مقبول جلیس کی یہ دعا تو رب رحیم و کریم نے قبول کرلی کہ کلیم عثمانی پر رحم کردیا اور انہیں طویل علالت کے دکھوں اور تکلیفوں سے رہائی دے دی۔ مقبول جلیس نے خط میں کلیم عثمانی کی خدمت میں سلام لکھا ہے یہ سلام اب ان کی روح کو پہنچے، اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، آمین۔
مقبول جلیس کوئی دو سال قبل ہمارے دفتر میں تشریف لائے تھے، میں نے ان دونوں بزرگوں کی ملاقات کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا، دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر دوسرے کی صحت پر پریشانی کا اظہار کیا۔ مقبول جلیس کے جسم سے تو سارا گوشت غائب ہوچکا تھا اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے تھے۔ کلیم صاحب نے بہت ہی دکھ اور تعجب کے ساتھ مقبول جلیس کو دیکھا اور کہا، ’’یار مقبول ! تمہیں کیا ہوگیا ہے‘‘۔ مقبول جلیس نے کہا، ’’ اب تو میں بہت صحت مند ہوں میری صحت تو اس سے بھی زیادہ خراب ہوچکی تھی‘‘۔ پھر دونوں اصحاب نے ان دنوں کی یادوں کو تازہ کیا جب مقبول جلیس فلموں کے لئے کہانیاں لکھتے تھے اور کلیم عثمانی فلموں کے لئے نغمات لکھتے تھے اور کہانی نویس اور نغمہ نگار کی حیثیت سے دونوں کا نام کسی نئی فلم کی کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا۔ پھر دونوں نے اپنی اپنی وجوہ کی بنا پر فلمی دنیا کو خیرباد کہہ دیا، مقبول جلیس نے پہلے پاکستان پریس انٹر نیشنل (پی پی آئی) کے ہفتہ وار جریدے ’’پیمان‘‘ کی ادارت کی اور پھر روزنامہ ’’آغاز‘‘ کراچی میں کالم لکھنے لگے اور بعض مقامی ماہناموں اور ہفت روزوں میں بھی ان کی یادداشتیں شائع ہونے لگیں۔ کلیم عثمانی نے بھی پاکستان بننے کے بعد لاہور میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی کی ملازمت کی اور چند سال بعد جب کمپنی نے اپنا لاہور دفتر بند کرکے اس کے کارکنوں کو کراچی منتقل ہونے کا آپشن دیا تو کلیم عثمانی نے، جن کے خاندان کے بیشتر اصحاب کراچی میں رہائش رکھتے تھے اپنے عزیز ترین دوست زکی کیفی سے قریبی تعلق کے باعث لاہور میں رہنے کا فیصلہ کیا اورپاکستان ٹوبیکو کمپنی کی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور اس کے بعد سے انہوں نے سالہاسال کوئی باقاعدہ ملازمت نہیں کی اور ان کی گزر بسر کا واحد ذریعہ قلم مزدوری تھا، مشاعروں میںشرکت، پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے لئے ترانے اور نغمے، ہر شخص آسانی کے ساتھ اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ غیر یقینی ذرائع آمدنی ایک کنبہ کی کفالت کے تقاضے کیسے پورے کرسکتے تھے۔ 22 اگست 1980ء کو جب روزنامہ ’’وفاق‘‘ سے میری علیحدگی عمل میں آئی تو کلیم عثمانی کے ساتھ رشتہ اخوت اور زیادہ مستحکم ہوگیا، وہ تواتر اور تسلسل سے دفتر ’’تجارت‘‘ میں آتے تھے، اس وقت روزنامہ ’’جرأت‘‘ کا اجراء عمل میں نہیں آیا تھا، قارئین کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ کلیم عثمانی ایک عرصہ تک روزنامہ ’’تجارت‘‘ کا اداریہ بھی لکھتے رہے حتیّٰ کہ جب وہ سروس انڈسٹریز کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی ایگزبٹس لمیٹڈ میں چلے گئے اور ان کی وہاں مصروفیات بہت بڑھ گئیں تب بھی وہ ’’تجارت‘‘ کا اداریہ لکھتے چلے گئے۔ ’’تجارت‘‘ کے لئے اداریہ لکھنے کا سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب میں نے ’’جرأت‘‘ کے اجراء کے بعد ان پر زور دیا کہ وہ ’’جرأت‘‘ کے لئے قطعہ بھی لکھا کریں۔ وہ وعدہ تو بڑی خوشی سے کرلیتے تھے مگر ان کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں میں ان کے لئے یہ فرمائش پوری کرنا بہت مشکل تھا۔ تب میں نے انہیں پیشکش کی کہ وہ تجارت کا اداریہ نہ لکھیں اور صرف ’’جرأت‘‘ کے لئے قطعہ عنایت فرمادیا کریں۔ اس طرح اداریہ نویسی سے ان کی جان چُھوٹی۔ یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اہل وطن کو یہ اندازہ ہوسکے کہ ہمارے اہل قلم اور اصحاب فکرودانش کو جسم اور روح کا رشتہ استوار رکھنے کے لئے کن مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جناب کلیم عثمانی میرے ایک ایسے دوست تھے جو صرف میرے مداح ہی نہیں تھے بلکہ بے رحم ناقد بھی تھے، کچھ عرصہ قبل ’’جرأت‘‘ اور ’’تجارت‘‘ کے کارکنوں کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہونے لگی تو انہوں نے قدرے غصہ کے لہجہ میں کہا، ’’جمیل صاحب یہ کیا ہونے لگا ہے، کارکنوں کو تنخواہیں وقت پر ملنی چاہئیں یہ آپ کی ذمہ داری ہے، اس میں کسی بھی وجہ سے تاخیر نہیں ہونی چاہئیے‘‘۔ میں نے کلیم صاحب کی بات پلے باندھ لی اور تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا علاج کرنے میں مصروف ہوگیا۔ الحمد للہ اس کے بعد تنخواہوں کی ادائیگی میں باقاعدگی آگئی یقینا اس کا ثواب کلیم عثمانی کی روح کو پہنچے گا۔
چندماہ قبل پنجاب کے وزیر اطلاعات جناب شفقت محمود کی مہربانی سے روزنامہ ’’تجارت‘‘ لاہور، گوجرانوالہ، سرگودھا اور روزنامہ ’’جرأت‘‘ لاہور، راولپنڈی/ مظفرآباد کے اشتہارات میں خاصی کمی کردی گئی اور ماہنامہ ’’ویمن ٹائمز‘‘ کے اشتہارات بالکل بند کردئیے گئے اور یہ اقدام انہوں نے عین اس وقت کیا جب میری اہلیہ سرطان کے عارضہ میں مبتلا ہو کر جدائی کا داغ دے گئی تھیں، جناب شفقت محمود بھی ازراہ کرم میری اہلیہ کے سانحہ ارتحال پر تعزیت کے لئے تشریف لائے تھے جس کے لئے میں ان کا بے حد ممنون تھا اور ہوں، لیکن اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا کہ میرے اخبارات ان کی ’’شفقت‘‘ کی زد میں آگئے اور اب تک ’’تجارت‘‘ اور ’’جرأت‘‘ کے اشتہارات میں غیر معمولی کٹوتی کا سلسلہ جاری ہے۔
خیر اس موضوع کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں، ذکر ہورہا تھا کلیم عثمانی کا ، میں نے مالی مسائل کے شدید دبائو میں بعض رفقاء کار کی خدمات کا سلسلہ منقطع کرنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلہ کی زد میں کلیم عثمانی بھی آگئے اور میرے چہیتے کالم نویس نور نبی نور بھی، جناب نور نبی نور کو سبکدوش کرنے کے نہایت تکلیف دہ فیصلہ سے انہیں میرے بیٹے عرفان اطہر ایڈیٹر ’’جرأت‘‘ نے آگاہ کیا اور جب وہ الوداعی ملاقات کے لئے میرے پاس آئے تو میری آنکھیں افسوس اور ندامت سے جھکی ہوئی تھیں اور مجھ میں نور صاحب کا سامنا کرنے کا یارا نہ تھا، کلیم صاحب کو یہ اطلاع دو سطروں کے ایک خط کے ذریعے دی گئی اور اس کے بعد ہمارے مابین خاموشی چھاگئی اور مجھ پر ایک سناٹے کا عالم طاری رہا، ایک ہفتہ تک تو میرا دماغ یہ ذہنی بوجھ برداشت کرتا رہا بالآخر اس نے ہتھیار ڈال دئیے، میں نے کلیم صاحب کو گھر پر فون کیا اور عرض کیا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہورہاہوں آپ میرے ساتھ دفتر ’’جرأت‘‘ چلنے کے لئے تیار رہیں،
