جمعرات‘ 10؍ذیقعد 1441 ھ‘ 2؍جولائی 2020ء
قومی اسمبلی میں نوید قمر اور علی زیدی کے درمیان جھڑپ
ویسے تو ہمارے سیاستدان اپنی ہر تقریر میں پارلیمنٹ کے تقدس کی باتیں خوب بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایوان پارلیمنٹ کو مقدس خیال جاتا ہے۔ جہاں تشریف رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ بھی نہایت نفیس شائستہ اور مہذب ہونے کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں وہ ہر قیمت پر اس ایوان کا تقدس بحال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود کبھی کبھی کسی نہ کسی پارلیمنٹ میں چھیڑ چھاڑ بڑھتے بڑھتے دھول دھپے تک جا پہنچتی ہے۔ بات کتھم گتھا ہونے تک جا پہنچتی ہے۔ شکر ہے ابھی تک ہماری پارلیمنٹ میں ایسا گھمسان کارن پڑتے نہیں دیکھا گیا۔ کسی دور میں ارکان پارلیمنٹ کو اٹھا کر باہر پھینکا گیا تھا۔ کبھی سپیکر پر مائیک پھینکا گیا یا چوڑیاں۔ اس سے زیادہ بات آگے نہیں بڑھی۔ شور شرابا یا سپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ بھی چلتا ہے۔ مگر اب جو یہ پارلیمنٹ میں اسکی روایات کو پامال کرتے ہوئے جس طرح باہمی مبارزات کی نئی روایت ڈالی جا رہی ہے وہ کہیں پارلیمانی کارروائی کا باقاعدہ حصہ نہ بن جائے۔ علی زیدی حکمران جماعت کے پہلوان ہیں ان کو جس طرح نوید قمر جو پیپلزپارٹی کے پہلوان ہیں‘ نے کوٹ اتارتے ہوئے دو دو ہاتھ کرنے کا چیلنج کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ تو ارکان قومی اسمبلی نے درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کر ا دیا ورنہ دونوں پہلوان باہمی شیروشکر ہونے والے تھے جس سے ایوان کا ماحول اور زیادہ میٹھا ہو کر تلخ ترین ہو جاتا۔ جب جمہوریت کی ماں یعنی پارلیمنٹ کا یہ حال ہو رہا ہے تو جمہوریت کی نرسریوں میں پرورش پانے والے بچوں کا کیا حال ہو گا جب یہ آگے آئیں گے۔ نوید قمر تو ویسے ٹھنڈے مزاج کے سیاستدان ہیں انہیں اکثر سابقہ دور کے پارلیمانی اجلاسوں میں پارلیمنٹ کی نشست پر آنکھیں بند کئے گہری سوچوں میں ڈوبا دیکھا گیا ہے کوئی بات تو ضرور ہوئی ہو گی کہ وہ اتنا طیش میں آئے۔
٭…٭…٭
تاجروں کی ہارن بجاؤ حکمران جگاؤ تحریک
کیا زبردست آئیڈیا ہے۔ نجانے کس بقراط جدید کے دماغ میں ایسا خیال آیا ہے۔ شاید وہ بھول گیا ہوگا کہ ہمارے حکمران 72 سالوں سے قوم کی چیخ و پکار پر نہیں جاگے تو وہ بھلا گاڑی یا گاڑیوں کے ہارون پر کیا جاگیں گے مگر چلیںکوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ اب دیکھتے ہیں 18 جولائی کو کتنے تاجر وزیراعظم ہائوس کے سامنے پہنچ کر ہارن بجانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ فنڈ یا چندہ دینے والوں کیلئے تو پی ایم ہائوس تک جانا آسان ہے۔ احتجاج کیلئے جانے والوں کو البتہ ناکامی ہوگی۔ ہو سکتا ہے یہ بے چارے تاجر ڈی چوک پر ہی ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھانے میں کامیاب ہوں۔ اس کی نسبت اگر تاجر سارے ملک میں تجارتی مراکز کے باہر کھڑی اپنی عالی شان گاڑیوں کے ہارن بجاتے ہوئے سڑکوں پر احتجاج کرنے کا اعلان کرتے تو بات علیحدہ ہوتی۔ اس طرح ہزاروں دوسرے تماشائی بھی ہارن بجا کر خوش ہوتے اور ہر طرف پاں پاں‘ پیں پیں کا وہ شور برپا ہوتا کہ حکومت نہ سہی‘ خود عوام تنگ آجاتے۔اور پھر تنگ آمد بجنگ آمد ہی ہوتی ہے۔
