وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے سال 2025 کے آغاز پردعاؤں اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ نیا سال امن خوشیوں، کامیابیوں اور ترقی کی نئی راہیں دکھائے گا۔ اپنے ایک پیغام میں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سال کے دوران بے شمار چیلنجز کا سامنا کیا لیکن بلوچستان کی ترقی اور امن کیلئے ہماری کوششیں جاری رہیں گی۔2024 میں ہم نے صوبے کی ترقی کے لیے اہم فیصلے کیے اور عوام کی خدمت میں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا ،نیا سال ہمیں ایک موقع فراہم کررہا ہے کہ ہم اپنے عزم اور حوصلے کے ساتھ صوبے کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے مزید محنت کریں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے تمام تر وسائل اور توانائی بروئے کار لائیں گے ،ہمیں اپنی قوم کی یکجہتی، محنت اور قربانیوں پر فخر ہے، ہم سب مل کر بلوچستان کو ایک خوشحال، محفوظ اور ترقی یافتہ صوبہ بنانے کے عزم کے ساتھ نئے سال میں قدم رکھیں گے ،میر سرفراز بگٹی نے دعا کی کہ نیا سال پاکستان اور بلوچستان کے عوام کو خوشیاں، سکون اور ترقی کی منزلیں دے اور وطن عزیز سے دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کا سال ثابت ہو۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے کے وزیر اعلی بلوچستان نے جرات و بہادری کی نئی مثال قائم کی ہے کیونکہ وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے انسداد دہشتگردی فورس کی 17ویں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر بلٹ پروف ڈائس پر خطاب کرنے سے انکار کردیا ، انہوں نے کہاکہ جس دن تمام غازیوں کو بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کر دوں گا اس دن میں بھی بلٹ پروف ڈائس پرجاکر خطاب کروں گاوزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز خان بگٹی نے کہا ہے کہ دہشتگردی کا چیلنج بہت بڑا ہے، دہشتگردی کا سامنا صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ پورے ملک کو درپیش ہے، بلوچستان حکومت دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے بھرپور اقدامات اٹھا رہی ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے جعفرآباد کے علاقے خان گڑھ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، میر سرفراز خان بگٹی مختصر دورے پر جعفرآباد پہنچے جہاں انہوں نے خان گڑھ جمالی میں مسلم لیگ ( ن ) کے رکن قومی اسمبلی میر خان محمد خان جمالی کے بھائی میر اسرار خان جمالی کی وفات پر تعزیت کی اس موقع پر صوبائی وزراء میر سلیم احمد خان کھوسہ ، میر محمد صادق عمرانی ، میر عاصم کرد گیلو ، سردارزادہ فیصل خان جمالی ، پارلیمانی سیکریٹری عبدالمجید بادینی اور حاجی محمد خان لہڑی بھی انکے ہمراہ تھے ، وزیراعلیٰ بلوچستان نے مرحوم میر اسرار خان جمالی کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی ، وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنا سب کا حق ہے لیکن احتجاج کے نام پر سڑکیں بلاک کرنا اور توڑ پھوڑ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دینگے، عوام کے جان و مال کی حفاظت بلوچستان حکومت کی ذمہ داری ہے، دفعہ 144 کا نفاذ صوبے کے حالات کے پیش نظر کیا گیا، کسی کے جمہوری حقوق سلب کرنے کے لیے ہرگز نہیں ہے صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں را فنڈڈ لشکر اپنا مذموم ایجنڈا چلا رہا ہے، نوجوانوں کو بہکا کر عوام کا خون ناحق بہا رہے ہیں۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں نے ہمارے پارکس، اسکولوں، کالجز اور وکلاء پر حملے کیے لیکن اس کے باوجود ہم سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ ہمارے سکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کو دھول چٹانی ہے، انہیں تمام تر سہولتیں فراہم کریں گے ۔انہوں نے کہاکہ دشمن بزدل اور چالاک ہے لیکن فورسز ان کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ ملک کے لیے خون بہانے والے خراج تحسین کے مستحق ہیں، حکومت شہداء کے بچوں کی کفالت کر رہی ہے ۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 262 کوئٹہ سے عادل بازئی کی رکنیت بحال کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق عادل بازئی کو پاکستان مسلم لیگ (ن )کی بجائے آزاد امیدوار تصور کیا جائیگا۔