ڈیزل کی قیمت میں چار روپے پچاس پیسے‘ مٹی کے تیل کی قیمت میں ایک روپیہ 69 پیسے اور ایل اوڈی کی قیمت میں ایک روپیہ 68 پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ اب پٹرول کی نئی قیمت 112.68 روپے‘ ڈیزل کی 126.82 روپے‘ مٹی کے تیل کی قیمت 98.46 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 88.62 روپے مقرر ہوئی ہے۔ ایف بی آر کے مطابق پٹرول اور ڈیزل پر سیلز ٹیکس کی شرح 13 فیصد اور مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل پر جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد کردی گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کو مسترد کرتے ہوئے اسے عوام دشمنی کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس سلسلہ میں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ جب سے پی ٹی آئی حکومت عوام پر مسلط ہے‘ اسکی جانب سے روز بری خبر مل رہی ہے۔ انکے بقول ملک کو گروی رکھنے پر روز عوام کو آئی ایم ایف کی جانب سے مہنگائی کا تحفہ ملے گا۔ پٹرولیم نرخوں میں اضافہ وزیراعظم کی ایڈوانس عیدی کی قسط ہے‘ عوام گھبرائیں نہیں‘ ابھی آئی ایم ایف کا بجٹ آنا باقی ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کی ترجمان نفیسہ شاہ نے اپنے ردعمل میں پٹرولیم نرخوں میں اضافہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پٹرولیم نرخوں میں اضافہ رات کی تاریکی میں ڈاکہ ہے۔ انکے بقول عوام کا خون نچوڑ کر حکومت چلائی جارہی ہے۔ عوام کی عید کی خوشیوں پر شب خون مارا گیا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ جب سعودی عرب سے ادھار تیل مل رہا ہے تو عوام کو ریلیف کیوں نہیں ملتا۔
یہ امر واقع ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے اقتدار کے آغاز سے اب تک روٹی روزگار اور غربت‘ مہنگائی کے مسائل میں دھنسے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے مسلسل مایوسیوں کی جانب دھکیلا ہے۔ اگرچہ اس کا جواز خود وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومتی ٹیم کی جانب سے سابقہ حکمرانوں پر کرپشن اور قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کے الزامات کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے جس کیلئے نیب پر مزید متحرک ہونے کیلئے زور دیا جاتا ہے اور کسی چور‘ ڈاکو کو نہ چھوڑنے کا خود بھی تواتر کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے مگر عوام کو آج صرف اپنے روزمرہ کے گوناںگوں مسائل کے حل سے سروکار ہے۔ اگر کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کے تردد میں عوام کو غربت‘ مہنگائی کے مسائل میں ریلیف دینے کے عملی اقدامات بھی اٹھالئے گئے ہوتے تو ان کا اعتماد پی ٹی آئی کی حکومت و قیادت کے ساتھ مزید مضبوط ہوجاتا اور وہ سابقہ حکمرانوں پر احتساب کا شکنجہ کسے جانے پر نہ صرف حکومت کیلئے رطب اللسان نظر آتے بلکہ اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کیلئے راستہ ہموار کرنے سے بھی گریز کرتے مگر پی ٹی آئی حکومت کا ہر دن عوام پر بھاری گزرا ہے جنہوں نے تبدیلی‘ نئے پاکستان اور ریاست مدینہ والے نعروں سے مرعوب ہوکر پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے مستقبل کی بے شمار امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے نہ صرف انکی امیدیں پوری نہیں کیں بلکہ عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرکے اور پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ بجلی‘ گیس اور ادویات کے نرخ بھی آسمان تک پہنچا کر ان سے زندہ رہنے کی سکت بھی چھین لی۔ عوام نے پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں اسکی پالیسیوں کے باعث مہنگائی بڑھنے پر اس خوش فہمی میں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا کہ حکومت اپنی اصلاحاتی اقتصادی پالیسیوں کے تحت جلد اقتصادی مسائل پر قابو پا کر انہیں ریلیف دینے کے اقدامات اٹھانا شروع کر دیگی مگر حکومت نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دس ماہ میں چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے خاطرخواہ بیل آئوٹ پیکیجز لینے کے باوجود عوام کو ریلیف کی کوئی جھلک نہ دکھائی اور اسکے برعکس آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے قرض کے حصول کا معاہدہ کرتے ہوئے اسکی تمام ناروا شرائط بھی من و عن قبول کرلیں جن کی بنیاد پر ٹیکس نیٹ بڑھانے کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس اور دوسری اشیاء کے نرخوں میں بتدریج اضافہ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ آئی ایم ایف کو تو یقیناً اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ اسکی شرائط پر عملدرآمد سے عوام کی روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل بڑھنے پر کتنی چیخیں نکلیں گی اور ان کا تنفس کے ساتھ رشتہ برقرار رکھنا بھی ممکن ہو پائے گا یا نہیں۔ اسے تو بہرصورت اپنے ادا کئے گئے قرض کی سود سمیت وصولی سے ہی سروکار ہوتا ہے۔ یہ تو حکومت کے اپنے سوچنے کا مقام ہے کہ وہ عوام کو غربت کی مار مارنے والی آئی ایم ایف کی شرائط کیوں قبول کرتی ہے اور دوست ممالک سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کے باوجود حکومت نے آئی ایم ایف سے بھی رجوع کرنا کیوں اپنی مجبوری بنایا ہے۔
