عورت ہر رشتے میں خاندان،معاشرے اور ملک کی ناموس ہوتی ہے۔ اس کیلئے صدہا برس سے چادر اور چار دیواری کا نظریہ عین ہمارے دین کیمطابق ہے۔ سورۃالنساء میں بھی عورت کے حقوق کے متعلق مکمل ضابطہ حیات دیا گیا ہے۔ مغربی ممالک میں پراپیگنڈہ ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورت کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے جبکہ مغربی معاشرہ عورت کو مساوی حقوق دیتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں پر اسلام نے عورت کو عزت اور تحفظ فراہم کیا ہے وہاں اسکے ساتھ عورت کیلئے جو قیود رکھی ہیں وہ دراصل اْسکی عزت اور احترام کا موجب بنتی ہیں اور اگر کہیں عورت کے ساتھ غیر مساوی رویہ روا رکھا جاتا ہے تو اْس کی ذمہ دار حکومت،قانون یا مذہب نہیں بلکہ معاشرے کی فرسودہ روایات اور نظام ہے جس کی وجہ سے کچھ بندشیں ایسی ہیں جیسے کہ:۔ ٭عورت کا ووٹ نہ ڈالنا ٭مردوں کے شانہ بشانہ کام نہ کرنا٭تعلیم کے حصول میں پیچھے رہ جانا ٭کاروکاری کی رسم کی بھینٹ چڑھنا ٭ قرآن سے نکاح ہو جاتا٭جائیداد سے محرومی اور غیرت کے نام پہ قتل کرنا ٭تشددمیں تیزاب پھینکنا اور جلا دینے کے بہیمانہ واقعات۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ اسی پاکستانی معاشرے میں آج عورتیں ترقی کرتی نظر آتی ہیں۔ دنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیرِ اعظم کا تعلق بھی پاکستان سے تھا جبکہ کئی ممالک میں عورت مختلف وجوہات کی بنا پر سیاست میں آگے نہیں آسکتی۔ہمارے معاشرے کی عورت کے مسائل کے سدِباب اور عدمِ تحفظ سے نبرد آزما ہونے کیلئے مختلف ادوار میں حکومتیں قانون سازی کرتی رہیں اور مختلف اصلاحات کے اعلانات بھی کیے جاتے رہے ہیں یہ دوسری بات کہ بہت سی قانونی، معاشرتی اور سماجی پیچیدگیوں کی بنا پہ اْن پر من و عن عملدرآمد نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہیں ہو سکے۔مگر جب پنجاب اسمبلی کی طرف سے تحفظِ حقوقِ نسواں کے سلسلے میں منظور کیا جانیوالا بل پاس ہوا تو اس پر بہت بحث چلتی رہی ہے۔ اس وقت بل کا بغور مطالعہ کیاگیا تو اس میں تجویز کیے گئے اقدامات بنیادی طور پر عورتوں کیخلاف تشدد کو روکنے کیلئے تھے جنہیں قانونی حیثیت دی گئی تھی تا کہ عورتیں اپنے تحفظ کی خاطر عدالتوں سے فوری رجوع کر سکیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف قانون ہی کسی کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہو سکتا بلکہ سماجی رسم و رواج اور رویے بھی معاشرتی مسائل کے تحفظ کی ضمانت ہو سکتے ہیں۔ چونکہ تشدد اور عدمِ تحفظ کا شکار ہونیوالی خواتین کی اکثریت کا تعلق غریب پسماندہ اور کم تعلیم یافتہ علاقوں سے ہوتا ہے لہذا وہاں قانون سے زیادہ مقامی روایات اور سوچ میں تبدیلی ضروری امر ہے۔ اسلام ایک فطری مذہب ہے اْس نے سب کا کردار کھول کھول کر قرآن میں بیان کر دیا ہے پھر ہمارے اسلامی معاشرے میں کردار کے اختیار میں یہ تجاوز کیسا۔ مردوں کو عورت کے ساتھ ہر رشتے میں مساوات رکھنی چاہیے کیونکہ مرد اپنی شخصیت اور حیثیت میں اکیلا ہے مگر عورت پوری ایک نسل سنوارتی ہے۔ اگر رضائے الٰہی سے عورت کا خاوند وفات پا جاتا ہے تو وہ اْسکے ایک یا ایک سے زائد بچوں کو لیکر پوری زندگی اْنکی تعلیم و تربیت کیلئے محنت و مشقت کرتی اور معاشرے کے ظلم بھی سہتی ہے مگر دوسری طرف نظر ڈالیں تو مرد ایسا نہیں کرتا۔ عورت کو عدمِ تحفظ کے احساس سے نکالنے کیلئے جو بل پاس ہوا تھا تو میں یہ کہوں گی کہ یہ بل عورت کو تحفظ دلا سکتا ہے مگر اْس صورت میں کہ اس پر ایمانداری کے ساتھ من و عن عملدرآمد کیا جائے۔ اسکے علاوہ ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ گھروں میں موجود مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں اس بات کو ضرور مدنظر رکھیں کہ آپس میں ایک دوسرے کو عزت اور محبت دیں اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنیوالے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے گھر سے عورت کو ہر طرح کا تحفظ دیں اور اسی مَد میں ساس اگر ماں بن جائے، نندبہن بن جائے دیور بھائی بن جائے اور بہو بیٹی بن جائے تو مردوں کے عدمِ تحفظ کا احساس بھی ختم ہو جائیگا اور عورت بھی گھر کی چار دیواری میں خود کو محفوظ سمجھنے لگے گی۔ حکومت پنجاب کا یہ فیصلہ یقینا خوش آئند ہے کہ بل پر مذہبی جماعتوں اور معاشرے کے مختلف طبقات سے مزید مشاورت کی جائے تاکہ اسکے عملی پہلوئوں کو زیادہ سے زیادہ موثر اور قابلِ عمل بنایا جا سکے اور حقیقی معنوں میں عدمِ تحفظ کا شکار خواتین کو تحفظ دلایا جا سکے اور تحفظ کیلئے ایسی شرائط یا اقدامات کیے جائیں کہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائیں اور والدین دونوں مل کر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کریں یقین کریں ایک عورت کو تحفظ ملنے سے پوری نسل پہ مثبت اثر پڑیگا۔
عورت نے ہمیشہ اپنی ضروریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس معاشرے کی عزت وترقی کیلئے اکثرسب کچھ تیاگ دیا اور بدلے میں اسے یہ معاشرہ تنقید کی نوک پر رکھتاہے شاید کچھ لوگوں کو اعتراض کہ عورت کو تو بہت مقام دیاجاتاہے لیکن اگر ہم ان خواتین کی اوسط نکالیں جن کو عزت کے بدلے عزت ، محبت کے بدلے محبت دی جاتی ہے تو بہت کم اوسط نکلتی ہے۔ آج بھی مردوں کی غلطیوں کو اپنے آنچل میں باندھنے والی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں موجود ہیں مگر عورت کی ایک غلطی پر ساری عمر تنقید وظلم کا نشانہ بناکر قید کرنے والا معاشرہ ہی ہمیں دندناتا ہوا نظرآتاہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024