سپریم کورٹ کا این آر او کے خلاف فیصلہ موجودہ حکومت کےلئے سخت آزمائش بن گیا ہے اور اس فیصلے کو صدر آصف علی زرداری نے طوفان قرار دیا ہے اور اس طوفان کا مقابلہ کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔ سو اس طوفان کا مقابلہ کرنے کےلئے ایوان صدر مےں حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی کا اجلاس پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی صدارت مےں ہوا اور این آر او سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ صدر سمیت کوئی بھی وزیر یا رکن پارلیمنٹ مستعفی نہیں ہوگا اور عدالتوں مےں مقدمات کا بھرپور دفاع کیا جائے گا۔ بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سیاسی لڑائی مےں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس موقع پر پارٹی کو اپنے دشمنوں کی سازشوں کی دہائی نہیں دینی چاہئے اس لئے اگر اس کے دشمنوں کو پارٹی کی موجودہ حکومت کے خلاف سازشیں کرنے کا موقع بھی ملا ہے تو صرف اس وجہ سے کہ پارٹی کو اقتدار مےں لانے کےلئے این آر او جیسا متنازعہ اور جرم، بدعنوانی اور لوٹ مار کو جائز قرار دینے والا قانون رائج کیا گیا، یہ ایسا قانون تھا کہ اس کا دفاع پارٹی نہ سیاسی میدان مےں کر سکی اور نہ ہی عدالتی میدان مےں اس کا دفاع کرنے کےلئے اس کے پاس دلائل تھے، تجزیہ نگاروں کے مطابق پیپلز پارٹی اداروں کے درمیان تصادم کا ماحول پیدا کرنے کی راہ پر چل پڑی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آزاد عدلیہ کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے اس فیصلے کو اس کی روح کے ساتھ تسلیم کریں۔ پوری قوم کی آواز این آر او کے بارے مےں یہ تھی کہ یہ غیر آئینی تھا اور محض چند افراد کو فائدہ اور ان کی کرپشن چھپانے کےلئے تھا۔ عدالت نے یہ فیصلہ دے کر عوام کی آواز کو آگے بڑھایا ہے۔ اگرچہ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے خلاف مقدمات غلط بنیادوں پر اور ناجائز طریقے سے بنائے گئے تھے تو انہیں اس اعتماد کے ساتھ عدالتوں کا سامنا کرنے کےلئے خود کو پیش کر دینا چاہئے کہ اب عدالتیں آزاد ہو چکی ہےں۔ اب خواہ مخواہ کسی کو سزا سے نہیں ڈرنا چاہئے جو خود کو بے گناہ سمجھتے ہےں وہ آزاد عدلیہ کے ہوتے ہوئے باآسانی اپنی بے گناہی ثابت کر سکتے ہےں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ بے گناہی ثابت کریں نہ کہ تصادم کا راستہ اختیار کر کے ملکی فضا کو مزید خراب کریں۔ اس سے ملک کی مشکلات مےں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ ملک مےں عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی دو بڑی پارٹیوں نے انگریزی محاورہ کے مطابق اپنے پوتڑے سر بازار دھونے شروع کر دیئے ہےں اور 8 فروری 2008ءکے عام الیکشن سے لیکر اب تک آپس مےں چور سپاہی کا کھیل کھیل رہی ہےں اور اپنی باسٹھ سالہ تاریخ کے بدترین بحران سے گزرتی ہوئی غریب قوم اپنے دکھوں کے مداوا کی خاطر بے بسی کے عالم مےں نام نہاد مسیحاﺅں کی طرف دیکھ رہی ہے۔ چینی، آٹا، بجلی اور گیس جیسی ضروریات کے حصول کےلئے وہ اپنے ہی رہنماﺅں یا ان کے کارندوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہےں۔ حکمران پی پی پی کے ساتھ جو دوسری پارٹیاں شریک اقتدار ہےں انہیں جمہوریت کی ڈولتی ناﺅ کو ڈوبنے سے بچانے کےلئے موثر انداز مےں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ پیرپگاڑا نے تو اعلان کر دیا ہے کہ موجودہ حکومت کی رخصتی کا بگل بج چکا ہے اور لانگ بوٹوں کی آواز واضح سنائی دے رہی ہے اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم کو لانگ بوٹوں سے بچائے کیونکہ لانگ بوٹوں نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ ابھی پانی سر سے نہیں گزرا اور اصلاح احوال کی گنجائش موجود ہے لیکن سوال نیتوں کا ہے اگر ہر جماعت صاف نیت کا مظاہرہ کرے تو منزل آسان ہو سکتی ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024