بھارتی ریشہ دوائیاں ،کشمیر اور پاکستان
تارہ ترین خبر یہ ہے پی ٹی وی پر کشمیر کا ادھورا نقشہ دکھایا گیا ہے یہ ہے ہماری کشمیر کی آزادی کی تحریک کا حال …حکومت پاکستان تمام کا اداروں پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی کسی قسم کا نہ کنٹرول ہے اور نہ ہی نظر۔ بھارت نے حقیقت میں کبھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور جب بھی ممکن ہوا پاکستا ن کو ہر طرح کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی چاہے سیاسی معاملات ہو یا معاشی پا پھر بین الاقوامی امور اور اندرونی مداخلت حتیٰ کہ دھشت گردی اور پاکستان دشمنی کو مستقل ایجنڈا کے طور پر سازشی نیٹ ورک ,,را ،، نے ایران میں کلبوشن یادیو جیسے نیول افسر کو یوں چاہ بہار میں رہ کر پاکستان میں خاص کر بلوچستان اور کراچی میں سازشی جال قائم کر کے دھشت گردی کرتا رہا یہ تو تازہ مثال ہے اس سے قبل بھی تاریخ گھناؤنی ہے بھارتی کوششوں کی ۔کلبوشن کو سزائے موت ہو چکی اور ہم نے ابھی تک اس کو اپنی ہمیشہ کی طرح مصلحتوں پر مبنی پالیسوں کی وجہ سے آرام و سکون سے رکھا ہوا ہے ۔ان کے اہل خانہ سے ملاقات بھی کرا دی آخر کونسا مسئلہ ہے کہ اس کے خلاف سزا پر عمل درآمد نہ ہو ۔بھارت تو بمبئی ہوٹل کا واقعہ ہو یا کشمیر میں مظالم جب بھی کسی مسلمان حریت پسند کو راہ سے ہٹانا تو مقدمات کے جلد از جلد فیصلے کروا کر تختہ دار پر لٹوا دیتا ہے حتیٰ کہ ان کو جیل کے اندر ہی دفن کر دیا جاتا ہے اور ورثا کو لاشیں تک نہیں جاتی ۔ہم نے ماضی میںبھارت کو Most Fanite Nationتجارت کے حوالہ سے درجہ دیا اور پھر جو ہوا اب تک قوم کے سامنے ہے آخر ایسی کونسی فیورتھی جس کی وجہ سے ایسا کیا گیا کیا دوسرے ممالک سے سامان درآمد نہیں کیا جا سکتا ۔نہ کل اور نہ آج یہ باہمی تجارت پاکستان کے حق میں نہیں رہی ۔تازہ ترین اعداد و شمار میں پچھلے ایک سال میں پاکستان نے 6-1/2ارب ڈالر کے قریب سامان درآمد کیا بھارت سے اور تقربیاً1-1/2ارب ڈالر برآمد ہوا۔ذرا غورکریں ہمارے سابقہ اور موجودہ لیڈروں کا کمال ان کے بیانات ،بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام عورتوں کی بے حرمتی چند سالوں میں 12ہزار کے قریب اور شہادتیں ایک لاکھ کے قریب 2/3دھائی میں ۔بچوں پر مظالم کی داستان انتہائی اندؤھناک عمران حکومت ،اپوزیشن رسمی بیانات پر قناعت کیے ہوئے ہیں البتہ آجکل ہم چین بھارت نیپال بھوٹان اور بنگلہ دیش کا ذکر کر کے بغلیں بجا رہے ہیں ۔جیسے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ !1947سے آج تک ہم امریکہ اسرائیل ،بھارت ،برطانیہ کی ملی بھگت سے پاکستان میں ہر طرح کی سازشوں میں ملوث رہے اور ہماری سول اور ملٹری بیوروکریسی اور سیاسی مہرے اس کا حصہ تھے شمار کر لیا جائے تو ایوب خان سے پرویز مشرف ،غلام محمد سکندرمرزا سے ذوالفقار علی بھٹو مجیب الرحمان ،بے نظیر ،آصف زرداری اور نواز شریف ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں ان سب کی نظر اقتدار اور مادی مفادات کا حصول اور بیرونی آقاؤں کی مرضی کے فیصلوں پر مرکوز رہی ۔یہاں کھبی شعیب اور ایم ایم احمد مسلط ہوئے تو کبھی معین قریشی ،شوکت عزیز اور جناب حفیظ وغیرہ ۔IMFاور ورلڈ بینک اور ہماری بیوروکریسی نے غیر ملکیوں کے ایماء پر پالیساں مرتب کیں اور پاکستانی معیشت وقت کے ساتھ تباہی اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی چلی گئی ۔زیادہ زور صنعتی ترقی پر رہا اور زراعت تباہ ہوتی رہی اور قرضوں نے اس قدر تباہی مچاہی کہ ایوب خان کے دور میں ہر شہری 20ہزار کا مقروض تھا اور اب اندازًایک لاکھ 20ہزار یا کچھ زیادہ ۔