اس تناظر میں عوام کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھنا بھی فطری امر ہے کہ سعودی عرب سے تین سال کیلئے ادھار تیل لینے کے باوجود حکومت ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے پر ہی کیوں مجبور ہو رہی ہے جبکہ عوام میں اب پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کے باعث بڑھنے والی مہنگائی کو برداشت کرنے کی بھی ہمت نہیں رہی۔ جب حکومت کی جانب سے عوام کو طفل تسلی دینے سے بھی گریز کیا جائے اور عوامی مسائل کی جانب آنکھیں بند کرکے مہنگائی بڑھانے کا سلسلہ برقرار رکھا جائیگا تو عوام کا اس پر مضطرب ہو کر سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا بھی فطری امر ہوگا۔ آج اسی تناظر میں عوام حکومت کیخلاف طوفان اٹھانے کا ادھار کھائے بیٹھے نظر آتے ہیں جس کا راستہ انہیں حکومت نے خود ہی مہنگائی کو شتربے مہار بنا کر دکھایا ہے۔ یہی وہ فضا ہے جو نیب کے اقدامات سے زچ ہوئی اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک کیلئے منظم ہونے کا موقع فراہم کرنے کا باعث بنی ہے جس نے عوام کے اضطراب کو بھانپ کر اپنی صف بندی کی جبکہ عید کے بعد اس تحریک کے توانا ہونے کے لوازمات خود حکومت عوام کو مہنگائی کی مار‘ مار کر فراہم کررہی ہے۔
اس سلسلہ میں حکومت کی جانب سے جس انداز میں آنکھیں بند کرکے اقدامات اٹھائے اور محاذ کھولے جارہے ہیں اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو عوامی اضطراب کا باعث بننے والے اپنے اقدامات کے اپنے اقتدار کیلئے ممکنہ نقصانات کا بھی کوئی احساس نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کو ممکنہ نقصانات کی کوئی پرواہ نظر آتی ہے۔ جب حکومت مخالف تحریک کیلئے سازگار ہوتی فضا میں اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کو اپنے قائدین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اکٹھا ہونے پر آنسو گیس‘ لاٹھی چارج اور واٹر کینن کی زد میں لایا جائیگا اور پھر بیٹھے بٹھائے سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کیخلاف ریفرنس دائر کرکے حکومت مخالف ماحول مزید سرگرمایا جائیگا تو اس کا نتیجہ وہی برآمد ہوگا جو گزشتہ روز سینٹ میں سپریم کورٹ کے متعلقہ فاضل ججوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے مسلم لیگ (ن) کے رہنماء راجہ ظفرالحق کی پیش کردہ قرارداد کی منظوری کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ اس سے حکومت کی محض سبکی ہی نہیں ہوئی بلکہ یہ منتخب ایوانوں میں اسکی عددی اکثریت کا پانسہ پلٹنے کی خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ اگر آج سینٹ میں سرکاری بنچوں کو اپوزیشن بنچوں کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی ہے تو کل کو حکومت کیلئے ایسی فضا قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی استوار ہو سکتی ہے جس کیلئے اخترمینگل اور ایم کیو ایم پاکستان جیسے حکومتی اتحادیوں کے بدلتے ہوئے تیور بھی حکومت کیلئے لمحۂ فکریہ ہونے چاہئیں۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں مہنگائی‘ اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کیخلاف حکومتی اقدامات اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کیخلاف دائر ریفرنسوں پر بحث کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان جس طرح باہم گتھم گتھا ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ دھکم پیل کرتے ہوئے نعرے بازی کی وہ آئندہ چند دنوں میںحکومت کو درپیش آنیوالے چیلنجوں کی واضح عکاسی کرتے ہیں کیونکہ اس وقت ججوں کے ایشو پر وکلاء تنظیمیں بھی ملک گیر سطح پر صف بندی کرتی اور ایک نئی عدلیہ بحالی تحریک کا عندیہ دیتی نظر آرہی ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت مخالف حلقوں کی جانب سے اس امر کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ایک جرنیلی آمر ایسی عوامی تحریک کے آگے نہیں ٹھہر سکا تھا تو سول منتخب حکومت کے قدم اس نوعیت کی تحریک کے آگے کیسے جم پائیں گے جبکہ اسے منتخب ایوانوں میں محض چند ووٹوں کی عددی اکثریت حاصل ہے۔
اگر حکومت کو خود بھی اس حقیقت کا ادراک ہو تو اسے خود پر عوامی اعتماد برقرار رکھنے کی خاطر انہیں زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے اقدامات اٹھانے چاہئیں نہ کہ انہیں زندہ درگور کرنے کی پالیسیوں پر ہی کاربند رہا جائے۔ ابھی حکومت کو آنیوالے بجٹ کا چیلنج بھی درپیش ہے جس سے عوام نے اپنے لئے بڑے ریلیف کی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ اگر یہ بجٹ بھی عوام کیلئے مایوسیوں کا اہتمام کرتا نظر آیا تو یہ صورتحال اپوزیشن کیلئے اپنی حکومت مخالف تحریک کو مہمیز دینے کا نادر موقع فراہم کریگی۔ فی الواقت تو ایسے کوئی آثار نہیں نظر نہیں آتے کہ حکومت بجٹ میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور سبسڈی کی شکل میں عوام کو دیئے جانیوالے ریلیف کو ختم کرنے سے گریز کریگی۔ حکومت نے مختلف مدات میں سبسڈی پہلے ہی ختم کر دی ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط پر نئے ٹیکسوں اور مختلف اشیاء کے نرخوں میں اضافہ کی بھی بھرمار کردی ہے۔ اگر یہ سلسلہ بجٹ میں بھی برقرار رہا تو آنیوالے دنوں میں حکومت کو لامحالہ سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑیگا جو بذات خود اس سسٹم کیلئے بھی کوئی نیک شگون نہیں۔