…………………… (جاری)
میں کلیم صاحب کی رہائش گاہ 85 سکندر بلاک، اقبال ٹائون پہنچا۔ کلیم صاحب میرے منتظر تھے میں نے انہیں گاڑی میں اپنے ساتھ بٹھایا۔ سارا راستہ ہمارے درمیان کسی ایک جملے کا تبادلہ نہیں ہوا۔ دفتر پہنچ کر میں نے کلیم عثمانی سے اپنے خط پر دست بستہ معافی چاہی اور ان سے عرض کیا کہ مالی مشکلات یقینا بہت ہیں مگر آپ کا اور میرا ساتھ تو ازلی اور ابدی ہونا چاہئے۔ اگر ادارہ سے میری اپنی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں تو آپ کی وابستگی بھی جاری رہنا چاہئے۔ آپ مجھے معاف فرمادیں اور ’’جرأت‘‘ کے لئے قطعہ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ کلیم صاحب نے نہایت نحیف آواز میں کہا، ’’جمیل صاحب آپ جو کچھ مجھے دیتے ہیں وہ آپ کو علم ہی ہے مگر آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اس سے میرے کون کون سے بل ادا ہوتے ہیں‘‘۔ خدا گواہ ہے کہ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے نہ صرف کلیم عثمانی سے دوبارہ معافی مانگی بلکہ نور نبی نور صاحب کو بھی مزید مالی بحران کے باوجود دوبارہ ادارہ ’’جرأت‘‘ سے وابستگی کی دعوت دی۔
میں کلیم عثمانی کے عرصہ علالت میں بہت کم ان کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے ان کے بیٹے اور اپنے بھتیجے ہارون کلیم کو اعتماد میں لے کر بتادیا تھا کہ کلیم صاحب شدید علالت کے باعث جسمانی طور پر جس ضعف اور اضمحلال سے گزر رہے ہیں میرے اندر اس حالت میں انہیں دیکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ ان کی رحلت سے تقریباً دو ہفتے قبل جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو مجھے دیکھتے ہی وہ بستر سے اٹھے اور بستر پر ہی مجھے گلے لگایا اور کہنے لگے، ’’جمیل صاحب میری عیادت کے لئے آنے والوں کا دن بھر تانتا بندھا رہتا ہے مگر آپ کو اپنے پاس دیکھنے کے لئے میری آنکھیں دن بھر دروازے پر لگی رہتی ہیں۔ یہ تھے جناب کلیم عثمانی اور ان کی محبتیں میں اور مقبول جلیس اب انہیں کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کی چھتری تان دے اور ان کی روح کو تا ابد آسودہ رکھے اور ان کی قدر و منزلت کے تقاضے پورے کرنے میں ہم سے جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کے لئے ہمیں معاف فرمادے۔ آمین
(4)
آج کا کالم بزرگ صحافی، دانش ور اور کالم نویس جناب مقبول جلیس کی نذر ہے وہ اپنے گرامی نامہ میں لکھتے ہیں۔
گرامی قدر محترم جمیل اطہر
السلام علیکم
ہمارے مشترک دوست کلیم عثمانی کے باب میں آپ کے کالم ’’جرأت‘‘ میں پابندی سے پڑھ رہا ہوں۔ جن میں جذبوں کی صداقت زیادہ اور ’’پیشہ ور کالم نویسوں‘‘ کی طرح الفاظ کی بازی گری کم ہے۔ میں پوری دیانت داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اس بھری دنیا میں آپ کلیم عثمانی کے واحد دوست و غم خوار ثابت ہورہے ہیں۔ کلیم عثمانی مرزا اسداللہ خان غالب کی طرح ’’مردم گزیدہ‘‘ تھا۔ اسی لئے تو آپ کی تحریروں سے اندازہ ہوا کہ اس خوددار نے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔
