”حقیقت یہ ہے کہ کاغذ کے ایک مختصر پرزے نے جو چار صفحات پر مشتمل ہے۔ امریکی قوم کی تشکیل کی بنیاد رکھی۔ اس موقع پر بانیان دستور (FOUNDING FATHER) نے اس کے عناصر ترکیبی کے درمیان جو مشترکہ اقدار بمشکل دریافت کیں‘ وہ صرف تین تھیں -1 مشترکہ عقیدہ یعنی عیسائیت -2 مشترکہ علاقہ یعنی یورپ -3 مشترک معاشی اور سیاسی مفادات یعنی خانہ جنگی کا خاتمہ‘ جان و مال کا تحفظ اور ملک کی تعمیر و ترقی‘ جس میں سب کا مفاد ہے اور جس سے سب کا مستقبل روشن ہو گا۔
ابتدائی تصور ”قومیت“ میں صرف یورپ کی سفید نسل کو شامل رکھا گیا کالے غلام اور مقامی ریڈ انڈین اس سے خارج تھے تاہم بتدریج اب وہ بھی قوم کا حصہ بن گئے ہیں مگر مساوی الحیثیت اب بھی نہیں ہیں۔
اس تاریخی پس منظر سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ امریکی قوم ایک مصنوعی قوم ہے جسے کاغذ کے پرزے نے جنم دیا ہے۔
کمال اتاترک نے مذہب سے اور اپنے ماضی سے کھلی بغاوت کی اور سیکولر ازم کا راستہ اختیار کر کے اہل مغرب کی پیروی کی انہوں نے محاذ پر یورپی اقوام کو شکست دی لیکن تہذیبی محاذ پر ان سے شکست کھائی۔ اپنی ہر روایت‘ قدر اور تہذیبی شناخت کو ترک کیا اور مغربی تہذیب کو جبراً اس طرح اپنی قوم کے سرپر منڈھا جیسے ٹوپی بنانے والے اسے قالب پر چڑھاتے ہیں۔ انہوں نے رومن رسم الخط اختیار کر کے ترکوں کا رشتہ ماضی سے بالکل کاٹ دیا اور فارسی و عربی کا خاتمہ ‘ کر کے انہیں مسلم دنیا سے منقطع کر دیا۔ اس کے برعکس قائداعظم نے کبھی مشتعل ہو کر علماءپر لعنت ملامت نہیں کی نہ اپنے ماضی کو مطعون کیا۔ انہوں نے غیر معمولی صبر وتحمل اور حزم و احتیاط سے کام لیا۔ مذہب سے بغاوت نہیں کی بلکہ اسی کو پاکستانی قومیت کی اساس قرار دیا۔ اپنے بیانات ‘ پیغامات اور انٹرویو میں قرآن و سنت کو ملک کے دستور کی بنیاد ٹھہرایا۔ مغربی تہذیب سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے زندگی بھر سوٹ پہنتے رہے لیکن آزادی کے فوراً بعد اسے اتار پھینکا اور قومی لباس اختیار کیا۔ پھر جیتے جی کبھی سوٹ زیب تن نہ کیا۔ (یہ اور بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو قائداعظم کا دور غلامی ہی کا لباس پسند ہے اور وہ قومی اسمبلی سے لے کر دفاتر تک میں سوٹ والی تصویر آویزاں کرتے ہیں) قائداعظم نے اس زبان کو قومی زبان قرار دیا جسے وہ خود بول سکتے تھے نہ لکھ اور پڑھ سکتے تھے مگر جو قرآنی رسم الخط رکھتی تھی اور مسلمانوں کے درمیان رابطہ اور دینی لٹریچر سے ان کے تعلق و وابستگی کا واحد ذریعہ تھی انہوں نے پاکستان کو عالم اسلام سے جوڑا اور قاہرہ میں اپنے بیان کے ذریعے مسلم دنیا کی آزادی کے تحفظ اور اس کے استحکام و ترقی کے لئے پاکستان کی اہمیت واضح کی۔ یوں قائدماعظم ”ترقی پسندی“ نے اسلام اور عالم اسلام کو کبھی مسترد نہیں کیا اور انہوں نے علماءاور شعائر اسلام کا ہمیشہ احترام کیا‘ ملک کے نظام کے کے بارے میں ان کی سوچ کی عکاسی یو پی مسلم لیگ کی تشکیل کردہ اس دستور کمیٹی سے ہوتی ہے جو جید علماء پر مشتمل تھی اور جسے پاکستان کے لئے ایک دستور کا خاکہ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
