گزرے سال کے آخری روز دست بددعا رہے، یا خدا آنے والے سال کو ہمارے لئے رحمت و برکت کا وسیلہ بنا دے۔ گزرے سال کے دکھوں کی ہوا بھی نہ لگنے دینا، اس وطنِ عزیز اور اس کے باسیوں کو آندھیوں، تھپیڑوں، طوفانوں، سختیوں اور ہرقسم کی پریشانیوں سے محفوظ رکھنا۔ ڈھیروں ایس ایم ایس بھی آئے۔ امیدوں کی جوت جگائے کہ نیا سال ہمارے لئے خوش بختی، خوشی، خوشحالی کی علامت ہے۔ اس کا آغاز بھی جمعتہ المبارک کے روز ہو رہا ہے اور اختتام بھی اسی مبارک دن کو ہوگا۔
نئے سال کی خوشیاں سمیٹنے کیلئے دل رجائیت پسندی کے جذبات سے لبریز تھا کہ نئے سال کے پہلے دن کے اخبار پر نگاہ پڑی اور پہلی ہی خبر پڑھ کر دل دھک سے رہ گیا، وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قوم کو نئے سال کا تحفہ دیا ہے، گیس کے نرخوں میں 18 فیصد اضافے کیلئے اوگرا کی جانب سے بھجوائی گئی سمری پر اپنے دستخط ثبت کرکے۔ بس بجلی کے نرخوں میں مزید ساڑھے بارہ فیصد اضافے کے نوٹیفکیشن کو فی الحال جاری ہونے سے انہوں نے روکا ہے اور طفل تسلی پٹرول کے نرخوں میں آٹے میں نمک سے بھی کم صرف 89 پیسے فی لٹر کمی کرکے دی ہے۔ آج کا ایک روپیہ تو بھکاری بھی ایک پیسہ سمجھ کر قبول نہیں کرتے، وزیراعظم نے دکھوں ماری قوم کو رعایت بھی دی تو روپے میں نہیں، پیسوں میں جو ویسے ہی ناپید اور نایاب ہو چکے ہیں۔ یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا اپنے مفلوک الحال عوام کو خوش کرنے کا انداز۔
رات بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بھی ہر گھنٹہ بعد جاری تھا اور نئے سال کا آغاز بھی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ہوا کہ 2010ءکا سورج طلوع ہوا تو بجلی کی چمک کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ گیس کا بل بھی نئے سال کے پہلے روز ہی موصول ہوا جس میں ایک چوکھٹے میں صارفین کو پیغام دیا گیا تھا کہ یکم جنوری سے گیس کے نرخ فلاں تناسب سے مقرر ہوئے ہیں۔ اس تناسب میں گیس کا بل گزشتہ ماہ کی نسبت دوگنا ہوگیا۔ یہ ہے نئے سال کے استقبال کا انداز، سی این جی سٹیشنوں کی ہڑتال بھی گئے سال کی جانب سے نئے سال کو منتقل ہو چکی ہے اور نئے سال کے خبروں کے بلیٹن میں یہ خبر بھی نمایاں چل رہی تھی کہ سی این جی اس ماہ سے سات سے آٹھ روپے فی کلو مہنگی ہو رہی ہے۔ زخمی زخمی، لہو لہو اس دکھیاری قوم کو نئے سال کے دوران چھلنی چھلنی کرنے کیلئے کیسا کیسا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کا محض نوٹیفکیشن فی الحال روکا گیا ہے۔ اضافے کا فیصلہ تو اپنی جگہ قائم ہے۔ شائد نئے سال کے پہلے روز جھٹکا در جھٹکا مقصود نہیں تھا۔ اس لئے چند روز گزر جائیں، قوم کو یہ جھٹکا بھی مل جائے گا اور پھر آئی ایم ایف تو ہمارے حاکمانِ ملک و مختارکے سروں پر چھانٹے لئے کھڑی ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکسوں کی مد میں نہ جانے اور کتنے ٹیکس کس انداز میں وارد ہونے والے ہیں۔ انکار کی مجال نہیں کہ ہمارے والیانِ عز وشرف نے اپنے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بھی آئی ایم ایف کی کڑی نگوڑی شرطوں کے ساتھ بندھوا دیا ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی جانب سے ہمیں سعادت مندی کے ساتھ ساتھ سلیقہ مندی اختیار کرنے کی بھی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں اور سلیقہ مندی یہ ہے کہ زندگی گزارنے کیلئے جو کچھ بھی آپ سے بن پڑتا ہے، وہ سب بغیر کسی حیل و حجت کے ہمارے حوالے کردو۔ اپنے ارمان اور کوئی شوق پورا کرنے کا آپ کو قطعاً حق حاصل نہیں ہے۔ ہم جو کچھ آپ پر لادتے جائیں گے، برداشت کرتے جاﺅ اور نہیں کرسکتے تو بے شک مر جاﺅ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں تو آپ کی کھال ادھیڑنے، خون نچوڑنے کا اختیار دیا گیا ہے سو وہ ہم استعمال کرتے رہیں گے۔
یہ ہے عوضانہ آئی ایم ایف سے حاصل کردہ ایک عشاریہ پانچ ارب روپے قرض کی چوتھی قسط کی وصولی کا۔ یہ سالانہ قسطیں پانچ سال تک چلنی ہیں تب تک بطور قوم ہم زندہ بھی رہ پائیں گے اور ہمارے تن پر لباس کا کوئی ٹکڑا بھی رہ پائے گا؟ سوچیں تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ نئے سال کے پہلے ہی روز اتنے صدمے، اتنے غم، اتنا بوجھ، قوم تو پہلے ہی لڑکھڑا رہی تھی۔اب چال بے ڈھنگی ہوئی تو ڈھب سے آگے قدم بڑھانا ناممکنات میں شامل ہو جائے گا۔ ہم تو نئے سال کا نئی امیدوں، نئے جذبوں کے ساتھ استقبال کرنے بیٹھے تھے۔ یہ جھٹکے، یہ چرکے اور مایوسیوں کے یہ بادل کہاں سے امڈ آئے ہیں۔ خدا خیر کرے! آغاز یہ ہے تو انجام کیسا ہوگا؟
نئے سال کی خوشیاں سمیٹنے کیلئے دل رجائیت پسندی کے جذبات سے لبریز تھا کہ نئے سال کے پہلے دن کے اخبار پر نگاہ پڑی اور پہلی ہی خبر پڑھ کر دل دھک سے رہ گیا، وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قوم کو نئے سال کا تحفہ دیا ہے، گیس کے نرخوں میں 18 فیصد اضافے کیلئے اوگرا کی جانب سے بھجوائی گئی سمری پر اپنے دستخط ثبت کرکے۔ بس بجلی کے نرخوں میں مزید ساڑھے بارہ فیصد اضافے کے نوٹیفکیشن کو فی الحال جاری ہونے سے انہوں نے روکا ہے اور طفل تسلی پٹرول کے نرخوں میں آٹے میں نمک سے بھی کم صرف 89 پیسے فی لٹر کمی کرکے دی ہے۔ آج کا ایک روپیہ تو بھکاری بھی ایک پیسہ سمجھ کر قبول نہیں کرتے، وزیراعظم نے دکھوں ماری قوم کو رعایت بھی دی تو روپے میں نہیں، پیسوں میں جو ویسے ہی ناپید اور نایاب ہو چکے ہیں۔ یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا اپنے مفلوک الحال عوام کو خوش کرنے کا انداز۔
