محترمہ شبینہ ریاض شیخ کے عشایئے میں کالم نویس جناب عبدالقادر حسن نے مجھے اپنے قریب کر کے پوچھا … لاہور میں اب کوئی ادیبوں اور شاعروں کا ٹھکانہ باقی بچا یا نہیں؟ ان کا اشارہ ماضی کے ٹھکانوں پاک ٹی ہاؤس اور چائنیز لنچ ہوم کی طرف تھا‘ جہاں ایک زمانے میں ملک کے نامور اہل قلم محفلیں سجایا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شاعروں‘ ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ محبت کرنے والے بھی بہت تھے۔ کتاب کی قدر کی جاتی تھی اور اتنا رش سینماؤں میں نہیں ہوتا تھا جتنا لائبریریوں میں ہوتا تھا۔ تب لوگ اپنے شاعروں اور ادیبوں کو بھی اپنے ’’ہیروز‘‘ سمجھتے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس‘ چائنیز لنچ ہوم جیسے ادبی مراکز میں اہلِ ادب کی ایک جھلک دیکھنے والوں کا ویسے ہی رش ہوتا تھا جیسے شاہ نور یا ایورنیو سٹوڈیو میں فنکاروں کی ایک جھلک دیکھنے والوں کا ہوتا تھا!
مجھے یاد ہے گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانۂ طالب علمی میں ایک روز اردو کے استاد محترم نے اطلاع دی آج اشفاق احمد پاک ٹی ہاؤس میں اپنا افسافہ سنائیں گے۔ یقین فرمایئے یہ خبر بہت سے طالب علموں کے لئے خوشخبری تھی۔ ہم اپنے ملک کے محبوب ادیب کا افسانہ سننے پاک ٹی ہاؤس پہنچے وہاں اتنا رش تھا ان کا افسانہ کیا سنتے بمشکل دیدار ہی کر سکے اتنے میں بھی خوش تھے‘ واپس آ کر کلاس فیلوز‘ دوستوں‘ عزیزوں اور اہلِ محلہ کو فخر سے بتایا آج ہم اشفاق احمد سے مل کر آئے ہیں۔ افسوس آج اشفاق احمد جیسے ادیب رہے نہ وہ ادبی مقامات جہاں ادیبوں اور دانشوروں کی محفلیں سجا کرتی تھیں !
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں مستقبل میں کوئی احمد ندیم قاسمی‘ اشفاق احمد‘ ممتاز مفتی‘ قدرت اللہ شہاب‘ منیر نیازی یا فراز پیدا ہو سکے گا؟ لے دے کر اب ہمارے پاس بانو قدسیہ ہے‘ ظفر اقبال‘ شہزاد احمد یا پھر مختار مسعود … ’’آواز دوست‘‘ ہے۔ بڑے لوگ انعام کے طور پر بھیجے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر چھین لئے جاتے ہیں۔ سو احمد ندیم قاسمی‘ اشفاق احمد اور منیر نیازی جیسے بڑے لوگوں کا ہم سے چھن جانا سزا ہے اور اس طرح کے انعامات بھی آگے ملتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ کاش بانو قدسیہ‘ مختار مسعود‘ ظفر اقبال اور شہزاد احمد کی صورت میں جو چراغ ہمیں روشن دکھائی دیتے ہیں‘ تادیر روشن رہیں کہ ان کے بعد چراغوں میں روشنی تو کیا تیل بھی نہیں بچے گا۔ جس معاشرے میں بے ادبی ہی بے ادبی ہو وہاں جینوئن تخلیق کاروں کا پیدا ہونا معجزے سے کم نہیں ہوتا اور ہم حادثوں سے دوچار لوگوں کی زندگیوں میں معجزے اب بھلا کہاں ہوتے ہیں؟