اب یہ خطرہ بھی ہے کہ کہیں ہارن بجائو حکمران جگائو کی یہ تحریک کہیں اسلام آباد سے نکل کر دوسرے شہروں کا رخ نہ کر لے۔ اس طرح تو وزیراعظم ہائوس کے ساتھ ساتھ وزرائے اعلیٰ ہائوس بھی شور و غل کی زد میں آجا سکتے ہیں۔ عوام تو ویسے ہی تماشا لگا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ وہ بھی اگر تاجروں کے ساتھ مل کر ہارن بجانے لگے تو کیا قیامت کا سماں ہوگا۔ لوگ کانوں میں انگلیاں اور روئی ٹھونستے نظر آئیں گے۔ حکمران جاگیں نہ جاگیں‘ گھروں میں سوئے بچے ضرور جاگ کر اپنی بین بجا بجا کر اس شور شرابہ تحریک میں اپنا حصہ ڈالتے ضرور نظر آئیں گے اور یوں؎
پاویں ہووے لڑائی پاویںہووے جھگڑا
میں تو ڈالوں گی آج ساری رات بھنگڑا
کا منظر جابجا نظر آئے گا۔
٭٭٭٭٭٭
حکومت کا کراچی میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں اور نجی سکیورٹی گارڈز کی مدد بھی کرے
کیا صرف خراج عقیدت سے کسی بھوکے کا پیٹ بھر سکتا ہے پولیس والوں کو تو ان کے محکمے کی طرف سے نقد مالی امداد بھی مل جائے گی بچوں میں سے کسی کو نوکری بھی مل جائے گی۔ گرچہ یہ چیزیں مرنے والوں کا نعم البدل نہیں ہوسکتیں۔ مگر چلیں پسماندگان کیلئے کچھ سہارا تو بن سکتی ہے مگر یہ جو نجی سکیورٹی گارڈ اور شہری شہید ہوئے ہیں ان کا کیا ہوگا۔ ان کے بعد ان کے گھر والوں کا والی وارث کون ہوگا۔ اگر ہمارا ملک اسلامی یا فلاحی ریاست ہوتا تو حکومت ان کی خبرگیری کرتی ان کی بھرپور امداد کرتی مگر ہمارا ملک حکمرانوں ، اشرافیہ، بیوروکریٹس اور مختلف اقسام کے مافیاز کیلئے ویلفیئر سٹیٹ بن چکا ہے۔ یہاں غریبوں عوام کیلئے شاید ہی کچھ بچا ہو ، مراعات یافتہ طبقات تو ان کے ہاتھ سے بچا کھچا نوالہ تک چھیننے کے درپے ہے۔ ان حالات میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ان نجی سکیورٹی گارڈ کیلئے بھی مالی امداد کا اعلان کرے تاکہ ان کے گھر والے ان کے بعد فاقوں کا شکار نہ ہوں۔ یہ نوکری نہایت مجبوری کی حالت میں کی جاتی ہے کیونکہ ان بے چاروں کی تنخواہ بہت کم ہوتی ہے اور یہ ڈیوٹی نہایت سخت صرف واہ واہ کرنے یا خراج عقیدت پیش کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ تو
کسی کی جان جاتی ہے
تمہارا کھیل ہوتا ہے
والا معاملہ نہیں۔ جن لوگوں نے اپنی جان پہ کھیل کر دوسروں کی جان بچائی وہ واقعی ہمارے ہیرو ہیں پوری قوم انہیں سلام کرتی ہے۔ یہ وہ مجاہد ہیں جو اس وقت ڈٹ گئے جب لوگ جانیں بچانے کی فکر کرتے ہیں ۔ان لوگوں کی قربانیوں کی قدر کیجئے کیونکہ
ڈھونڈوں کے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
حکومت ان لوگوں کیلئے امدادی پیکج دے کر اپنی نیک نامی میں اضافہ کرسکتی ہے اس سے حکومتی خزانہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ عوام میں حکومت کی عزت بڑھے گی…