خوف الٰہی کی چادر اور چربی والا جانور 

Feb 02, 2025

طلعت عباس خان

خوف خدا پر لمبی تقریر سننے کے بعد مجمع میں سے کسی نے سوال پوچھا !!مولانا صاحب سب سے کم چربی والا کون سا جانور ہے؟ اس سے قبل ہم اس دینی اجتماع کی طرف لوٹیں پہلے بابا کرمو سے اس سوال پر بتصرہ لیتے ہیں۔ پوچھا گیا وہ کون سے لوگ ہیں جن کی آنکھوں میں چربی  چڑی ہوتی ہے۔کیا ایسے وہ لوگ ہیں جن میں حلال حرام کی تمیز نہیں ہوتی۔ بابا کرمو کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کھاتے ہی حرام ہیں جس سے یہ بے حیا، بے شرم اور احسان فراموش بن جاتے ہیں۔ اقتدار کی کرسی پر یہ بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران مولانا صاحب نے بابا جی سے ابتدائی سوال کا جواب پوچھا، انہوں نے سوال میں ہی  ایک جانور کا غلط نام لیا !! پھر سوال کرنے والے نے بتایا کہ جانوروں میں سب سے کم چربی ہرن میں پائی جاتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اسے ہر وقت چیر پھاڑ کرنے والے جانوروں کا خوف رہتا ہے۔ جان کا خطرہ رہتا ہے حتیٰ کہ وجہ سے جب وہ پانی پیتا ہے تو کئی مرتبہ ارد گرد نظر دوڑاتا ہے، کہ کہیں کسی کا شکار نہ بن جاؤں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ڈر کی وجہ سے چربی نہیں بن پاتی۔ پھر کہا اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو آپ نے خوف خدا پر تو بڑی زبردست تقریر کی لیکن آپ کی گردن چربی کی وجہ سے مڑتی نہیں ہے۔ اللہ کا ڈر ہوتا تو یہ چربی دکھائی نہ دیتی۔ لہذا مجھے آپ کی تقریر سے اتفاق نہیں ہے۔ اس کے بعد میں گھر چلا آیا معلوم نہیں پھر یہ محفل جاری رہی یا۔۔۔۔۔ یاد آیا کہ دنیا بھر میں ایک ایسا جانور بھی ہے جس کا نام لینے سے زبان پاک نہیں رہتی۔اس کا بھی اگر برا نہ منائیں تو کچھ لکھ دیتا ہوں۔شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔ ہمارے یہاں فارن کی اشیا پسند کی جاتیں ہیں پھر کھائی بھی جاتی ہیں اور استعمال بھی کی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں نا پاک جانور سور کی فارمنگ کیوں کی جاتی ہے کہ اس کا گوشت کھاتے ہیں اور چربی سے بہت سی اشیا بنتی ہیں۔ یورپ سمیت تقریبا تمام امریکا میں گوشت کے لئے بنیادی انتخاب یہی جانور  ہے۔ اس جانور کو پالنے کے لئے ان ممالک میں بہت سے فارم ہیں۔ صرف فرانس میں ، پگ فارمز کا حصہ ہزاروں میں ہے۔ کسی بھی جانور کے مقابلے میں سور میں زیادہ مقدار میں چربی ہوتی ہے۔ لیکن شروع میں یورپی و امریکی اس مہلک چربی سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔اس چربی کو ٹھکانے لگانا ان ممالک کے محکمہ خوراک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس چربی کو ختم کرنا محکمہ خوراک کا بہت بڑا درد سر تھا۔اسے ختم کرنے کے لیئے باضابطہ طور پر اسے جلایا جاتا تھا۔ ستر سال بعد انہوں نے پھر اس کے استعمال کے بارے میں سوچا کہ پیسے بھی کمائے جا سکیں۔ لہذا صابن بنانے میں ان کا تجربہ کامیاب رہا۔شروع میں اس جانور کی چربی سے بنی مصنوعات پر تفصیل سے اس کی چربی کا واضح طور پر لیبل پر درج کیا جاتا تھاچونکہ ان کی مصنوعات کے بڑے خرہدار مسلمان ممالک ہیں اور ان ممالک کی طرف سے ان مصنوعات پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس سے ان کو تجارتی خسارہ ہوا۔ 1857 میں اس وقت رائفل کی یورپ میں بنی گولیوں کو برصغیر میں سمندر کے راستے پہنچایا گیا۔ سمندر کی نمی کی وجہ سے اس میں موجود گن پاؤڈر خراب ہوگیا اور گولیاں ضایع ہو گئیں۔اس کے بعد وہ سور کی چربی  گولیاں پر لگانے لگے۔ گولیوں کو استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے اس چربی کو نوچنا پڑتا تھا۔ جب یہ بات پھیل گئی کہ ان گولیوں میں سور کی چربی کا استعمال ہوا ہے تو فوجیوں نے جن میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سبزی خور ہندو بھی تھے اس اسلحہ سے لڑنے سے انکار کردیا۔ یورپی باشندوں نے ان حقائق کو پہچان لیا اور اس کی چربی لکھنے کے بجائے انہوں نے FIM لکھنا شروع کر دیا۔1970کے بعد سے یورپ میں رہنے والے تمام لوگ حقیقت کو جانتے ہیں کہ جب ان کمپنیوں سے مسلمان ممالک نے پوچھا کہ یہ کیا ان اشیا کی تیاری میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ھے اور اگر ھے تو کون سی ہے...؟تو انہیں بتایا گیا کہ ان میں گائے اور بھیڑ کی چربی ہے۔ یہاں پھر ایک اور سوال  اٹھا کہ اگر یہ گائے یا بھیڑ کی چربی ہے تو پھر بھی یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے، کیونکہ ان جانوروں کو حلال طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا تھا۔اس طرح ان پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی۔ اب ان کثیر القومی کمپنیوں کو ایک بار پھرنقصان کاسامنا کرنا پڑا تھا۔ آخر کار انہوں نے کوڈڈ زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ، تاکہ صرف ان کے اپنے محکمہ فوڈ کی ایڈمنسٹریشن کو ہی پتہ چل سکے کہ وہ کیا استعمال کر رہے ہیں اور عام آدمی اندھیرے میں ہی  رہے۔ اس طرح  انہوں نے ای کوڈز کا آغاز کیا۔ای کی شکل میں کثیر القومی کمپنیوں کی مصنوعات پر لیبل کے اوپر لکھی جاتی ہیں، ان مصنوعات میں دانتوں کی پیسٹ، ببل گم، چاکلیٹ، ہر قسم کی سوئٹس  بسکٹ کارن فلاکس،ٹافیاں کینڈیڈ فوڈز ملٹی وٹامنز اور بہت سی ادویات میں اس جانور کی چربی شامل ہے چونکہ یہ اشیا تمام مسلم ممالک میں اندھا دھند استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے اجزاء￿  کے استعمال سے ہمارے معاشرے میں بے شرمی، بے بے غیرتی بے رحمی اور جنسی استحصال کارحجان دیکھنے کو مل رہا ھے۔ لہذا  تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ ان اشیا سے اجتناب کریں کہ وہ روزانہ استعمال ہونے والے اشیا کی خریداری  کرتے وقت ان کے اجزا کی فہرست کو لازمی  چیک کرلیا کریں اور ای کوڈز کی فہرست اپ کی نذر ہے۔ اگر نیچے دیئے گئے اجزاء کے نمبروں میں کسی  اشیا میں یہ پائے جاتے ہوں تو پھر اس سے یقینی طور پر استعمال کرنے سے بچیں، کیونکہ اس میں سور کی چربی کسی نہ کسی حالت میں شامل ہے۔ کوڈز یہ ہیں E100 ، E110 ، E120 E140 ، E141 ، E153 ، E210 ، E213 ، E214 ، E216 ، E234 ، E252 ، E270 ، E280 ، E325 ، E326 ، E 327 ، E334 ، E335 ، E336 ، E337 ، E422 ، E41 ، E431 ، E432 ، E433 ، E434 ، E435 ، E436 ، E440 ، E470 ، E471 ، E472 ، E473 ، E474 ، E475 ، E476 ، E477 ، E478 ، E481 ، E482 ، E483 ، E491 ، E492 ، E493 ، E494 ، E549 ، E542 E572 ، E621 ، E631 ، E635 ، E905
جن اشیا میں یہ کورڈ نمبر شامل ہوں تو احتیاط کریں۔کہا جاتا ہے امریکہ میں اگر کچھ عرصہ کوئی شخص گزار آتا ہے تو وہاں کی لائف اتنی مصروف ہے کہ کسی کے پاس وقت نہیں کہ دیکھ لے پڑھ لے کہ وہ کیا کھا رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایسا شخص دس سال کے دوران نہ نہ کرتے بھی ایک شخص سور کھا آتا ہے۔ اب تو لگتا ہے ہمارے پاس یہاں بھی لائف اتنی مصروف ہو چکی ہے کہ فارن سے  امپورٹ شدہ کھانے پینے کی چیزوں کو  پڑھ ہی لے کہ اس میں کیا کیا چیزیں شامل کر رکھی ہیں تو بچ سکتے ہیں مگر ایسا کرنے کے لئے وقت ہی نہیں اور  کھا جاتے ہیں استعمال کر لیتے ہیں۔ پلیز اایسا نہ کریں، احتیاط کریں، استعمال سے پہلے یہ کورڈ دیکھ لیا کریں۔حلال کی کمائی حلال کی چیزیں کھانے سے انسان میں غیرت رہتی ہے ورنہ جاتی رہتی ہے۔

مزیدخبریں