ادبی تقریبات کو بھی اب جی ترس کر رہ گیا ہے‘ ایک زمانے میں کتنی ہی ادبی تنظیمیں ہوتی تھیں۔ حلقہ ارباب ذوق‘ ہم سخن ساتھی‘ ادب دوست‘ قلم قبیلہ‘ وطن دوست … ایسی کئی تنظیمیں ایسی شاندار تقریبات کا انعقاد کرتیں لوگ کئی روز تک ان کے سحر میں مبتلا رہتے۔ مشاعروں کی بھی اپنی رونقیں ہوا کرتی تھیں۔ اتنے لوگ سٹیج ڈرامہ دیکھنے نہیں آتے تھے جتنے مشاعرہ سننے چلے آتے تھے۔ اب تو مدت ہوئی کوئی مشاعرہ پڑھے یا سنے ہوئے۔ آخری مشاعرہ شاید 9برس قبل منڈی بہاؤالدین میں سنا تھا۔ جس کا اہتمام وہاں کے دانشور اور شاعر ڈپٹی کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ عطا محمد خان نے کیا تھا۔ وہاں حیات احمد خان نام کے ایک مقامی شاعر تھے۔ ان کے بعض اچھے شعروں پر سامعین واہ حیات صاحب‘ واہ حیات صاحب پکارتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے واہیات صاحب‘ واہیات صاحب پکارا جا رہا ہے۔ ’’داددہندگان‘‘ کی اس ’’واہیاتی‘‘ کو ہم کئی روز تک انجوائے کرتے رہے۔
سابقہ گورنر پنجاب جناب خالد مقبول کے یادگار کارناموں میں ایک یہ بھی تھا‘ پاک ٹی ہاؤس جیسے ادبی مقامات اجڑنے کے بعد انہوں نے الحمراء ہال میں ’’ادبی بیٹھک‘‘ قائم کی۔ اس ادبی بیٹھک میں وہ خود بھی ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔ سنا ہے اب یہ ادبی بیٹھک بھی ایسے ویسوں مرکز بن کر رہ گئی ہے۔ سو میرے محترم جناب عبدالقادر حسن کی پریشانی بڑی جائز ہے کہ آج کوئی مقام ایسا نہیں جہاں ملک کے بچے کھچے ادیب شاعر اور دانشور مل بیٹھ کر سوچ و بچار کریں‘ فکر کریں اپنے ملک اور معاشرے کی … اب تو سب کو اپنے اپنے پیٹ کی پڑی ہے اور پیٹ میں جو کچھ پڑا ہے وہ ہضم نہیں ہوتا مگر لالچ ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ جہاں ’’کون بنے گا کروڑ پتی اور ارب پتی‘‘ کا جذبہ کارفرما ہو وہاں کون بنے گا شاعر‘ ادیب یا دانشور؟؟ سو اپنے محترم بزرگ عبدالقادر حسن کی خدمت میں عرض ہے …
آ عندلیب مل کر کریں آہ وزاریاں !
مجھے یاد ہے گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانۂ طالب علمی میں ایک روز اردو کے استاد محترم نے اطلاع دی آج اشفاق احمد پاک ٹی ہاؤس میں اپنا افسافہ سنائیں گے۔ یقین فرمایئے یہ خبر بہت سے طالب علموں کے لئے خوشخبری تھی۔ ہم اپنے ملک کے محبوب ادیب کا افسانہ سننے پاک ٹی ہاؤس پہنچے وہاں اتنا رش تھا ان کا افسانہ کیا سنتے بمشکل دیدار ہی کر سکے اتنے میں بھی خوش تھے‘ واپس آ کر کلاس فیلوز‘ دوستوں‘ عزیزوں اور اہلِ محلہ کو فخر سے بتایا آج ہم اشفاق احمد سے مل کر آئے ہیں۔ افسوس آج اشفاق احمد جیسے ادیب رہے نہ وہ ادبی مقامات جہاں ادیبوں اور دانشوروں کی محفلیں سجا کرتی تھیں !