دوستی، انسانیت، رواداری، شرافت اور قناعت پسندی سب پر سے اس کا اعتماد اٹھ گیا تھا مگر اس کے باوجود کلیم عثمانی نے اپنی وضع بدلی نہ اپنے اقدار سے ناطہ توڑا۔ اس مردم گزیدہ شخص نے پھر بھی ’’سانپوں‘‘ کے درمیان رہ کر پیار کی دولت لٹانے میں کم ظرفی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
گرامی قدر
میں گذشتہ دو ہفتوں سے اس دور سے گزررہا ہوں کہ نہ اپنے آپ کو صحت مند کہہ سکتا ہوں نہ بیمار۔ یوں جانئے کہ اک پل صراط سے گزر رہا ہوں اور اس سفر میں خود اپنے کندھے پر سوار ہوں۔ البتہ کالم نویسی کی بے گار سے کچھ وقت نکال کردس بارہ سطریں کلیم عثمانی (مرحوم) کے بارے میں اپنی تیس برسوں کی رفاقت اور یادوں کے سہارے لکھتا جارہا ہوں۔ کیا عرض کروں کہ وہ شخص ایک کتاب کی طرح مختلف ادوار لئے ورق ورق میرے سامنے آتا جاتا ہے اور اپنی مخصوص شریفانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہتا جاتا ہے۔
’’یار مقبول… تجھے فلاں محفل یاد ہے‘‘
وہ محفل کیا یاد آتی ہے کہ یادوں کی ایک بارات سی چل پڑتی ہے۔ قلم کی سست رفتاری ذہن کی تیزی کا ساتھ نہیں دے پاتی۔ کلیم عثمانی تو ایسی کتاب ہے کہ جس کا ہر ورق بجائے خود ایک کتاب ہے۔
میں اس کی شاعری، فلمی نغمہ نگاری اور قومی ترانوں کے بارے میں کیا لکھ سکتا ہوں۔ نقاد ہوں نہ سخن فہم۔ صرف اس کا طرف دار پہلے بھی تھا اورتا دمِ مرگ رہوں گا۔ یہ طویل مضمون جوں ہی مکمل ہوگا میں انشاء اللہ آپ کی خدمت اور روزنامہ ’’جرأت‘‘ کے قارئین کی نذر کروں گا۔
’’جرأت‘‘ کے تازہ شمارے میں صفحہ اول پر ایک اشتہار نظر سے گزرا … ماہنامہ ’’پاسبان وطن‘‘… جو کہ آپ کلیم عثمانی کی یاد میں بچوں کے لئے شائع کرنا چاہتے ہیں۔ اس ماہنامے کا نہ صرف انتظار ہے بلکہ زندگی بخیر میں اس کے لئے ہر ماہ لکھتا رہوں گا۔ یہ بچوں کے لئے آسان ترین زبان میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہوں گی، جس کا عنوان ہوگا… ’’کوا کہانی‘‘۔
طارق عزیز اور سہام مرزا نے جب ’’بچوں کا رسالہ‘‘ کراچی سے شائع کرنا شروع کیا تھا تو میری ان کہانیوں کا سلسلہ بہت مقبول ہوا تھا۔
رات کے دو بجے ہیں اور بقول زیڈ اے بخاری
’’نہ تصور کوئی بندھتا ہے نہ نیند آتی ہے‘‘
اس لئے آپ کو بھی جگا رہا ہوں۔
مخلص
مقبول جلیس
کلیم عثمانی کو منگل کی صبح منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا اور اس کے ساتھ توکل، قناعت اور فقر و درویشی کا ایک حسین پیکر سپردِ خاک ہوگیا۔ کلیم عثمانی سے پہلی ملاقات شاید 1965ء کے لگ بھگ انار کلی میں واقع ادارہ اسلامیات میں جناب زکی کیفی کے ہاں ہوئی جہاں عصر کے بعد ہم خیال صحافی، ادیب اور شاعر چائے کی پیالی پر اکٹھے ہو جاتے تھے لیکن کلیم عثمانی کا نام ریڈیو کے مشاعروں میں خوبصورت ترنم کے ساتھ ان کی غزل گوئی کے حوالے سے ذہن میں محفوظ تھا اور جب پہلی باران کے ساتھ نشست ہوئی تو اجنبیت اور غیریت کا کوئی شائبہ اس میں نہ تھا۔ پھر زکی کیفی صاحب کے گھر ’کاشانۂ زکی‘ میں منعقد ہونے والی شعری نشستوں میں بھی شریک ہونے کا موقع ملا۔ کلیم عثمانی اور زکی کیفی کا دیوبند میں بچپن سے ہی دوستانہ اور برادرانہ رشتہ تھا اور دونوں میں خیالات اور تصورات کا اشتراک اکثر دیکھنے میں آتا تھا۔ روزنامہ ’’وفاق‘‘ 1970ء میں جب شام کے اخبار سے صبح کے اخبار میں تبدیل ہوا تو زکی کیفی نے مصطفٰی صادق اور میری درخواست پر وفاق میں قطعہ لکھنا شروع کیا۔ زکی کیفی مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع کے صاحبزادے اور مولانا محمد رفیع عثمانی اور مولانا محمد تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے اور اس حوالے سے اپنا مخصوص دینی اور نظریاتی تشخص رکھتے تھے۔ ان کے قطعات میں بھی ان کا انفرادی تشخص پوری طرح نمایاں ہوتا تھا۔ فریضۂ حج کی ادائیگی سے واپس وطن پہنچنے کے چند روز بعد زکی کیفی اچانک دل کا دورہ پڑنے سے داعیٔ اجل کو لبّیک کہہ گئے۔ ان کی رحلت کے بعد ’’وفاق‘‘ میں قطعہ لکھنے کے لئے جناب کلیم عثمانی سے درخواست کی گئی جو انہوں نے کسی پس و پیش کے بغیر قبول کر لی۔ کلیم عثمانی ٹیلی فون پر روزانہ مجھے قطعہ لکھواتے تھے یہ تعلق ان کے ساتھ گہرے دوستانہ اور برادرانہ رشتوں کا باعث بنا۔ اگست 1980 ء میں جب روزنامہ ’’وفاق‘‘ سے میرا بائیس سال پر محیط تعلق ختم ہوا اور میں نے 14 ایبٹ روڈ لاہور سے روزنامہ ’’تجارت‘‘ کے دورِ نوکا آغاز کیا تو میں بہت پریشان اور افسردہ تھا اور ’’تجارت‘‘ کے مستقبل کے حوالے سے وسوسوں کا شکار تھا، ایک روز اسی پریشانی کے عالم میں رُستم پارک ملتان روڈ پر واقع ان کی رہائش گاہ پر گیا اور دورانِ گفتگو میری آنکھیں پُر نم ہوگئیں تو کلیم عثمانی نے مجھے حوصلہ دیا، میری ہمت بندھائی اور مجھے پریشانی اور افسردگی کے سمندر سے باہر نکالا، وہ دن اور ان کی علالت سے پہلے تک کے لمحات ’’تجارت‘‘ اور ’’جرأت‘‘ کے دفاتر میں میرا کمرہ جناب کلیم عثمانی کی مستقل نشست گاہ بن گیا، ان کے بزرگ دوست سید محمد نواز شاہ ’’سروس‘‘ انڈسٹریزکی ایڈورٹائزنگ ایجنسی ایگزبٹس لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے جب ’’سروس‘‘ والوں نے ’’سروس‘‘ کے نام سے ایک ماہانہ جریدہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا تو سید محمد نواز شاہ نے چودھری نذر محمد اور چودھری محمد حسین کی منظوری سے جن کے حلقۂ احباب میں کلیم عثمانی بھی شامل تھے ماہنامہ ’’سروس‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں کلیم عثمانی کو سونپ دیں۔ کلیم صاحب نے ’’سروس‘‘ کی ادارت اس شرط پر قبول کی کہ وہ سارا کام ’’تجارت‘‘ اور ’’جرأت‘‘ کے دفتر میں بیٹھ کر ہی انجام دیں گے اور ’’سروس‘‘ یا ایگزبٹس کے دفاتر سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ سید محمد نواز کی رحلت تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور ’’تجارت‘‘ و ’’جرأت‘‘ کے کارکن کلیم عثمانی سے ’’سروس‘‘ کی ادارتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھرپورتعاون کرتے رہے۔ سید محمد نواز کی عارضہ قلب کے باعث رحلت کے بعد ’’سروس‘‘ انڈسٹریز کے مالکوں نے بڑے اصرار کے ساتھ اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسی ایگزبٹس کا مدارِ المہام بھی کلیم عثمانی کو مقرر کردیا اس طرح نہ چاہتے ہوئے بھی کلیم صاحب ’’تجارت‘‘ اور ’’جرأت‘‘ کے دفاتر سے رخصت ہو کر شاہراہِ قائد اعظم پر شیزان ہوٹل کے ساتھ واقع ایگزبٹس کے دفتر میں بیٹھنے لگے اور ان کے زیرِ ادارت ماہنامہ ’’سروس‘‘ ایک مکمل ادبی جریدہ میں تبدیل ہوگیاجس میں ملک کے نامور شعراء کا کلام شائع ہونے لگا اور ادیبوں کے رشحات فکر اس میں جگہ پانے لگے۔ کلیم عثمانی نے ’’سروس‘‘ انڈسٹریز کی تشہیری مہموں کو منظّم کیا اور انہیں نئے قالب میں اس طرح ڈھالا کہ ناظرین کے ذہنوں کو مسخر کرسکیں، ان کاوشوں کی بنا پر کلیم عثمانی اور ایگزبٹس ایڈورٹائزنگ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بن کر رہ گئے مگر بُرا ہو کاروباری اور تجارتی اغراض اور مفادات کا۔ نواز شریف کی وزارتِ عظمٰی کے دوسرے دور میں جب سعید مہدی نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بن گئے تو ’’سروس‘‘ انڈسٹریز والوں کو سعید مہدی کے ذریعے نواز شریف سے اپنے تعلقات کی استواری کا خیال آیا اور پھر یکا یک سعید مہدی کے بھائی جناب علی محتشم کو ایگزبٹس لمیٹڈ کا چیف ایگزیکٹو اور ماہنامہ ’’سروس‘‘ کا چیف ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا جناب کلیم عثمانی کو جنہوں نے ایگزبٹس اور ماہنامہ ’’سروس‘‘ کو اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا اور جو چودھری نذر محمد اور چودھری محمد حسین کے ذاتی دوست شمار ہوتے تھے، ان چودھری صاحبان کے صاحبزادوں نے کسی رسمی نوٹس کے بغیر ان کے منصب سے الگ کردیا، کلیم عثمانی نہایت خاموشی کے ساتھ ماہنامہ ’’سروس‘‘ اور ایگزبٹس کے دفتر سے اٹھ کرگھر چلے گئے اور کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے۔ نواز شریف کے اقتدار میں ہی علی محتشم کو زیادہ پُر کشش سرکاری ملازمت مل گئی اور ایگزبٹس اور ماہنامہ ’’سروس‘‘ کا اس کے ساتھ ہی نام و نشان مٹ گیا۔
ان کی اہلیہ اور بیٹے ہارون کلیم نے بہت کوشش کی کہ ’’سروس‘‘ سے علیحدگی کا زخم مندمل ہو جائے اور وہ معمول کی زندگی شروع کر سکیں۔ میں نے انہیں روزنامہ ’’جرأت‘‘ میں ڈپٹی ایڈیٹر اور ماہنامہ ’’ویمن ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی درخواست کی، اداریہ تحریر کرنے کی بھی پیش کش کی کہ ’’سروس‘‘ اور ایگزبٹس سے انہیں جو مشاہرہ ملتا تھا وہی انہیں ’’جرأت‘‘ اور ’’ویمن ٹائمز‘‘ کی طرف سے پیش کیا جاتا رہے گا۔ میری بات سن کروہ ہاں تو کر لیتے مگر گھر سے باہر نکلنے پر آمادہ نہ ہوتے، میرا خیال ہے کہ یہ صدمہ اور زخم معدہ کے سنگین مرض کا سبب بنا جس نے ایک ایسے مرض کی شکل اختیار کرلی جس سے کئی دوسرے مرض جنم لیتے رہے۔ کلیم عثمانی نے ان امراض کا بڑے صبر اور استقلال سے سامنا کیا۔ ان کے بیٹے ہارون کلیم نے، جو ٹیبل ٹینس کا نیشنل چیمپئن ہے، اپنے درویش اور فقیر منش باپ کی اپنی استطاعت سے بڑھ کر شب و روز خدمت کی اور ان کے علاج معالجہ میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، ’’سروس‘‘ سے علیحدگی کے بعد ہی انہوں نے عملاً دنیا سے اپنا تعلق توڑ لیا تھا۔ اس کے بعد میرے اصرار اور خود ان کے ہاں چلے جانے پر وہ میرے ساتھ ’’تجارت‘‘ اور ’’جرأت‘‘ کے دفتر میں آ جاتے تھے مگر ایک ڈیڑھ گھنٹہ سے زیادہ قیام نہ کرتے اور ان کی زبان پر یہی الفاظ ہوتے کہ اب ان کا چل چلائو ہے۔
پیر اور منگل کی درمیانی شب سوا دس بجے پاکستان کی رفعت و عظمت کے ترانے گانے والا یہ سچا اور پکا پاکستانی اپنی اہلیہ، بیٹے اور بیٹیوں کو سوگوار چھوڑ کر اس قوم کے لاکھوں بیٹوں اور بیٹیوں کے لئے اپنے ملّی ترانے کے یہ بول چھوڑ گیا۔
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
کلیم عثمانی کے ملی اور قومی ترانے اس قوم کو انشاء اللہ ہمیشہ زندۂ جاوید رکھیں گے اور کلیم عثمانی بھی اپنی شعری خدمات کے سبب اہل وطن کے دلوں میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