یہ بین الاقوامی قرضے ہیں اندرونی قرضے الگ ،تعلیم ،صحت اور روزگار میں وقت گزاری کا شکار رہا ۔ہردور میں ادارے نہتے رہے اعلیٰ دماغوں کے حامل افراد بھاری معاوضوں پر بھرتی ہوئے اور ہیں مگر کارکردگی صفر ۔NDMAجو 2008میں غالباًبنی تھی بڑی گاڑیوں اور اعلیٰ دفتروں پر قائم مگر کوئی تیاری نہ سیلاب نہ زلزلے نہ آگ نہ دیگر آفات جیسے Locustکامعاملہ کئی سالوں سے ہے پھر جب سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں سوال کیا کہ اربوں کہا ں خرچ ہو رہا ہے کرونا وائرس پر تو تسلی بخش جواب نہ ملا ۔دیگر اداروں کا بھی یہی حال ہے وجہ کوئی قومی سطح پر visionرکھنے والا رہنما نہیں ہر ایک یوں محسوس ہوتا ہے وقت گزاری پہ چل رہا ہے کوئی نہیں جانتا اگر ملک کی اقتصادی صورت حال مستحکم نہ ہو تو نہ قومی یک جہتی کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملکی دفاع قابل اعتبار رہتا ہے ۔USSRسے روس بننے کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔اگر تیل ،گیس چند سال پہلے مہنگا نہ ہوتا تو روس بین الاقوامی منگتوں کی فہرست میں شامل ہوتا ہے ۔چین کی مثال ہمارے سامنے ہے انہوں نے کس طرح افیمیوں کو قوم بنا دیا اور آج وہ اپنی منفرد حیثیت کے سبب امریکہ سمیت دنیا پر چھائے ہوئے ہیں ۔سنگا پور جنوبی کوریا ،ملیشیاء تو ہمارے سامنے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا ہوا جو ہم تباہ بھی ہوئے اور رسوا بھی مگر کوئی سبق نہ سیکھا ۔کیا ہمارے ہاں مفاد پرستوں اور غداروں کو ہی پاکستان کو کمزور رکھنے اور عوام کو بھو ک ،ننگ کا شکار رکھنے کوئی روکنے والا نہیں ۔آخر کار کب پردہ داری سے کام چل سکتا ہے ہمیں اس پر حتمی فیصلہ کرنا ہوگا اگر کوئی خوش فہمی کا شکار ہے تو اس کا نتیجہ ہم 1971کی بھارتی یلغار میں بھگت چکے جس میں ہمارے اپنے اور غیر حصہ دار تھے ،ذرا غور کریں !کل ہی بھارت نے 50%سفارتی عملہ واپس بھیج دیا ہم نے بھی جواب میں 50%بھارتی سفارتی عملہ کو جانے کا حکم دے دیا ۔بھارت جس طرح بے گنا ہ کشمیریوں کو قتل کر رہا ہے اور آزاد کشمیر LOCپر بے گناہ شہری مارے جارہے ہیں کسی کو دنیا میں فکر نہیں ۔امریکہ میں افریقی امریکن جارج ۔۔۔کے پولیس کے ہاتھوں قتل پر امریکہ اور دنیا میں مظاہرے ہورہے ہیں اور صدر ٹرمپ کا ناک میں دم آگیا ہے مگر نہ فلسطین اور نہ کشمیر کسی کو نظر آرہا ہے ۔بھارت ،کشمیر دندنا رہے ہیں ۔خیر سے اب تو سعودی عرب اور یو اے ای وغیرہ اسرائیل سے دوستانہ مراسم بڑھانے کی خبریں ہیں اب مڈل ایسٹ تباہ ہو گیا ہے سب کی نظر میںترکی اور اردگان کھٹک رہا ہے شاید 1923ابھی زیر نظر ہے جو پہلی جنگ عظیم کی پابندیاں ختم ہو چکی ترکی پر سے ۔بہرحال نقشہ سامنے ہے اور ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات۔پاکستان اس وقت ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے حکمران اور حزب اختلاف سب اپنے اقتدار اور مفادات کے گرداب سے نکلنے کو تیار نظر نہیں آتے بین الاقوامی پالیسی ساز اور فیصلہ کار اپنے ایجنڈے کے مطابق ہمیں مزید کھوکھلا کرنے کے درپہ ہیں سیاسی معاشی سماجی اور دیگر حوالوں سے ۔شاید ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔بھارت کو امریکی اور اسرائیل معاونت حاصل ہے اسلحہ بارود اور اقتصادی حوالوں سے وہ ہمیشہ انتہائی چالاکی اور عقل مندی سے بین الاقوامی حمایت اور مدد لیتا رہا ۔1947سے اب تک ہم نے بغداد پیکٹ RCD-Seato-Nito Allianceوغیرہ میں نقصان ہی کیا اگر کسی کی جیب میں چند ڈالر چلے گے تو پاکستان نقصان ہی میں رہا ۔