’’حضور کا اقبال بلند ہو‘‘

کہتے ہیں مسابقت اگر تعمیری ہو تو معاشرہ تعمیری افکار میں نمو پاتا ہے جو کہ افراد کے کردار میں مضبوطی اور پا ئیداری پروان چڑھانے میں بنیادی اور اہم کردار ادا کرتی ہے اور اگر یہی مقابلہ بازی الٹ یعنی تخریبی ہو تو سمجھ لیں کہ معاشرہ تباہی اور بربادی کے دھانے پر آکھڑا ہے اور پھر انفرادیت سے اجتماعیت تک ذلت اور رسوائی اخلاقی اقدار کا انحطاط ماسوائے انسانی پستی کے کچھ نہیں دے پاتا اپنے اصل مدعا کی طرف آنے سے قبل ماضی بعید کے مغلیہ سلطنت کے حکومتی ایوانوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جہا ں بادشاہ سلامت کی دربار میں آمد کے وقت جب تک منادی اور درباریوں کو آگاہ کرنے والا تعریف و توصیف کی لمبی چوڑی تمہیدیں نا باندھ لیتا تب تک بادشاہ سلامت وزراء اور امراء سے بھرے دربار ہال میں قدم نہ دھرتے اور ان تمام پر تصنع آداب سلطانی و شہنشاہی میں ایک جملہ ہر فرد مخاطب کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنا مدعا بیان کرنے سے پہلے بادشاہ سلامت کے لئے اد ا کرتا اور وہ جملہ ہوتا تھا ’’حضور کا اقبال بلند ہو‘‘ آج برصغیر پاک و ہند سے بادشاہت کے نظام کو رخصت ہوئے قریب دو صدیاں ہونے کو ہیں دو سو سال کا عرصہ کم نہیںہوتا اس میں بہت کچھ بدل جاتا ہے مگر بڑے کہتے ہیں کہ خطے کا پانی،رنگ اور نسل اپنا اثر رکھتے ہیں عرصہ چاہے کتنا ہی کیوں نہ گذر جائے اور یہی وجہ ہے کہ آج کے حکمرانوں میں بھی اپنی تعریف و توصیف کے اس شاہانہ طرز عمل کا رنگ بدرجہ اتم موجود ہے یہ بات الگ ہے کہ ا س میں جدت آ چکی ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے جہاں ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کر رکھا ہے وہا ں سیاست کا شعبہ بھی اس سہولت سے بھر پور مستفید ہو رہا ہے ۔اب آپ کو مداح سرابھرتی کرنے کی ضرورت نہیں ۔یہ مدح سرائی بھی محض ایک کلک پر دستیاب ہو چکی ہے ۔کروڑوں موبائل یوزر(استعمال کار) اور موبائل اپلیکیشنز نے حکمرانوں اور اہل سیاست کے پیغام کو موثر بنانے میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست گری میں آئی ٹی ٹولزسے مخالفین کے بارے میں روائتی پراپیگنڈہ کی بجائے جدت اور تیزی آچکی ہے اور موثر اتنی کہ جھوٹ میں بھی سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اب گرے، وائٹ اور بلیک پراپیگنڈہ کی تما م اقسام کی جگہ کسی نئی قسم نے لے لی ہے جہاں یک لخت وار کے ذریعہ مخالف کے بیانیہ کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ذائل کر دیا جاتا ہے چاہے وہ سو فیصد حقیقت پر مبنی ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اس گر کو سمجھنے والی سب سے پہلی جماعت پی ٹی آئی ہے جو سوشل میڈیا کے ہتھیار کو بھر پور استعمال کرتے ہوئے بالخصوص پاکستانی نوجوان نسل میں اپنے بیانیہ کو پروان چڑھانے اور انکی حمایت حاصل کرنے میں نمایاں طور پر کامیاب رہی اور پھر دیکھا دیکھی پاکستان کی دیگر جماعتوں نے بھی اپنے سوشل میڈیا سیل تشکیل دینے شروع کر دیئے جب اپنے میڈیا سیل سے بھی ان سیاسی لوگوں کے مقاصد پورے نہ ہوئے تو ان جماعتوں نے سوشل میڈیا انفلوئنشلز کو اپنے نظریہ کو فروغ دینے کے لئے آلہ کارکے طور پر استعمال کرنے کی ٹھانی جس کے تحت بھاری بھرکم فین فالوونگ رکھنے والے یو ٹیو برز،ٹک ٹاکر،فیس بکیئیوں و دیگر کو منتخب کیا جاتا ہے ۔ چند روز قبل تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے اپنے بیانیہ کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستان کے مشہور ترین ’’ ٹک ٹاکرز ‘ کو مدعو کیا تا کہ یہ ٹک ٹاکر انکے سیاسی منشور اپنی ٹک ٹاک کے ذریعہ فروغ دے سکیں ٹک ٹاک اپلیکیشن اپنے نا معقول کانٹینٹ (مواد) کی وجہ سے کئی بار بین ہو چکی ہے لیکن پھر اس سے پابندی اٹھا لی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بمشکل تین سے چار فیصد مواد ہی سنجیدہ،با معنی اور با مقصد ہوتا ہے جبکہ پچانویں فیصد غیر معیاری اور روائتی اقدار کی گرواٹ سے لبریز وآلودہ ہوتاہے۔ ویسے تو معاشرے کا ہر فرد ہی قوم کے لئے اہم ہوتا ہے لیکن اقوام میں رائے کی تشکیل کے لئے ترقی یافتہ قومیں ہمیشہ سکول آف تھاٹ اور سکالرز کا سہارا لیتی ہے مگر ان ٹک ٹاکر ز میں کوئی بھی اعلی تعلیم یافتہ بندہ تو دور کی بات عام تعلیم یافتہ بھی نہیں تھااور نہ جن کو تعلیم کی سدھ بدھ ،نہ معیشت کا پتہ نہ ملکی خارجہ و داخلی معاملات کا علم اور نہ ہی مستقبل کے چیلنجوں کی خبر البتہ اس وفد میںکوئی مستری کوئی موٹر مکینک کوئی جنرل سٹور چلانے والا کوئی رقاصہ تو کوئی عام سا اداکار شامل تھے۔ کیا اس سطح کے لوگ اب سیاسی جماعتوں کے نظریات کے محاٖفظ بنیں گے؟ کیا یہ بتائیں گے کہ سچا اور اصل سیاسی بیانیہ کیا ہوتا ہے؟ سیاسی جماعتیں اتنی کمزور کیوں ہو چکی ہیں کہ کار کردگی یا اپنے طاقتور منشور کی بنا پر شہریوں کے دل میں گھر کرنے کی بجائے ان عارضی اور ناپائیدار سہاروں پر انحصار کریں گی یا پھر اپنے مخالفین پر گند اچھالنے کیلئے ان ٹک ٹاکرز سے کام لیں گی؟ اور ٹک ٹاکر برگیڈ بھرتی کریں گی؟ کیا اب پاکستانی سیاست کی جنگ ٹک ٹاکرز کے بل بوتے پر لڑی جائے گی ؟ابھی اور بھی بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب سیاست دان کبھی بھی دینا نہیں چاہیں گے البتہ یہ بات طے ہے کہ اپنا حقیقی اقبال بلند کرنے کیلئے سیاسی جماعت چاہے کوئی بھی ہو یا حکومت کوئی بھی ہو اسے عوامی بھلائی کیلئے مصنو عی بیساکھیوں کا سہار ا لینے کی روش ترک کرنا ہو گی ۔