عادل بازئی کے خلاف بجٹ اور آئینی ترمیم میں پارٹی پالیسی سے انحراف پر مسلم لیگ ن نے ریفرنس دائر کیا تھا، عادل بازئی کو صدر مسلم لیگ (ن )میاں محمد نواز شریف کی جانب سے دائر ریفرنس پر الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا تھا۔جس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے عادل بازئی کی بطور رکن قومی اسمبلی بحالی کا فیصلہ دیا تھا۔دریں اثنا بلوچستان کے سیاسی ، مذہبی و قبائلی رہنمائوں نے کہا ہے کہ صوبے میں80 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود امن نا پید ہے جس کی بڑی وجہ بلوچستان اسمبلی کا حقیقی نمائندوں سے محروم ہونا ہے۔ وفاق اور مقتدر قوتوں کی غلط سوچ سے صوبے کے عوام حق تلفی کا شکار ہیں ۔بارڈر ٹریڈ کی بندش سے 30 لاکھ لوگوں کو بے روزگار کردیا گیا زمینوں پر غیر قانونی الاٹمنٹ منسوخ کی جائے وفاق اور طاقتور قوتوں سے مذاکرات کے لئے وفد تشکیل دیا جائے گا جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منعقدہ جرگہ میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن کی نگرانی میں جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تمام قبائل کی یہ نمائندہ مشاورت قرار دیتی ہے کہ بلوچستان اس وقت اپنے تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رھا ھے، 80 ارب کے امن و امان کے بجٹ کے باوجود اس وقت حکومت کی رٹ صرف چند اضلاع تک محدود ھو کر رہ گی ہے۔
بلوچستان کے نوجوانوں میں بغاوت کے جذبات بھڑک رہے ہیں اس وقت صوبے کی اسمبلی بلوچستان کی حقیقی عوامی نمائندگی سے محروم ہے غیر منتخب افراد کو مسلط کر کے حالات کی خرابی میں اضافے کے ساتھ سیاسی جد وجہد کے ذریعے حالات کے تبدیلی کے راستے بند کر دیے گئے ہیں یہ قبائلی مشاورت بلوچستان کے موجودہ حالات امن و امان کی خرابی نوجونوں میں بغاوت اور عوام میں بی چینی و نفرت کے اسباب اور اس کے حل کیلئے درج ذیل اقدامات پریکسو ھوئی ھے۔وفاقی حکومت کی78 سالوں سے آقا اور غلام کی سوچ کے ساتھ اقدامات اور مسلسل حاکمانہ رویہ نے بلوچستان کے نوجوانوں کے اندر بغاوت کے جذبات کو عمل کا روپ دیا ھے اور عوام میں نفرت کے جذبات کو پروان چڑھایا ہے یہ جرگہ اس بات پہ متفق ھے کہ بلوچستان کے عوام کے منتخب نمائندوں اور قبائلی زعما کے ساتھ وفاق کے طاقتورحلقے اسرنو تمام آئینی امورپہ ڈائیلاگ کریں۔ وفاق کی سیاسی مداخلت کے بغیر حکومت منتخب نمائندوں کے حوالے کی جائے۔ صوبے کے عوام کو حق ملکیت سے محروم کر کے یہاں کے وسائل ریکوڈک ،گیس، سیندک کوئلہ کے ذخائر کا فیصلہ یہاں کے عوام کبھی قبول نہیں کریں گے۔وفاق یہاں کے وسائل اور لوٹی گئی دولت کے حساب کیلئے کمیشن قائم کرے۔ یہاں کے روایات کے مطابق قائم لیویز فورس اور شہری علاقوں کے پولیس کو اصلاحات اور وسائل کی فرائمی کے ذریعے امن وامان کی ذمہ داری دینے کا مطالبہ کرتی ھے۔ صوبہ میں کاروبار،تجارت،زراعت،ملازمت بارڑر ٹریڈ سمیت معاش کے تمام ذرائع کو بند کر دیا گیاہے۔بے روزگاری سے مہنگائی کاطوفان آیا ھے جس سے عوام کے مسائل اور نوجوانوں کی مایوسی میں مزید اضافہ ھوا ھے۔
اس وقت صوبہ میں لاکھوں ایکٹر زمین غیر مقامی افراد کو الاٹ کی گئی جو صوبہ میں مزید بے چینی کا سبب بن رہی ھے یہ قبائلی مشاورت یہاں کے قبائل کی زمینوں پہ قبضے کو کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی اور مطالبہ کرتی ھے کہ تمام الاٹمنٹس کو منسوخ کیا جائے یہ مشاورت بلوچستان کے ساحل سمندر پہ قبضے اور ٹرالر مافیا کے حوالے کرنے کے خلاف جد جہد کا اعلان کرتی ہے آج بلوچستان کے قبائل کی نمائندہ مشاورت یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ بلوچستان میں آباد تمام اقوام برادر اقوام ہیں اور بلوچستان اور کوئٹہ میں صدیوں سے آباد دیگر اقوام و قبائل کے لیے بلوچستانی کی اصطلاح استعمال کی جائے۔
قبائلی مشاورت نے اپنے مطالبات کو منوانے کیلئے درج ذیل اقدامات کا فیصلہ کیاہے۔ یہ قبائلی مشاورت تمام تمام قبائل کے مشاورت سے ایک کمیٹی تشکیل دے گی جو درج بالا اقدامات پہ عمل درامد کیلئے لائحہ عمل طے کرے گی۔اس قبائلی مشاورت کے زیر نگرانی تمام اضلاع میں اسی طرز کے قبائلی مشاورت منعقد کی جائیں گئیں اس قبائلی مشاورت کا ایک نمائندہ وفد تشکیل دیا جائے گا جو ان مسائل کی حل کیلئے وفاقی حکومت اور طاقت ور حلقوں سے مذکرات کرے گی یہ مشاورت ان تمام اقدامات کے بعد تمام قبائل کے زعما کی سربراہی میں کوئٹہ میں علما کرام اور نوجوانوں کا ایک عظیم الشان جرگہ منعقد کر کے حتمی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