اب بھی ہم کرونا میں مشکلات کا شکار ہوتے ہوئے ایک C-130سامان سے بھرا امریکہ کو دے آئے آخر سبب کیا ہے ؟رہی سہی کسر نکال دی ہم نے Strategicنقصان اٹھائے ۔لداخ میں چین نے بھارت کو روک دیا اور LACپر قائم رکھنے کا پیغام دیا جو بھارت Violateکر رہا تھا ۔بہرحال ابھی تک معاملہ متنازعہ ہی ہے مگر بھارت کو چین کے خلاف امریکہ اسرائیل اور دیگراں کی حمایت حاصل ہے یہ شروع سے تھی 1962،میں نیفیہ محاذ پر بھی Support، تھی ایوب خان کو کہا گیا کہ وہ سلامتی کونسل کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کرائیں گے مگر نہ کیا اورہم نے سنہری موقع گنوا دیا کشمیر کو آزاد کرانے کا ۔ہماری کمزور پالیساں اور بعض جگہ بزدلی لیڈر شپ کی اور اقتدار پرستی آڑے آئی اور شاید اب بھی وہی مسئلہ مسائل ہیں فیصلہ سازی میں ۔تین چار پہلوؤں ہیں اگر ایسا ہے تو پھر کشمیری مرتے رہیں گے اور ہم بیان جاری کرتے رہیں گے ۔پاکستان کا بلیک لسٹ ہونے کا اندیشہ کشمیریوں کی مدد پر یا پھر امریکی دباؤ جو ہمیشہ رہا فیصلہ سازی میں حکومتیں بنانے اور توڑنے میں ۔سلامتی کونسل اور UNOسے توقع رکھنا وہاں کوئی نہ کوئی Vetoکرسکتا ہے یا رخنہ ڈال سکتا ہے ۔بین الاقوامی تجارت میں نقصان ہوجائے گا ۔IMFعالمی بینک کا دباؤ اور defaultکا اندیشہ وغیرہ ۔اگر یہ سب مدنظر رہا کہ ہم بھوکے مر جائیں گے اور دنیا میں تنہا ہو جائیں گے تو مسلم ممالک اور عربوں کا حال ہمارے سامنے ہے ۔OICکیا ہے سب کو معلوم ۔ہمیں اب No or neverکے قائداعظم کے اصول کو اپنانا ہوگا وگرنہ ہماری بے بنیاد آس اور امید نہ تو پاکستان کے لیے سود مند ہوگی اور نہ ہی کشمیر یوں کے لیے ۔پاکستان کو موثر حکمت عملی پر کام کرنا ہوگا اور تازہ ترین بھارتی دھمکیوں ،یلغار کو پہلے کی طرح نظر انداز نہیں کرنا جیسے دریاؤں کو بیچ دیا اور اس نے ڈیم بنا کر مسئلہ کھڑا کیا ہوا ہے اور واٹر کمیشن کا چیرمین غدار کینیڈا بھاگ گیا اور ہم نے کچھ نہ کیا سب سوئے رہے ۔ہماری تاریخ بھی شاید یہی ہے ۔کشمیر کی آزادی کے لیے بیانات اپنی جگہ مگر زمینی حقائق عملی مدد کا تقاضا کرتے ہیں اس سلسلے میں سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے ۔1965کی طرح ذوالفقار علی بھٹو وغیرہ کے مطابق کہ بھارت میں بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا کہیں ایسے ہی راستے کا انتظار نہ کیا جائے اور کشمیر پر جارحانہ رد عمل وقت کا تقاضا ہے اور یہی بھارتی اور مودی سرکار کی ریشہ دوائیوں اور سازشوں اور جبر و تشدد اور دھشت گردی کا حل ،مصلحت کی کوشش بہت ہو چکی عرصہ دراز سے اب شاید مزید دیر کرنے کی گنجائش نہیں ۔صدر ٹرمپ کے الیکشن میں کامیابی کی صورت میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں ۔ان کے لولی پاپ پر مت بھروسہ کریں ۔حکومت وقت All inclusiveپارلیمنٹ کااجلاس بلا کر وزیراعظم خود بھی موجود ہوں سب سے رائے لیں اور حتمی فیصلہ کریں بیشتر اس کے کہ آنے والا کل مزید مشکلات کا سبب بنے ۔تازہ ترین UNOامریکہ نے پاکستان کی طرف سے تین بھارتی ایجنٹ جو تخریب کاری اور
دھشت گردی میں ملوث تھے ان کی پچھلے سال شکایت کی مگر امریکہ نے اس معاملے پر بحث اور فیصلے کی کوشش کو Blockکردیا ہے جبکہ Stateکی پارلیمنٹ کی طرف سے پاکستان کو دھشت گردوں کے حوالے سے مزید کاروائی کے لیے تنبیہ کی ہے ۔یہ ہے حال ہماری پاکستان اور امریکہ کی خیر سگالی کا۔ آزاد کشمیر میں کل کی تقریر جو احساس پروگرام کے تحت ہوئی اس میں کشمیر کے حوالے سے عمران خان کا لہجہ انتہائی کمزور اور مصالحت پسندانہ تھی جبکہ اس وقت بھارت کو جارحانہ انداز میں جواب دینے کی ضرورت ہے عمران خان آپ وزیراعظم ہیں سوچیں؟