اڑان پاکستان ’’ تو شاہین ہے پروازہے کام تیرا‘‘

Jan 02, 2025

سید مجتبیٰ رضوان

 نوجوان اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ پاکیزہ سے قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔خنجر ہلال کا انفرادی نشان ہر نوجوان کی پہچان بن جائے تو راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔علامہ محمد اقبال کو شاہین ایک بلند پرواز، بے نیاز، غیرت مند، تیز نگاہ اور خلوت نشین پرندے کی حیثیت سے بہت پسند ہے۔ اس پرندے میں علامہ اقبال کی قوت، تیزی، وسعتِ نظر، دور بینی، بلند پروازی، درویشی، خود داری اور بے نیازی کی صفات جو نظر آتی ہیں یہی صفات وہ اپنی قوم کے بچوں اور نوجوانوں میں جلوہ گر دیکھنا چاہتے ہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال : عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں ، نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں ،
علامہ محمد اقبال بلند پروازی کے سلسلہ میں ہمیشہ سراپا تلقین رہے ، وہ ہمیشہ نوجوانوں کو ستاروں پر کمندیں ڈالنے، کبھی آسمانوں سے پرے تک پرواز کی دعوت دیتے ہیں. علامہ اقبال شاہین کی صفات نوجوانوں میں دیکھنے کے تمنائی ہیں۔ شاہین تیز نگاہ ہے، کسی کا شکار نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کر کے کھانے کا خوگر ہے۔ مردار نہیں کھاتا۔ بلند پرواز ہے اور طائر سدرہ تک پہنچنے کا متمنی رہتا ہے۔ پہل کرنے کا مادہ رکھتا ہے۔ جھپٹنا اس کی سرشت ہے اور پلٹ کر جھپٹنا اس کا فن ہے۔ شاہین کبھی تھکتا نہیں وہ راہیں تراشتا ہے ،شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا علامہ اقبال کا شاہین ہی مرد مومن، مرد خود آگاہ، مرد قلندر اور مثالی نوجوان ہے۔ علامہ اقبال آنے والے کل کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا دور سمجھتے ہیں۔ اْن کے نزدیک آنے والا کل کامیابیوں و کامرانیوں کی نوید ہوتا ہے۔ وہ رجائیت، امید اور کامیابی کو مسلمان کی میراث سمجھتے ہیں۔ ناکامی لفظ بھی ان کی لغات میں نہیں ہے۔ شاہین خودی کے پروں پر اڑتا ہے، شہپر جبرئیل کی قوت،اْس کی قوتِ ایمانی ہے۔ یہ جذبۂ قوت ایمانی رزق حلال سے پیدا ہوتا ہے۔علامہ محمد اقبال کا شاہین ہی مرد مومن، مرد خود آگاہ، مرد قلندر اور مثالی نوجوان ہے۔ علامہ محمد اقبال آنے والے کل کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا دور سمجھتے ہیں۔ اْن کے نزدیک آنے والا کل کامیابیوں و کامرانیوں کی نوید ہوتا ہے۔ وہ رجائیت، امید اور کامیابی کو مسلمان کی میراث سمجھتے ہیں۔ ناکامی لفظ بھی ان کی لغات میں نہیں ہے۔ شاہین خودی کے پروں پر اڑتا ہے، شہپر جبرئیل کی قوت،اْس کی قوتِ ایمانی ہے۔ یہ جذبۂ قوت ایمانی رزق حلال سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال روح کی پاکیزگی کو اوّلین ضرورت سمجھتے ہیں۔ شاہین اپنی روش تبدیل نہیں کرتا وہ اپنے ہی شکار پر بھروسہ کرتے ہوئے محو پرواز رہتا ہے۔ علامہ اقبال نوجوانوں کو تن آسانی ،مغرب کی غلامی اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے گریز کی دعوت دیتے ہیں۔ خودی کے تناظر میں اقبال نوجوانوں کو حرارت عطاء کرتے ہیں۔ اقوام کی تعمیر و ترقی کے لیے نوجوان مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ اور عظمتِ رفتہ کے استعارے ہیں۔ اقبال کا نوجوان مثلِ شاہین زندگی گزارتا ہے۔