پنجاب حکومت نے ثقافتی تہوار بسنت کو بحال کرنے اور اسے فروری کے دوسرے ہفتے میں منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ کہا یہ گیا کہ لاہور کی سول سوسائٹی سمیت ثقافتی حلقوں اور شہریوں کی طرف سے بسنت کا تہوار منانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
بسنت سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی بہار کے ہیں۔ برصغیر میں یہ تہوار سردی کا زور ٹوٹنے کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے پنجابی کا محاورہ ہے ’’آئی بسنت پالا اڑنت‘‘ بسنت ماگھ کے مہینے میں آتا ہے لیکن اس کا حساب بعض لوگ چاند کے مہینے سے کرتے ہیں یعنی ماگھ کے مہینے میں چاند کی پانچویں تاریخ کو بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بسنت کو اگرچہ بہار کا نقیب سمجھا جاتا ہے مگر یہ تہوار جاڑے کے موسم میں آتا ہے۔ بہار کا اصل زمانہ دراصل ہولی کا ہوتا ہے جو بھاگن کے مہینے میں آتی ہے۔ بسنت پنچمی کو بہار کا پیامبر تصور کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس موقع سے دراصل بہار کا موسم شروع ہوتا ہے۔ بسنت کے دن پتنگیں اُڑائی جاتی ہیں۔ اکثر ممالک میں پتنگ اُڑانے کا رواج ہے لیکن سلیقہ مندی اور قاعدے سے پتنگ اُڑانے میں جاپانی سب سے آگے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں قدیم الایام سے پتنگ بازی کا رواج چلا آتا ہے مگر یہاں پتنگ بازی بڑی بے احتیاطی سے ہوتی ہے۔ ہر سال کئی نوجوان اور بچے مکانوں کی چھتوں سے گر کر یا سڑک پر اندھا دھند دوڑتے ہوئے کسی موٹر سائیکل کی زد میں آ کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیمیکل کی ڈور کا استعمال عام ہو گیا ہے جس کی بنا پر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے لوگوں کی گردنیں کٹ جاتی ہیں۔ ایک بار لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے راڈ تقسیم کیے کہ موٹر سائیکل کے آگے ہینڈل کے ساتھ لگا دیا جائے تاکہ ڈور موٹر سائیکل چلانے والے کی گردن تک نہ پہنچ سکے۔ ایک بار میں بھی ڈور کی زد میں آ گیا۔ اللہ کا کرم ہوا کہ میں نے ڈور کو پکڑ کر اپنی گردن کو بچا لیا۔ لہٰذا میری ذاتی رائے ہے کہ پابندی برقرار رہنی چاہئے۔
پتنگ پتلے کاغذ اور بانس کی ہلکی پھلکی باریک تیلیوں سے بنائی جاتی ہے تاکہ آسانی سے ہوا میں اُڑ سکے۔ تاہم ہوا سے بھاری ہوتی ہے۔ اس لیے ساکن ہوا میں نہیں اُڑائی جا سکتی۔ زمین کے قریب بھی جہاں ہوا کی مقدار کم ہوتی ہے، پتنگ اُڑانے میں دقت پیش آتی ہے۔ بعض اوقات پتنگ اُڑانے والے کو یہ دقت دور کرنے کے لیے بھاگنا پڑتا ہے۔ پتنگ کا وزن، ڈوری کا تناؤ اور ہوا کا زور پتنگ پر اپنا اپنا اثر کرتے ہیں۔ ہوائی اُڑان کی قوت پتنگ کے وزن سے جب بڑھ جاتی ہے تو اسے اوپر کو اُٹھاتی ہے۔ ہوا کا دباؤ اسے افقی سمت میں آگے کو بڑھاتا ہے۔ ہوا جس قدر تیز ہوتی ہے، پتنگ اسی قدر اونچی اٹھتی چلی جاتی ہے اور ہوا کو تیزی میں کمی آ جانے سے پتنگ بھی نیچے کی طرف آنے لگتی ہے۔ پتنگ بازی میں لوگ ایک دوسرے کے پتنگ کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب پتنگ کٹ جائے تو ’’بوکاٹا‘‘ کا شور برپا کرتے ہیں۔ 1985ء میں، میں نے پتنگ بازی کے حوالے سے مذاکرہ کرایا تھا جس میں آل پاکستان کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن کے عہدے داروں نے شرکت کی۔
دراصل پتنگ بازی اسلامی تہوار ہے نہ غیر اسلامی، یہ پنجاب کا روایتی تہوار ہے جو موسم کی تبدیلی کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ یوں دیکھیں تو یہ خزاںکے بعد بہار کے موسم کا ایک انداز قرار پاتا ہے۔ ایسوسی ایشن کے عہدے داروں کا موقف تھا کہ پتنگ بازی پر حکومت کو یا عدالت کو پابندی نہیں لگانی چاہئے۔ یہ تو ایک انٹرنیشنل کھیل ہے۔ لاہور میں پتنگ بازوں کے گروپ ہیں جن کے مابین پتنگ بازی کا مقابلہ ہوتا رہا ہے۔ عہدے داروں کا کہنا تھا کہ پتنگ بازی پر پابندی لگنے سے کاروبار بند ہو گیا ہے اور اس سے وابستہ ہزاروں افراد بیکار ہو گئے ہیں۔ جہاں تک پیسے کا ضیاع کا تعلق ہے تو دنیا کی ایسی کون سی تفریح ہے جس پر پیسے خرچ نہ ہوں۔ بعض عادی جوا اور نشہ بازوں نے اس مرض سے چھٹکارا حاصل کر نے کے لیے پتنگ بازی کی طرف رجوع کیا اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پتنگ بازی اس وقت شروع ہوئی جب فصل کی کٹائی کے بعد زمیندار اور کسان فارغ ہوتے تھے تو انہوں نے سوچا کہ فارغ لمحات کس طرح گزارے جائیں۔ اس طرح کشتیوں اور پتنگ بازی کا آغاز ہوا۔ یہ ایک قسم کی ہوم انڈسٹری ہے۔ ایک پتنگ کی تیاری میں تقریباً بیس ہاتھ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جو شخص پیچ لڑاتا ہے، اس کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ہمیں سٹیڈیم بنا کر دیا جائے جہاں ہم پتنگ بازی کر سکیں۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ پتنگ بازی کو ایشیائی کھیلوںمیں شامل کیا جائے۔ اس وقت لوگ جن مسائل اور گھٹن کا شکار ہیں تو پتنگ بازی سکون مہیا کرتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ پتنگ بازی سے آنکھوں اور ذہن کی ورزش ہوتی ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024