’’اتنا نازک ہے مرے شہر کے حاکم کا مزاج‘‘
اتنا نازک ہے مرے شہر کے حاکم کا مزاج
سچ ذرا زور سے بولوں تو بدک جاتا ھے
کسی ملک میں ایک شخص کو اسکی انتھک محنت اور ایمانداری کی وجہ سے بہت مقبولیت حاصل ہوگئی ، وہ فلاحی کاموں میں بھی حصہ لیتا اور ساتھ ہی سیاست میں بھی دلچسپی تھی اس کے قریبی ساتھیوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا مشورہ دیا تاکہ صحیح طور پر عوامی نمائندگی اور خدمت کرسکے اسطرح وہ انتخابات میں کامیاب ہوگیا اپنی ذہانت کے بل بوتے پر جلد ہی مختارکل کا منظور نظر ٹھہرا اور اسے وزیر چن لیا گیا تاکہ وہ مختار کل سے رموز مملکت سیکھ سکے، ایک دن وزیر صاحب کا گزر اپنے حلقے کے ایک ایسے علاقے سے ہوا جہاں کے لوگ تالاب سے گندہ پانی لیکر پیتے تھے وزیر صاحب نے کہا کہ عوام الناس کی سہولت کیلئے اگر یہاں پر ایک گھڑا رکھہ دیا جائے تو کیا اچھا نہ رہے گا؟ غریب عوام سہولت کے ساتھ صاف پانی پی سکیں گے وزیر صاحب کی بات سن کر وزیر کے مشیر اور ماتحتوں نے فوری ایکشن لیا اور گھڑے کو اولڈ فیشن اور متروک آئٹم قرار دے کر تالاب کے کنارے *فلٹریشن پلانٹ خریدنے اور لگانے کا ٹینڈر دے دیا ٹینڈر فوراّ پاس بھی کردیا گیا اسکے بعد ایک اہلکار نے مشورہ دیا کہ یہ فلٹریشن پلانٹ عوامی دولت سے خرید کر وزیر صاحب کے حکم پر یہاں نصب کیا جا رہا ہے ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کا بندوبست بھی کیا جائے اور ایک سیکورٹی گارڈ کو بھی حفاظت کے لئے مقرر کیا جائے۔
سیکورٹی گارڈ کی بھرتی کا حکم ملنے پر یہ قباحت بھی سامنے آ گئی کہ فلٹریشن پلانٹ چلانے اور بند کرنے کیلئے بھی کسی آپریٹر کا ہونا ضروری ہے لہذا ایک آپریٹر بھی بھرتی کر لیا گیا ایک اور دانا بینا نے کہا کہ پلانٹ کی مرمت اور دیکھ بھال کیلئے ایک الیکٹریشن اور مستری بھی ہونا چاہیے پھر یہ سوچا گیا کہ کہ کوئی ایک کبھی بیمار یا کسی اور وجہ سے چھٹی پر بھی جا سکتا ہے ہے اس لئے ایک نہیں دو تعیناتیاں ہونی چاہیں تاکہ بلا تعطل کام چلتا رہے۔ایک اور محنتی اہلکار نے رائے دی کہ فلٹریشن پلانٹ تالاب سے کچھ فاصلے پر لگنا چاہیے تاکہ تالاب کا متعفن ماحول فلٹریشن پلانٹ کی افادیت پر اثر انداز نہ ہو اس کام کیلئے واٹر سپلائی پائپ لائن کا ٹینڈر بھی ایشو کر دیا گیا اور زور و شور سے کام شروع کر دیا گیا پھر وزیر صاحب کی عوام دوستی کے کام کے چرچے کیلئے میڈیا سیل بھی بنا دیا گیا ، ایک اور دور اندیش اہلکار نے مشورہ دیا کہ اتنے لوگوں کو رکھ کر کام کو منظم طریقے سے چلانے کیلئے ان سب اہلکاروں کا حساب کتاب اور تنخواہوں کا نظام چلانے کیلئے آڈٹ اکاؤنٹ اور ایڈمنسٹریشن کا ڈیپارٹمنٹ بھی بنانا ہوگا انکی بھی بھرتی کر کے انکی بھی تعیناتی کر دی گئی
ایک اور ذو فہم و فراست اہلکار نے مشورہ دیا کہ یہ سسٹم اس صورت میں ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ہر کام اچھے طریقے پر چل رہا ہو اسلئے ان سارے ملازمین سے بہتر طریقے سے کام لینے کیلئے ملازمین کے اوپر ایک ہیڈ تعینات کیا جائے تاکہ سارا کام بلاتعطل چلتا رہے اس لئے میری رائے میں خلاف ورزی کرنے والوں اور اختلاف کرنے والوں کی تفتیش کے لیے ایک قانونی امور کا لیگل سیل بی قائم کیا جانا چاہیے، ان سارے محکموں کی انشا ء اللہ کے بعد ایک صاحب کا یہ مشورہ آیا کہ اس سارے انتظام پر کوئی جنرل مینیجر بھی مقرر ہونا چاہیئے اس کیلئے مضبوط ایڈمنسٹریٹر کے طور پر تقرری بھی ہو گئی۔