قائداعظم نے جس نکتہ کو اہمیت دی اور جسے اتاترک فراموش کر بیٹھے وہ یہ تھا کہ ماضی پرستی اور شے ہے اور ماضی سے کٹ جانا بالکل دوسری شے۔ تاریخ کا سفر بہتے دریا کے پانی کی طرح آگے ہی کی طرف رہتا ہے لیکن وہ اپنے منبع سے کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ منقطع کر دیا جائے تو بہاﺅ بھی باقی نہیں رہتا۔ دریا جوہڑ بن جاتا ہے جس طرح دریا کا پانی پہاڑوں‘ صحراﺅں‘ جنگلوں‘ چٹیل میدانوں اور سبزہ زاروں سے گزرتا ہوا آگے بڑھتا ہے‘ اسی طرح تاریخ بھی عروج و زوال‘ عظمت و نکبت‘ آزادی و غلامی اور بلندی و پستی کے مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے حال کو ماضی سے کاٹنے کی نہیں بلکہ ماضی سے بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی میں روشن مستقبل کی ضمانت پنہاں ہے۔ ماضی تو ایک قوم کا حافظہ ہے‘ جس طرح کسی فرد کا حافظہ اس سے چھن جائے تو وہ تمام ت توانائیوں کے باوجود عضو معطل ہو کر رہ جاتا ہے اسی طرح کسی قوم کا ماضی اس حافظے سے رخصت ہو جائے تو وہ سمت و منزل کے شعور سے محروم ہو جاتی ہے اور اپنی اصل سے کٹ کر رہ جاتی ہے۔ تاریخ تو قوم کا نسب ہوتی ہے یہ درس دیتی ہے تازیانے برسا کر اعصاب کو جنجھوڑتی اور بیدار کرتی ہے اور جوش عمل ابھارتی ہے۔ اتاترک کے ذہن میں عظمت رفتہ کے مناظر محفوظ نہ ہوتے اور ان کے اعصاب پر تاریخ کے تازیانے نہ برستے تو وہ اپنا شاندار کردار کبھی ادا نہ کر پاتے۔ افسوس! انہوں نے وہ پل توڑ دیا جس پر سفر کرتے ہوئے وہ آگے بڑھے تھے خدا کا شکر ہے ترکوں نے اب اسے کسی حد تک پاٹ دیا۔ اب وہ دوبارہ عالم اسلام کا ایک حصہ بن گئے ہیں اور تاریخ سے اپنا رابطہ بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کمال اتاترک کی طرح قائداعظم نے حصول آزادی و اقتدار کے مرحلے کو تاریخ سے رشتہ توڑنے کے لئے استعمال نہیں کیا اس لئے اختلافات کے باوجود دینی حلقوں میں ان کا وقار و احترام مجروح نہیں ہوا بڑھتا گیا جب کہ سیکولر ‘ ملحد‘ اشتراکی‘ مغرب زدہ اور نام نہاد ترقی پسند حلقے ان سے دور ہوتے چلے گئے اور اب صرف وہی ان کا ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔
نوٹ: آج 2010ءمیں ترکی میں ایک اسلام پسند پارٹی برسرِاقتدار ہے۔ (ادارہ)
(بشکریہ: تکبیر)
ابتدائی تصور ”قومیت“ میں صرف یورپ کی سفید نسل کو شامل رکھا گیا کالے غلام اور مقامی ریڈ انڈین اس سے خارج تھے تاہم بتدریج اب وہ بھی قوم کا حصہ بن گئے ہیں مگر مساوی الحیثیت اب بھی نہیں ہیں۔
اس تاریخی پس منظر سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ امریکی قوم ایک مصنوعی قوم ہے جسے کاغذ کے پرزے نے جنم دیا ہے۔
کمال اتاترک نے مذہب سے اور اپنے ماضی سے کھلی بغاوت کی اور سیکولر ازم کا راستہ اختیار کر کے اہل مغرب کی پیروی کی انہوں نے محاذ پر یورپی اقوام کو شکست دی لیکن تہذیبی محاذ پر ان سے شکست کھائی۔ اپنی ہر روایت‘ قدر اور تہذیبی شناخت کو ترک کیا اور مغربی تہذیب کو جبراً اس طرح اپنی قوم کے سرپر منڈھا جیسے ٹوپی بنانے والے اسے قالب پر چڑھاتے ہیں۔ انہوں نے رومن رسم الخط اختیار کر کے ترکوں کا رشتہ ماضی سے بالکل کاٹ دیا اور فارسی و عربی کا خاتمہ ‘ کر کے انہیں مسلم دنیا سے منقطع کر دیا۔ اس کے برعکس قائداعظم نے کبھی مشتعل ہو کر علماءپر لعنت ملامت نہیں کی نہ اپنے ماضی کو مطعون کیا۔ انہوں نے غیر معمولی صبر وتحمل اور حزم و احتیاط سے کام لیا۔ مذہب سے بغاوت نہیں کی بلکہ اسی کو پاکستانی قومیت کی اساس قرار دیا۔ اپنے بیانات ‘ پیغامات اور انٹرویو میں قرآن و سنت کو ملک کے دستور کی بنیاد ٹھہرایا۔ مغربی تہذیب سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے زندگی بھر سوٹ پہنتے رہے لیکن آزادی کے فوراً بعد اسے اتار پھینکا اور قومی لباس اختیار کیا۔ پھر جیتے جی کبھی سوٹ زیب تن نہ کیا۔ (یہ اور بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو قائداعظم کا دور غلامی ہی کا لباس پسند ہے اور وہ قومی اسمبلی سے لے کر دفاتر تک میں سوٹ والی تصویر آویزاں کرتے ہیں) قائداعظم نے اس زبان کو قومی زبان قرار دیا جسے وہ خود بول سکتے تھے نہ لکھ اور پڑھ سکتے تھے مگر جو قرآنی رسم الخط رکھتی تھی اور مسلمانوں کے درمیان رابطہ اور دینی لٹریچر سے ان کے تعلق و وابستگی کا واحد ذریعہ تھی انہوں نے پاکستان کو عالم اسلام سے جوڑا اور قاہرہ میں اپنے بیان کے ذریعے مسلم دنیا کی آزادی کے تحفظ اور اس کے استحکام و ترقی کے لئے پاکستان کی اہمیت واضح کی۔ یوں قائدماعظم ”ترقی پسندی“ نے اسلام اور عالم اسلام کو کبھی مسترد نہیں کیا اور انہوں نے علماءاور شعائر اسلام کا ہمیشہ احترام کیا‘ ملک کے نظام کے کے بارے میں ان کی سوچ کی عکاسی یو پی مسلم لیگ کی تشکیل کردہ اس دستور کمیٹی سے ہوتی ہے جو جید علماء پر مشتمل تھی اور جسے پاکستان کے لئے ایک دستور کا خاکہ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
قائداعظم نے جس نکتہ کو اہمیت دی اور جسے اتاترک فراموش کر بیٹھے وہ یہ تھا کہ ماضی پرستی اور شے ہے اور ماضی سے کٹ جانا بالکل دوسری شے۔ تاریخ کا سفر بہتے دریا کے پانی کی طرح آگے ہی کی طرف رہتا ہے لیکن وہ اپنے منبع سے کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ منقطع کر دیا جائے تو بہاﺅ بھی باقی نہیں رہتا۔ دریا جوہڑ بن جاتا ہے جس طرح دریا کا پانی پہاڑوں‘ صحراﺅں‘ جنگلوں‘ چٹیل میدانوں اور سبزہ زاروں سے گزرتا ہوا آگے بڑھتا ہے‘ اسی طرح تاریخ بھی عروج و زوال‘ عظمت و نکبت‘ آزادی و غلامی اور بلندی و پستی کے مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے حال کو ماضی سے کاٹنے کی نہیں بلکہ ماضی سے بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی میں روشن مستقبل کی ضمانت پنہاں ہے۔ ماضی تو ایک قوم کا حافظہ ہے‘ جس طرح کسی فرد کا حافظہ اس سے چھن جائے تو وہ تمام ت توانائیوں کے باوجود عضو معطل ہو کر رہ جاتا ہے اسی طرح کسی قوم کا ماضی اس حافظے سے رخصت ہو جائے تو وہ سمت و منزل کے شعور سے محروم ہو جاتی ہے اور اپنی اصل سے کٹ کر رہ جاتی ہے۔ تاریخ تو قوم کا نسب ہوتی ہے یہ درس دیتی ہے تازیانے برسا کر اعصاب کو جنجھوڑتی اور بیدار کرتی ہے اور جوش عمل ابھارتی ہے۔ اتاترک کے ذہن میں عظمت رفتہ کے مناظر محفوظ نہ ہوتے اور ان کے اعصاب پر تاریخ کے تازیانے نہ برستے تو وہ اپنا شاندار کردار کبھی ادا نہ کر پاتے۔ افسوس! انہوں نے وہ پل توڑ دیا جس پر سفر کرتے ہوئے وہ آگے بڑھے تھے خدا کا شکر ہے ترکوں نے اب اسے کسی حد تک پاٹ دیا۔ اب وہ دوبارہ عالم اسلام کا ایک حصہ بن گئے ہیں اور تاریخ سے اپنا رابطہ بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کمال اتاترک کی طرح قائداعظم نے حصول آزادی و اقتدار کے مرحلے کو تاریخ سے رشتہ توڑنے کے لئے استعمال نہیں کیا اس لئے اختلافات کے باوجود دینی حلقوں میں ان کا وقار و احترام مجروح نہیں ہوا بڑھتا گیا جب کہ سیکولر ‘ ملحد‘ اشتراکی‘ مغرب زدہ اور نام نہاد ترقی پسند حلقے ان سے دور ہوتے چلے گئے اور اب صرف وہی ان کا ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔
نوٹ: آج 2010ءمیں ترکی میں ایک اسلام پسند پارٹی برسرِاقتدار ہے۔ (ادارہ)
(بشکریہ: تکبیر)