اتوار ‘ 27 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 2؍ جون 2019ء
ورلڈکپ میں پاکستان کا مایوس کن آغاز ویسٹ انڈیز نے 7وکٹوں سے ہرا دیا
یہ تو وہی ’’اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‘‘ والی بات ہوئی۔ مگر گھبرایئے نہیں ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ اور ابھی سے پوری قوم قومی کرکٹ ٹیم سے پے درپے مسلسل فتوحات کی آس لگائے بیٹھ گئی تھی۔ یہ تو غلط بات ہے ہم ہمیشہ غلط توقعات باندھ لیتے ہیں جو پوری نہ ہوں تو غصہ میں آ جاتے ہیں۔ ہمیں مثبت پہلوئوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اب ہارے تو کیا ہوا ورلڈکپ کی تاریخ کو دوسرا سب سے کم ریکارڈ بنانے کا اعزاز تو ہم نے حاصل کر لیا ناں۔ ایسی بری شروعات جسے دیکھ کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں وہ ہر ٹیم کی قسمت میں کہاں ’’ یہ رتبۂ بلند ملا جسکو مل گیا‘‘
کالی آندھی نے ہمارے شاہینوں کو ایسے گرفت میں لیا کہ وہ اپنی اڑان ہی بھول گئے۔ ہمارے ایک دیرینہ قاری میجر (ر) نذیر فاروق تو شاہینوں کی اس بدنامی پر سخت دل گرفتہ ہیں اور کہتے ہیں کہ اب اصل شاہین کہیں اپنے نام کی ایسی بے عزتی پر پاکستان چھوڑنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ کیونکہ وہ خاصہ غیرت مند پرندہ ہے۔ اب جو گزر گئی اسکا ماتم کیا کرنا ۔ بس آگے دیکھو آگے۔ 3 جون کا سفید طوفان یعنی انگلینڈ کے ساتھ مقابلہ ہے۔ اوئے ظالم کا بچہ اب ان کے ساتھ کیا ہوئے گا۔ سوچو ذرا سوچو۔ اس سفید طوفان سے کون ٹکرائے گا۔ یہ کم بخت کہیں ہمارے شاہینوں کے بال وپر کے ساتھ ساتھ انکے پنجے اور چونچ بھی نہ نوچ لے۔ اب بھی ہماری ٹیم …؎
اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
کو حزر جاں بنا لے تو بات بن سکتی ہے۔
٭…٭…٭
ہمارے چڑیا گھروں کا عالمی معیار کے مطابق نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے جسٹس اطہر من اللہ
عدالت نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ چڑیا گھر والوں کو مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر ان سے جانوروں کی دیکھ بھال نہیں ہوتی تو وہ انہیں کسی پناہ گاہ میں منتقل کر دیں اب معلوم نہیں ہمارے ملک میںجنگلی جانوروں کی پناہ گاہ کہاں ہے۔ یہاں تو انسانوں کو پناہ نہیں ملتی۔ آج کل جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں اسلام آباد میں موجود ہاتھی کی تنہائی کا کیس چل رہا ہے جو عرصہ دراز سے اکیلا ہے اور اداس و پریشان رہتا ہے۔ مگر سفید ہاتھی بن کر چڑیا گھروں کو لوٹنے والی انتظامیہ کو بھلا اتنی فرصت کہاں کہ وہ اس پریشان حال تنہا ہاتھی پر غور کرے۔ صرف چڑیا گھر کا کیا رونا ہمارے ہاں کوئی بھی چیز عالمی معیار کی ہے کہاں۔ ہر جگہ دو نمبری کا راج ہے۔اس سے پہلے کہ عدالت کوئی سخت حکم دے۔ اسلام آباد چڑیا گھر کی انتظامیہ فوری طور پر اس ہاتھی کے لئے کوئی اچھا ساتھی تلاش کرے تا کہ اسکی تنہائی دور ہو اور دونوں خوش و خرم اٹکھیلیاں کرتے نظر آئیں اس طرح سیر کرنے والوں کو بھی مسرت ہو گی۔ اگر واقعی ہمارے چڑیا گھر عالمی معیار کے مطابق ہو جائیں تو وہ لوگ جو ابھی وہاں کے تعفن کی وجہ سے سیر کرنے نہیں جاتے۔ جوق در جوق چڑیا گھر کی سیر کرنے پہنچ جائیں گے اور جنگل کے باسیوں کو اپنے شہروں میں جیتے جاگتے ہنستے مسکراتے دیکھ کر خود بھی خوش ہوں گے۔