رات بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بھی ہر گھنٹہ بعد جاری تھا اور نئے سال کا آغاز بھی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ہوا کہ 2010ءکا سورج طلوع ہوا تو بجلی کی چمک کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ گیس کا بل بھی نئے سال کے پہلے روز ہی موصول ہوا جس میں ایک چوکھٹے میں صارفین کو پیغام دیا گیا تھا کہ یکم جنوری سے گیس کے نرخ فلاں تناسب سے مقرر ہوئے ہیں۔ اس تناسب میں گیس کا بل گزشتہ ماہ کی نسبت دوگنا ہوگیا۔ یہ ہے نئے سال کے استقبال کا انداز، سی این جی سٹیشنوں کی ہڑتال بھی گئے سال کی جانب سے نئے سال کو منتقل ہو چکی ہے اور نئے سال کے خبروں کے بلیٹن میں یہ خبر بھی نمایاں چل رہی تھی کہ سی این جی اس ماہ سے سات سے آٹھ روپے فی کلو مہنگی ہو رہی ہے۔ زخمی زخمی، لہو لہو اس دکھیاری قوم کو نئے سال کے دوران چھلنی چھلنی کرنے کیلئے کیسا کیسا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کا محض نوٹیفکیشن فی الحال روکا گیا ہے۔ اضافے کا فیصلہ تو اپنی جگہ قائم ہے۔ شائد نئے سال کے پہلے روز جھٹکا در جھٹکا مقصود نہیں تھا۔ اس لئے چند روز گزر جائیں، قوم کو یہ جھٹکا بھی مل جائے گا اور پھر آئی ایم ایف تو ہمارے حاکمانِ ملک و مختارکے سروں پر چھانٹے لئے کھڑی ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکسوں کی مد میں نہ جانے اور کتنے ٹیکس کس انداز میں وارد ہونے والے ہیں۔ انکار کی مجال نہیں کہ ہمارے والیانِ عز وشرف نے اپنے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بھی آئی ایم ایف کی کڑی نگوڑی شرطوں کے ساتھ بندھوا دیا ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی جانب سے ہمیں سعادت مندی کے ساتھ ساتھ سلیقہ مندی اختیار کرنے کی بھی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں اور سلیقہ مندی یہ ہے کہ زندگی گزارنے کیلئے جو کچھ بھی آپ سے بن پڑتا ہے، وہ سب بغیر کسی حیل و حجت کے ہمارے حوالے کردو۔ اپنے ارمان اور کوئی شوق پورا کرنے کا آپ کو قطعاً حق حاصل نہیں ہے۔ ہم جو کچھ آپ پر لادتے جائیں گے، برداشت کرتے جاﺅ اور نہیں کرسکتے تو بے شک مر جاﺅ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں تو آپ کی کھال ادھیڑنے، خون نچوڑنے کا اختیار دیا گیا ہے سو وہ ہم استعمال کرتے رہیں گے۔
یہ ہے عوضانہ آئی ایم ایف سے حاصل کردہ ایک عشاریہ پانچ ارب روپے قرض کی چوتھی قسط کی وصولی کا۔ یہ سالانہ قسطیں پانچ سال تک چلنی ہیں تب تک بطور قوم ہم زندہ بھی رہ پائیں گے اور ہمارے تن پر لباس کا کوئی ٹکڑا بھی رہ پائے گا؟ سوچیں تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ نئے سال کے پہلے ہی روز اتنے صدمے، اتنے غم، اتنا بوجھ، قوم تو پہلے ہی لڑکھڑا رہی تھی۔اب چال بے ڈھنگی ہوئی تو ڈھب سے آگے قدم بڑھانا ناممکنات میں شامل ہو جائے گا۔ ہم تو نئے سال کا نئی امیدوں، نئے جذبوں کے ساتھ استقبال کرنے بیٹھے تھے۔ یہ جھٹکے، یہ چرکے اور مایوسیوں کے یہ بادل کہاں سے امڈ آئے ہیں۔ خدا خیر کرے! آغاز یہ ہے تو انجام کیسا ہوگا؟