میاں شہباز شریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے بھی لاہور پر خصوصی شفقت کی متعدد انڈرپاس بنوائے، لاہور کی معروف شاہراہ جیل روڈ جو تجاوزات کی زد میں تھی اسے راتوں رات قبضہ گروپوں سے واگزار کرا کے لاہور کو ایک خوبصورت شاہراہ دی جس کی عوام میں پذیرائی ہوئی میں پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا رکن ہوںمگر جو درست کام کرے اس کا تعلق چین سے ہو یا بخاراسے یا کراچی کا میئر سید مصطفی کمال ہواس کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ سید مصطفی کمال نے چند سال قبل والے کراچی کو ناقابل یقین حد تک بدل کے رکھ دیاہے۔ شہر میں درجنوں اوورہیڈ بریجز، سڑکیں تعمیر کرائیں، سیوریج اور واٹر سپلائی سسٹم مثالی بنایا، کراچی کو پارکوں اور روشنیوں کا شہر بنا دیا۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ آج سے سات آٹھ سال پہلے کراچی دیکھنے والوں کے لیے آج کا کراچی ایک نیا شہر ہوگا۔ خوبصورت ترقی یافتہ اور تمام سہولتوں سے آراستہ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا بہترین میئر قرار دے کر جرمنی اور امریکہ نے انہیں ایوارڈز سے نوازا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جذبہ صادق، لگن اور جستجو ہو تو آپ پاکستان میں رہ کر بھی کمالات دکھا سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور میں پچھلے تین عشروں سے تجاوزات کی بھرمار رہی ۔ لاہور کی سڑکیں ٹریفک کے لیے ناکافی ثابت ہونے لگیں پنجاب کے مرکز لاہور کو جو کہ میٹروپولیٹن اورباغوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ وہ کرپٹ بیوروکریٹس،موسمی سیاستدانوں اور لینڈ مافیا کے رحم کرم پرآ گیا۔ مشرف کے آمرانہ دور میں کوئی خالی پلاٹ حکمرانوں کی للچائی نظروں سے نہ بچ سکا۔ جگہ جگہ پلازے پھوٹ پڑے قانون کی دھجیاں سرعام دیدہ دلیری سے اڑائی گئیں۔ ایل ڈی اے نے اپنے کرپٹ افسروں کی وجہ سے کرپشن کا بازار گرم کیے رکھا اور قانون و ضوابط کامذاق اڑاتے رہے۔ پلازوں کے تہہ خانوں کی پارکنگ کو دکانوں میں تبدیل کرکے بیچ دیا گیا۔لاہور میں تجاوزات صرف آٹھ سال سے نہیں بلکہ 30سال سے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھیں۔ اس دوران جتنے بھی وزرائے اعلیٰ نے لاہور کے تخت کو رونق بخشی وہ قبضہ مافیا کی فصل کی آبیاری کرتے رہے۔ یقینا یہ سب ناجائز تھا۔ مگر آج پاکستان کے معروضی اور معاشی حالات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق غیرقانونی پلازوں اورعمارتوں کو گرانے کے عمل میں لاہوریوں اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو 7کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس معاشی بدحالی میں پنجاب کا دل لاہور اس نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پچھلے دو عشروں میں سمندرپار پاکستانیوں نے پاکستان میںکھربوں روپے کی سرمایہ کاری کی، ان کا اصل ہدف ریئل سٹیٹ تھا کیونکہ دیارغیر بسنے والے لاکھوں پاکستانیوں نے ہمارے محترم سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے پروگرام ”قرض اتارو ملک سنوارو“ کے تحت اربوں ڈالر پاکستان بھجوائے، پھر جب ان کے اکاﺅنٹ منجمد کیے گئے تو اس صدمے کے بعد دوسرے ممالک میں موجود پاکستانیوں نے ریئل اسٹیٹ میں انویسٹمنٹ کو زیادہ محفوظ سمجھ لیا۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس دوران جتنے پلازے اور کمرشل بلڈنگز تعمیر ہوئیں ان میں 80فیصد سرمایہ کاری سمندر پار پاکستانیوں کی تھی جو مجھ جیسے کالم نویسوں کو فون کرکے اپنی بربادی کا حال سنائے چلے جاتے ہیں۔ کب تک ارضِ پاک کے لیے قربانی کے نام پر پاکستان میں بسنے والے اور اووسیز پاکستانی اسی طرح لٹتے رہیں گے۔ دل ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر کڑھتا تو بہت ہے مگر میں الفاظ کی تلوار سے حکمرانوں کے عزائم کے سامنے سدراہ نہیں بن سکتا۔ ان غیرقانونی تجاوزات کو گرانے کے بجائے حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پلازہ مالکان کو بھاری جرمانے کرتی اور ان رقوم سے شہر میں جگہ جگہ کارپارکنگ بنائی جاتیں۔ اس کا ایک دوسرا حل یہ بھی تھا کہ ان پلازوں کے غیرقانونی حصوں کو قبضے میں لے کر وفاقی اور صوبائی محکموں کے وہ دفاتر جو کرائے کی مہنگی کوٹھیوں میں قائم کیے گئے ہیں انہیں ان پلازوں میں منتقل کر دیا جاتا اور اس طرح کرائے کی مد میں ادا کئے جانیوالے اربوں روپے سالانہ کی بچت کی جا سکتی تھی۔ ایک طرف تو لاہور اور اس کے شہری بارود اور خودکش دھماکوں کی زد میں ہیں اور دوسری طرف لاہور کے حسن کو بگاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ میری میاں شہباز شریف صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن ہماری انتخابی حریف ہے اگر وہ اسی طرح کی فاش غلطیاں کرتی رہی تو آئندہ آنے والا الیکشن اپنے حریفوں کے لیے آسان بنا دے گی۔لیکن یہ وقت اس طرح کی سیاسی خودغرضی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے میری میاں شہباز شریف صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اس وقت پنجاب کے سب سے بڑے مسئلے پر غور کریں اور ان جرائم کے پیچھے جو ہاتھ ملوث ہیں چاہے وہ مرکھپ چکے ہیں یا اپنی زندگی کے بقایا ایام امریکہ اور برطانیہ میں جائیدادیں خرید کر گزار رہے ہیں ان کرپٹ بیوروکریٹس ،ایل ڈی اے کے سابق ایم ڈی و چیئرمین حضرات کا کڑا احتساب کیا جائے اور لاہور کے سابق میئر کو احتساب کے اس کڑے عمل سے گزارا جائے جو آٹھ سال لاہور کے میئر رہے یہ سب کچھ ان کی نظروں کے سامنے اور اقتدار کی چھتری تلے ہوتا رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور میں پچھلے تین عشروں سے تجاوزات کی بھرمار رہی ۔ لاہور کی سڑکیں ٹریفک کے لیے ناکافی ثابت ہونے لگیں پنجاب کے مرکز لاہور کو جو کہ میٹروپولیٹن اورباغوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ وہ کرپٹ بیوروکریٹس،موسمی سیاستدانوں اور لینڈ مافیا کے رحم کرم پرآ گیا۔ مشرف کے آمرانہ دور میں کوئی خالی پلاٹ حکمرانوں کی للچائی نظروں سے نہ بچ سکا۔ جگہ جگہ پلازے پھوٹ پڑے قانون کی دھجیاں سرعام دیدہ دلیری سے اڑائی گئیں۔ ایل ڈی اے نے اپنے کرپٹ افسروں کی وجہ سے کرپشن کا بازار گرم کیے رکھا اور قانون و ضوابط کامذاق اڑاتے رہے۔ پلازوں کے تہہ خانوں کی پارکنگ کو دکانوں میں تبدیل کرکے بیچ دیا گیا۔لاہور میں تجاوزات صرف آٹھ سال سے نہیں بلکہ 30سال سے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھیں۔ اس دوران جتنے بھی وزرائے اعلیٰ نے لاہور کے تخت کو رونق بخشی وہ قبضہ مافیا کی فصل کی آبیاری کرتے رہے۔ یقینا یہ سب ناجائز تھا۔ مگر آج پاکستان کے معروضی اور معاشی حالات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق غیرقانونی پلازوں اورعمارتوں کو گرانے کے عمل میں لاہوریوں اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو 7کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس معاشی بدحالی میں پنجاب کا دل لاہور اس نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پچھلے دو عشروں میں سمندرپار پاکستانیوں نے پاکستان میںکھربوں روپے کی سرمایہ کاری کی، ان کا اصل ہدف ریئل سٹیٹ تھا کیونکہ دیارغیر بسنے والے لاکھوں پاکستانیوں نے ہمارے محترم سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے پروگرام ”قرض اتارو ملک سنوارو“ کے تحت اربوں ڈالر پاکستان بھجوائے، پھر جب ان کے اکاﺅنٹ منجمد کیے گئے تو اس صدمے کے بعد دوسرے ممالک میں موجود پاکستانیوں نے ریئل اسٹیٹ میں انویسٹمنٹ کو زیادہ محفوظ سمجھ لیا۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس دوران جتنے پلازے اور کمرشل بلڈنگز تعمیر ہوئیں ان میں 80فیصد سرمایہ کاری سمندر پار پاکستانیوں کی تھی جو مجھ جیسے کالم نویسوں کو فون کرکے اپنی بربادی کا حال سنائے چلے جاتے ہیں۔ کب تک ارضِ پاک کے لیے قربانی کے نام پر پاکستان میں بسنے والے اور اووسیز پاکستانی اسی طرح لٹتے رہیں گے۔ دل ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر کڑھتا تو بہت ہے مگر میں الفاظ کی تلوار سے حکمرانوں کے عزائم کے سامنے سدراہ نہیں بن سکتا۔ ان غیرقانونی تجاوزات کو گرانے کے بجائے حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پلازہ مالکان کو بھاری جرمانے کرتی اور ان رقوم سے شہر میں جگہ جگہ کارپارکنگ بنائی جاتیں۔ اس کا ایک دوسرا حل یہ بھی تھا کہ ان پلازوں کے غیرقانونی حصوں کو قبضے میں لے کر وفاقی اور صوبائی محکموں کے وہ دفاتر جو کرائے کی مہنگی کوٹھیوں میں قائم کیے گئے ہیں انہیں ان پلازوں میں منتقل کر دیا جاتا اور اس طرح کرائے کی مد میں ادا کئے جانیوالے اربوں روپے سالانہ کی بچت کی جا سکتی تھی۔ ایک طرف تو لاہور اور اس کے شہری بارود اور خودکش دھماکوں کی زد میں ہیں اور دوسری طرف لاہور کے حسن کو بگاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ میری میاں شہباز شریف صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن ہماری انتخابی حریف ہے اگر وہ اسی طرح کی فاش غلطیاں کرتی رہی تو آئندہ آنے والا الیکشن اپنے حریفوں کے لیے آسان بنا دے گی۔لیکن یہ وقت اس طرح کی سیاسی خودغرضی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے میری میاں شہباز شریف صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اس وقت پنجاب کے سب سے بڑے مسئلے پر غور کریں اور ان جرائم کے پیچھے جو ہاتھ ملوث ہیں چاہے وہ مرکھپ چکے ہیں یا اپنی زندگی کے بقایا ایام امریکہ اور برطانیہ میں جائیدادیں خرید کر گزار رہے ہیں ان کرپٹ بیوروکریٹس ،ایل ڈی اے کے سابق ایم ڈی و چیئرمین حضرات کا کڑا احتساب کیا جائے اور لاہور کے سابق میئر کو احتساب کے اس کڑے عمل سے گزارا جائے جو آٹھ سال لاہور کے میئر رہے یہ سب کچھ ان کی نظروں کے سامنے اور اقتدار کی چھتری تلے ہوتا رہا۔