ایک سال کے بعد حلقے کے دورے کے دوران وزیر صاحب کا اس مقام سے گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ تالاب کے کنارے کئی کنال رقبے پر ایک عظیم الشان عمارت کا قیام وجود میں آ چکا ہے جس پر لگی ہوئی روشنیاں دور سے ہی نظر آ رہی ہیں اور عمارت کا دبدبہ آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے عمارت کی پیشانی پر نمایاں کر کے "وزارت انتظامی امور برائے صاف پانی" کا بورڈ لگا ہوا تھا"وزیر صاحب اپنے مشیر کے ساتھ اندر داخل ہوا تو وہاں ایک علیحدہ ہی جہاں منتظر پایا عمارت میں بہت سے ائیرکنڈیشن کمرے، میٹنگ روم اور دفاتر قائم تھے ایک بڑے سے دفتر میں آرام کرسی پر عظیم الشان چوبی میز کے پیچھے سرمئی بالوں والا ایک پر وقار معزز شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے سامنے تختی پر اس کے القابات الحاج میاں فلاں بن فلان ڈائریکٹر جنرل برائے معاملات صاف پانی" لکھا ہوا تھا۔وزیر صاحب نے حیرت کے ساتھ اپنے مشیر سے اس رونق میلے کا سبب پوچھا اور عجیب و غریب محکمہ کے بارے میں پوچھا جس کا اس نے اپنی زندگی میں کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔وزیر کے مشیر نے جواب دیا: جناب والا، یہ سب کچھ آپ ہی کے حکم پر ہی تو ہوا ہے جو آپ نے پچھلے سال عوام الناس کی فلاح اور آسانی کیلئے یہاں پر ایک گھڑا رکھنے کرنے کا کہا تھا اسی کام کو ہی بہترین انداز میں انجام دیا گیا ہے۔وزیر مزید حیرت کے ساتھ باہر نکل کر اس گھڑے کو دیکھنے گیا تو معلوم ہوا کہ عوام کو بہتر صاف پانی کی فراہمی اور عوامی سہولت کے پیش نظر جو فلٹریشن پلانٹ لگا تا وہ زنگ آلود ناکارہ حالت میں بیبسی کی تصویر بنا بند پڑا تھا اور وہ گھڑا جس کا اس نے کہا تھا ٹوٹی ہوئی حالت میں نظر آ رہا تھا جو کہ وزیر کے ایک پرستار نے وزیر کی خواہش کے پیش نظر رکھ دیا تھا۔وزیر نے دیکھا کہ لوگ اب بھی پہلے کی طرح ڈائریکٹ تالاب سے ہی پانی پی رہے ہیں اور سامنے ایک بہت بڑا بورڈ لگا ہوا تھا:
"فلٹریشن پلانٹ کی مرمت اور بحالی کیلئے اپنے عطیات جمع کرائیں۔ منجانب: وزارت انتظامی امور برائے صاف پانی"ہمارے ہاں بھی بہت سے سرکاری محکمے اسی طرز پر انتہائی ڈھٹائی سے منظم انداز میں چل رہے ہیں یہاں بھی یہی فارمولہ کارفرما ھے کہ اپنے قریبی عزیز و اقارب کو نوازا جاتا ھے ہر کام کی فراہمی کے کار خیر کیلئے اپنوں کو اربوں روپے فراہم کیئے جاتے ہیں اور پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد اربوں روپے کا تمام ریکارڈ ببی جل جاتا ھے تاکہ حساب کتاب میں کوئی پریشانی نہ ہو، پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی پولیٹیکل پولرائزیشن اب عدم برداشت کی صورت اختیار کرتی جارہی ھے اب یہ سیاسی پارٹیز کے علاوہ ہمارے گھروں تک آپہنچی ھے سیاسی تفریق اب عام عوام کے دلوں میں بھی تفریق لانے لگی ھے جبکہ سیاست بنیادی طور پر لوگوں کے روزمرہ مسائل حل کرنے اور انہیں قریب لانے کا نام ھے ، آپس میں گفتگو کا معیار بھی اس قدر گر چکا ھے کہ باہمی احترام نام کی کوئی شہ باقی نہی رہی ایسے ایسے سنجیدہ اور پڑھے لکھے احباب کی زبان بگڑتی دیکھائی پڑتی ھے کہ خدا کی پناہ سوشل میڈیا پر لوگ پسند ناپسند کے چکر میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں بلکہ بعض چینل تو تھیٹر لگتے ہیں جہاں اینکر صاحبان خود جج بن جاتے ہیں اور پولیٹیشنز ایک دوسرے کے کیڑے نکالتے ہیں اوپرسے سوشل میڈیا تو بلکل ہی شتر بے مہار ھے جہاں کوئی سنسر نہی جو جی میں آئے کرو جسکی چاھے پگڑی اچھال دو ۔کیا یہ مناسب ھے کہ لوگ آپس میں اس بات سے بدظن ہوں جس سے براہ راست انکا کوئی تعلق واسطہ ہی نہ ہو ؟ ساری دنیا میں امیروں کے ٹیکس سے غریب عوام پلتے ہیں اور پاکستان واحد ملک ھے جہاں غریبوں کے ٹیکس سے امیر پالے جاتے ہیں، موجودہ حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ھے کہ سارے خزانے پر عوام نے لوٹ کھسوٹ کرکے ہاتھ صاف کئے ہیں جو اتنی زیادہ ذہنی و جسمانی اذیت دی جارھی ھے-