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں مستقبل میں کوئی احمد ندیم قاسمی‘ اشفاق احمد‘ ممتاز مفتی‘ قدرت اللہ شہاب‘ منیر نیازی یا فراز پیدا ہو سکے گا؟ لے دے کر اب ہمارے پاس بانو قدسیہ ہے‘ ظفر اقبال‘ شہزاد احمد یا پھر مختار مسعود … ’’آواز دوست‘‘ ہے۔ بڑے لوگ انعام کے طور پر بھیجے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر چھین لئے جاتے ہیں۔ سو احمد ندیم قاسمی‘ اشفاق احمد اور منیر نیازی جیسے بڑے لوگوں کا ہم سے چھن جانا سزا ہے اور اس طرح کے انعامات بھی آگے ملتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ کاش بانو قدسیہ‘ مختار مسعود‘ ظفر اقبال اور شہزاد احمد کی صورت میں جو چراغ ہمیں روشن دکھائی دیتے ہیں‘ تادیر روشن رہیں کہ ان کے بعد چراغوں میں روشنی تو کیا تیل بھی نہیں بچے گا۔ جس معاشرے میں بے ادبی ہی بے ادبی ہو وہاں جینوئن تخلیق کاروں کا پیدا ہونا معجزے سے کم نہیں ہوتا اور ہم حادثوں سے دوچار لوگوں کی زندگیوں میں معجزے اب بھلا کہاں ہوتے ہیں؟
ادبی تقریبات کو بھی اب جی ترس کر رہ گیا ہے‘ ایک زمانے میں کتنی ہی ادبی تنظیمیں ہوتی تھیں۔ حلقہ ارباب ذوق‘ ہم سخن ساتھی‘ ادب دوست‘ قلم قبیلہ‘ وطن دوست … ایسی کئی تنظیمیں ایسی شاندار تقریبات کا انعقاد کرتیں لوگ کئی روز تک ان کے سحر میں مبتلا رہتے۔ مشاعروں کی بھی اپنی رونقیں ہوا کرتی تھیں۔ اتنے لوگ سٹیج ڈرامہ دیکھنے نہیں آتے تھے جتنے مشاعرہ سننے چلے آتے تھے۔ اب تو مدت ہوئی کوئی مشاعرہ پڑھے یا سنے ہوئے۔ آخری مشاعرہ شاید 9برس قبل منڈی بہاؤالدین میں سنا تھا۔ جس کا اہتمام وہاں کے دانشور اور شاعر ڈپٹی کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ عطا محمد خان نے کیا تھا۔ وہاں حیات احمد خان نام کے ایک مقامی شاعر تھے۔ ان کے بعض اچھے شعروں پر سامعین واہ حیات صاحب‘ واہ حیات صاحب پکارتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے واہیات صاحب‘ واہیات صاحب پکارا جا رہا ہے۔ ’’داددہندگان‘‘ کی اس ’’واہیاتی‘‘ کو ہم کئی روز تک انجوائے کرتے رہے۔
سابقہ گورنر پنجاب جناب خالد مقبول کے یادگار کارناموں میں ایک یہ بھی تھا‘ پاک ٹی ہاؤس جیسے ادبی مقامات اجڑنے کے بعد انہوں نے الحمراء ہال میں ’’ادبی بیٹھک‘‘ قائم کی۔ اس ادبی بیٹھک میں وہ خود بھی ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔ سنا ہے اب یہ ادبی بیٹھک بھی ایسے ویسوں مرکز بن کر رہ گئی ہے۔ سو میرے محترم جناب عبدالقادر حسن کی پریشانی بڑی جائز ہے کہ آج کوئی مقام ایسا نہیں جہاں ملک کے بچے کھچے ادیب شاعر اور دانشور مل بیٹھ کر سوچ و بچار کریں‘ فکر کریں اپنے ملک اور معاشرے کی … اب تو سب کو اپنے اپنے پیٹ کی پڑی ہے اور پیٹ میں جو کچھ پڑا ہے وہ ہضم نہیں ہوتا مگر لالچ ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ جہاں ’’کون بنے گا کروڑ پتی اور ارب پتی‘‘ کا جذبہ کارفرما ہو وہاں کون بنے گا شاعر‘ ادیب یا دانشور؟؟ سو اپنے محترم بزرگ عبدالقادر حسن کی خدمت میں عرض ہے …
آ عندلیب مل کر کریں آہ وزاریاں !