پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے روزمرہ استعمال کی تمام اشیاء مہنگی ہو گئی ہیں۔ متوسط طبقہ حد درجہ تک پریشان ہے۔ سفیدپویشی کا بھرم رکھنا ممکن ہو چکا ہے۔ ہر غریب آدمی مجبور ہے، آئے روز مہنگائی میں اضافے نے غریب لوگوں کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ نرخ تبدیل ہو رہے ہیں، ایک ماہ میں پیٹرول اور ڈیزل 84 روپے لیٹر مہنگا کرکے شہریوں کو نہ زندہ رہنے کے قابل چھوڑا اور نہ مرنے کے قابل۔ ہر آنے والی حکومت سابق حکمرانوں کو موجودہ بحران کا ذمہ دار قرار دیکر اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دیتی ہے۔ اگر تم سے حکومت نہیں ہو سکتی تھی تو کیا ضرورت تھی عوام کی بددعائیں لینے کی۔ بجلی کے بل، گیس کے بل، گھر کی ضروریات آٹا، چینی، گھی، آئل، دالیں اور سبزیاں بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں۔ آٹے کے ریٹ ہر روز بدلے ہوتے ہیں۔ آئل 550 روپے کلو تک پہنچ چکا ہے۔ آٹا 85 روپے کلو ہو چکا ہے۔ ایک آدمی کے گھر سات یا آٹھ افراد ہوں اور وہ بے روزگار ہو یا محدود حد تک مزدوری کرتا بھی ہو تب بھی اُس کے لئے گھر کا خرچہ چلانا ناممکن ہو چکا ہے۔جو سبزیاں 20 یا 30 روپے کلو فروخت ہوا کرتی تھیں اب 80 روپے تا 100 روپے کلو فروخت ہو رہی ہیں۔ ٹینڈا جو مارکیٹ میں سب سے کم قیمت میں ملتا تھا اب 80 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ دالوں کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، چنے کی دال اور مونگ کی دال کسی حد تک متوسط آدمی کے بس میں تھیں اب 200 روپے تا 250 روپے کلو میں فروخت ہو رہی ہیں۔ چینی کے نرخ 80 روپے تا 100 روپے ہو چکے ہیں، آئل 550 روپے تا 600 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ اِس کے علاوہ زندگی کی استعمال کی ہر چیز انتہا درجے تک مہنگی ہو گئی ہیں۔ عام آدمی کیلئے ایک کمرہ بنانا ناممکن ہو چکا ہے، سیمنٹ اور سریا، ریت، بجری اور دیگر عمارتی سامان 500 فیصد مہنگا ہو چکا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے کی وجہ سے سامان کی ترسیل کے نرخ بہت بڑھ چکے ہیں۔ جو گاڑی پہلے 5000 روپے کرایہ لیتی تھی اب 8000 تا 9000 روپے کرایہ لے رہی ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے عام آدمی کی پہنچ سے بہت بڑھ چکے ہیں۔ بھارہ کہو تا فیض آباد کا کرایہ گزشتہ 10 سالومں سے 20 روپے تھا اب 70 روپے ہو گیا ہے۔ راولپنڈی تا مری کرایہ 120 روپے تا 130 روپے ہوتا تھا اب 250 تا 280 روپے ہو چکا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ حکومت کا قیمتوں پر کنٹرول نہیں ہے۔ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ پرائس کنٹرول اتھارٹی کا وجود ہی نہیں ہے۔ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر حکومتوں کے وزیروں مشیروں کے پروٹوکول میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں انہیں صارفین کی پرواہ ہی نہیں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک یہاں عوام کے ساتھ ہمدردی رکھنے والی حکومت نہیں آئی۔ عوام کا خون نچوڑ کر کرپشن کی جاتی ہے، وزیروں مشیروں کی فوج ظفرموج سارا پیسہ کھا جاتی ہے ۔ عوام ہر دور میں صرف نعرے مارنے کے لئے ہیں، سہولیات امیروں اور وڈیروں کیلئے ہیں۔ انہیں کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ اللہ پاک انہیں توفیق دے کہ یہ عوام کے خیرخواہ بنیں۔