٭…٭…٭
ماہ رمضان کی گرانی برقرار‘ عید کی خریداری ماند پڑ گئی
جب ماہ رمضان میں مہنگائی کا شیطان کسی کے قابو نہیں آیا تو عید کی خریداری کے دوران اسے کون نظر بند کر سکتا ہے۔ ان ایام میں تو وہ کھل کر اپنا کھیل کھیلتا ہے اور غریب معصوم روزے داروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے۔ جو بے چارے پہلے ہی مقدس ماہ رمضان میں گراں فروشوں کے ہاتھ لٹتے رہے۔ اب عید خریداری کے نام پر دکانداروں تاجروں کے ہاتھوں ایک بار پھر لٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بخشش کی طاق راتوں میں بھی یہ گراں فروش مافیا مہنگے داموں چیزیں بیچنے سے باز نہیں آیا۔ الٹا اور زیادہ دام بڑھا دیئے۔ کیا ایسے لوگوں کو ذرا بھی خوف خدا نہیں رہا۔جس حکومت کا کام ڈنڈے کے زور پر خوف خدا بیدار کرنا تھا۔ وہ تو شاید خود خوف خدا سے ڈر کر ان ناجائز منافع خوروں کے آگے بھیگی بلی بنی ہوئی ہے کیونکہ بڑے بڑے تمام تاجر سرمایہ دار ملز مالکان حکمرانوں کے پہلو میں آرام فرما رہے ہیں۔ حکومت کی ذرا سی بھی سختی سے وہ ڈسٹرب ہو سکتے ہیں۔ اسلئے حکومت ان کے آرام میں خلل ڈالنے سے قاصر ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں ، فوڈ اتھارٹی، چھاپہ مار ٹیمیں، ضلعی انتظامیہ نجانے یہ سب کہاں رہ گئی ہیں۔ کوئی بھی غریبوں کو ان لٹیروں سے بچانے کے لئے سامنے نہیں آتا یہ شاید…؎
میرے تعویز الٹے پڑ گئے ہیں
وہ مجھ سے اور نالاں ہو گیا ہے
والی کیفیت ہے۔ بس تعویز کی جگہ ’’ووٹ‘‘ پڑھا جائے۔
٭…٭…٭
برطانوی سکول میں ایشیائی بچے نسلی بدسلوکی سے بچنے کے لئے میک اپ پر مجبور۔
صرف نسلی بنیاد پر سانولے رنگ روپ والے بچے یورپ میں نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کیا یہ بھی دہشت گردی کی ہی ایک قسم نہیں۔ اسی یورپ میں تمام مسلمانوں کو ایک چھوٹی مسلم تنظیم کی متشدد سوچ کی وجہ سے دہشت گرد کہہ کر ہراساں کیا جاتا ہے۔ تو کیا پورے مغربی معاشرے میں پھیلی اس نفرت انگیز سوچ کو دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا۔ برطانیہ میںسکول کے بچے ایشیائی بچوں کو میلی جلد والا کہہ کے ان سے دور رہتے ہیں۔ انہیں واپس اپنے ملک جانے کا کہتے ہیں۔ جسکی وجہ سے یہ سکول کے بچے میک اپ کر کے گورا نظر آنے کی کوشش پر مجبور ہیں۔ اس طرح انہیں کم از کم منفی ریمارکس سننے سے نجات ملتی ہے۔ یہ وہی یورپ ہے جہاں لاکھوں لوگ سمندر کنارے یا پارکوں میں اپنا رنگ گورے سے سانولا کرنے کے لئے برہنگی کی حالت میں سن باتھ لیتے نظر آتے ہیں مگر ایک سانولے بچے کو برداشت نہیں کرتے۔ یہ عجیب دوغلی پالیسی ہے کہ جو چیز اپنے لئے انہیں پسند ہے وہ دوسروں کے لئے پسند نہیں کرتے۔