اقبال نے کئی اشعار میں طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، محمد بن قاسم ، اور ایسے ہی متعدد سرفروش نوجوانوں کا ذکر کیا ہے۔ جنھوں نے تاریخ کی پیشانی پر اپنے کارنامے رقم کیے۔ اقبال کا شاہین صفت نوجوان اخلاق کی بلند ترین چوٹی پر نظر آتا ہے۔ پاکیزہ جذبوں کا پاسدار نوجوان جب آگے بڑھتا ہے تو شاہین کی طرح جھپٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،جب وہ اْڑتا ہے تو فضائے بسیط میں نغمے بکھرنے لگتے ہیں، جب و ہ اللہ رب العزت کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے تو زمین سے اْس کی پیشانی کو چومنے کے لیے پھول اْگ آتے ہیں۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے۔ اْسے سہاروں کی دنیا پسند نہیں ہے۔ اقبال کا نوجوان وہ اندازِ زندگی نہیں گزارتا جس سے اْس کی خودی مجروح ہوتی ہے۔ اقبال کو شاہین ایک بلند پرواز، بے نیاز، غیرت مند، تیز نگاہ اور خلوت نشین پرندے کی حیثیت سے بہت پسند ہے۔ اس پرندے میں علامہ اقبال  کی قوت، تیزی، وسعتِ نظر، دور بینی، بلند پروازی، درویشی، خود داری اور بے نیازی کی صفات جو نظر آتی ہیں یہی صفات وہ اپنی قوم کے بچوں اور نوجوانوں میں جلوہ گر دیکھنا چاہتے ہیں اقبال بلند پروازی کے سلسلہ میں ہمیشہ سراپا تلقین رہے ، وہ ہمیشہ نوجوانوں کو ستاروں پر کمندیں ڈالنے، کبھی آسمانوں سے پرے تک پرواز کی دعوت دیتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ عارضی دنیاہے ، اس عالمِ رنگ و بو پر ہی قناعت نہ کرو بلکہ زمان و مکاں کی وسعتوں کو تسخیر کرتے ہوئے اْڑان بھرتے رہیں۔ اقبال آزادی کی نعمت سے بخوبی آگاہ تھے۔ وہ آزادی جو حدود اللہ کے دائرۂ کار میں رہے، حقیقی آزاد ی ہوتی ہے۔ انھیں مغرب کی غلامی سے سخت نفرت تھی اور اپنے شاہین صفت نوجوانوں میں بھی یہ صفت دیکھنے کے تمنائی تھے۔اقبال کے افکار ایک ایسا قلزمِ بے کراں ہے جس میں ہر قسم کے ہیرے جواہرات موجود ہیں۔ مسلمانوں کی تقدیر بدلنے کی توقع صرف نوجوانوں سے ہی کی جا سکتی ہے۔ اپنے عہد کے بہت سے نوجوانوں کی غفلت ، کوتاہی اور فرائضِ منصبی سے روگردانی اْن کے لیے پریشانی تھی۔ وہ غفلت شعار ، ذمہ داریوں سے عاری اور سنجیدگی سے بے نیازنوجوانوں کے بارے میں کہتے ہیں:جوانوں کو مرِی آہ سحر دے ‘پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے‘اقبال کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ اور’’جاوید کے نام'' بہت سے اشعار نوجوانوں کی مخفی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر آج کا نوجوان اقبال  کا شاہین بن جائے تو اْسے پوری دنیا میں انفرادیت حاصل ہو جائے۔ علم و ہنر ، اَدب و اخلاق، حکمت و دانائی اْس کے شخصی اوصاف بن جائیں۔ شاہین کی بلند پروازی ، اْس کی زندگی کا نصب العین ہو۔  وہ تیز نگاہ اور بلند پروازی سے جستجو اور تجسس کا خوگر ثابت ہو۔وہ اْمید دامن تھام کر منزلِ مراد حاصل کرے۔ اْس کی زندگی سادگی کامرقع اور اپنے قوت و بازو پر بھروسہ کرنے والی زندگی کا آئینہ دار ہو۔ افکارِ اقبال میں جہاں بھی بلند پروازی یا آگے بڑھنے کی دعوت موجود ہے اْس کے پس منظر میں اقبال کا شاہین موجود ہے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے نوجوان کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔جس طرح تحریکِ پاکستان میں نوجوانوں نے قائداعظم کے شانہ بشانہ جدوجہد کی آج اْسی جذبے کی خاص ضرورت ہے۔

مزیدخبریں