دنیا صحافت و ثقافت اور ادب ہی میں ہی نہیں، سیاست اور خلق خدا کی بھلائی میں بھی منو بھائی اپنا ایک منفرد اور قابل احترام مقام رکھتے تھے اور سات سال قبل حکم خداوندی سے اس دار فانی سے رخصت ہو گئے اس لیے کہ قدرت نے زندگی جیسا حسین تحفہ دیا ہی موت کی قیمت پر ہے۔ کبھی ہم بہت امیر تھے کہ ہمارے تمام بڑے ہمارے سروں پر موجود تھے لیکن منو بھائی کی طرح سب کے سب اپنی اپنی باری پر ہمیں روتا چھوڑ کر چلے گئے اور اب ہم بڑے ہیں۔ اس کا مطلب سیدھا سادہ ہے کہ وقت مقررہ ہمیں بھی اپنے مالک حقیقی کی جانب واپس لوٹنا ہے۔ لیکن جو لوگ زندگی کی نعمت کو عارضی سمجھ کر کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہوئے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں جو دوسروں کی آ سانی کا باعث بنیں، انہیں اس عارضی دنیا سے رخصتی کے بعد بھی ہمیشہ مثبت انداز میں یاد رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہزاروں، لاکھوں مثالیں ہیں کہ،، ارب پتی،، خاک میں مل کر خاک ہو گئے لیکن مثبت سوچوں کے وارث اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنے والے ،،بوریا نشین،، مٹی تلے جا کر بھی زندہ جاوید رہے بلکہ ہمیشہ رہیں گے، ایسے ہی لوگوں میں چھری ،چاقو، کانٹوں سے شہرت ہانے والے شہر وزیر آ باد میں جنم لینے والے منیر احمد قریشی المعروف منو بھائی ہیں، ان کا شمار میرے ہمعصرو ں میں ہرگز نہیں لیکن ہم وہ خوش قسمت ہیں جنہیں ان کا دیدار ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا، بحیثیت انسان یقینا ان سے اتفاق اور اختلاف کیا جا سکتا ہے، اس مٹی کے پتلے سے غلطی کوتاہی بھی ہوئی ہو گی لیکن منو بھائی کی صحافتی، ثقافتی، ادبی اور انسانیت کی خدمات کو دیکھتے اور پرکھتے منہ سے دعا ضرور نکلتی ہے کہ اللہ ان کی نہ صرف مغفرت اور درجات بلند کرے بلکہ جوار رحمت میں جگہ دے، وہ خود تو چھری چاقو والے ہرگز نہیں تھے پھر بھی ان کا قلم کسی تلوار سے کم نہ تھا اسی لیے ایک ترقی پسندانہ سوچ کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں بھی انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکا ،میں ریڈیو پاکستان سے لائیو پروگرام کرتا ہوں۔ کبھی میرے اس پروگرام میں منو بھائی اور ڈاکٹر حسن عسکری (سابق نگران وزیراعلی پنجاب )عالمی تجزیہ کار شمولیت کیا کرتے تھے۔ مبلغ ایک ہزار جس کا نصف 500 ہوتا ہے سکہ راج الوقت، ہم تینوں کو فی کس ملا کرتا تھا لیکن ہم تینوں انتہائی ذمہ داری سے ایک اعزاز سمجھ کر برسوں یہ پروگرام کرتے رہے، پھر اچانک محترمہ ثمینہ پرویز ڈی۔جی۔ ریڈیو پاکستان تعینات ہو گئیں، ان سے ملاقات ہوئی تو پرانی شناسائی کے باعث انہوں نے کہا آ پ میرے لائق کوئی کام بتائیں؟ میں نے عرض کی کہ ایک گھنٹے دورانیہ کے حالات حاضرہ کا پروگرام منو بھائی ، حسن عسکری اور میں ایک ہزار کے لیے کرتے ہیں؟ آپ نہیں جانتیں کہ منو بھائی ہر پروگرام پر ہزار ،دو ھزاریہاں روزی کی تلاش میں آ نیوالے جز وقتی آرٹسٹوں کو بانٹ جاتے ہیں اس لیے کہ وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ محترمہ نے وعدہ کیا اور اگلے ہفتے مجھے اسلام آ باد سے فون کر کے دریافت کیا کہ آ پ کتنا معاوضہ درست سمجھتے ہیں ؟میں نے کہا ’’کم از کم پانچ ہزار تو کیا جائے‘‘ وعدہ نبھانے کی یقین دہانی کرائی اور فون بند کر دیا۔ تقریبا 15 روز بعد مجھے فون کر کے اطلاع دی کہ بورڈ آ ف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں میری کوشش کے باوجود پانچ ہزار کی منظوری نہیں ہو سکی البتہ تین ہزار معاوضہ کر دیا گیا ہے۔ برسوں بعد ایسی خبر ملی تو ہم اور ساتھی بہت خوش ہوئے لیکن خبر یہ ہے کہ اب برسوں بعد اضافے کی بجائے اس میں پھر کمی کر دی گئی ہے۔ اب منو بھائی تو رخصت ہو چکے ہیں اور حسن عسکری صاحب بھی مصروفیت کے باعث نہیں آ تے لیکن ہم اپنا 45 سالہ عشقِ ریڈیو اور مملکت سے کمٹمنٹ نبھا رہے ہیں۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی لیکن آگاہی کے لیے ایسی باتیں بھی ضروری ہوتی ہیں۔ منو بھائی کے جذبہ خدمت خلق کی بہترین مثال ،،سندس فاؤنڈیشن،، ہے جو بد قسمتی اور لاپرواہی سے لاحق ہونے والی تھیلسمیا جیسی موروثی بیماری سے نبرد آزما ہے، وہ ایسے بچوں کی نگہداشت اور سہولت کاری سے انہیں نہ صرف زندگی دینے کی کوشش کرتی ہے اور انھیں معاشرے کا کار آ مد شہری بنانے کی جدوجہد میں شب و روز مصروف ہے بلکہ ان مصیبت زدہ خاندانوں میں خوشیاں بانٹ رہی ہے، سندس کے روح رواں یاسین خان کی محنت اور کمٹمنٹ اپنی جگہ لیکن منو بھائی اس فلاحی ادارے کے پہلے چیئرمین بنے تو ساری زندگی ایسے بچوں کے ساتھ گزار دی جن کی زندگی اور پرورش ان کے اپنے والدین کے لیے مشکل ترین امتحان ہوتا ہے۔ منو بھائی نے سندس کے لیے زندگی وقف کر کے دنیا داروں کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ زندگی کا مقصد اوروں کے کام آ نا ہے، مالک کائنات سے آ سانیاں مانگنے والو، خلق خدا کی بھلائی کے راستے اور آسانیاں دوسروں کے لیے پیدا کرو اور پھر زندگی کا لطف اٹھاؤ، منو بھائی زندگی کے آ خری لمحے تک سندس کے لیے فکر مند رہے اس لیے سندس اور یاسین خان نے بھی انہیں کبھی فراموش نہیں کیا، ہر سال منو بھائی کی برسی انتہائی پروقار انداز میں منائی جاتی ہے ساتویں برسی کا اہتمام بھی روایتی انداز میں کیا گیا پنجاب اسمبلی کے سپیکر ملک محمد احمد خان اور صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق مہمان خاص تھے جبکہ مقررین میں مجیب الرحمن شامی، ڈاکٹر سعید الہی، ارشد انصاری، مزمل سہر وردی، عبداللہ ملک اور راقم کے علاوہ دیگر شامل تھے ان کا کہنا تھا کہ منو بھائی کسی شخصیت کا نام نہیں ،یہ ایک عہد ہے اور منو بھائی اپنی تحریر، تقریر، سوچ شاعری اور تمثیلی کارناموں کے حوالے سے عہد سال شخصیت کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہیں گے، ان کی تمام تحریریں ملکی استحکام، اصلاح معاشرہ اور احترام انسانیت کی مثبت سوچ کی عکاس ہیں، آ ج کل سندس کی سرپرستی ممتاز براڈکاسٹر اور آ رٹسٹ خالد عباس ڈار کر رہے ہیں اور سندس پھول پھل رہی ہے وہاں مریضوں کو بلا تفریق خون بھی مہیا کیا جا رہا ہے اور جدید مشینوں سے ہر ممکن سہولت کاری بھی کی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سندس بھی منو بھائی اور ان سے پیار کرنے والوں کو کبھی نہیں بھولی، ساتویں برسی کی تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کر کے،، سندس مشن اور منو بھائی،، کی اس فلاحی یادگار کو مثالی بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ زندگی کے آخری ایام میں جب وہ صاحب فراش تھے تو میں بلا ناغہ ان سے،، گپ شپ،، کرنے جایا کرتا تھا اور اگر کبھی ناغہ ہو جاتا تو دوسرے روز ہی فون آ جاتا ،،ناصر توں آ یا نئیں،، اور مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے میں نے کلاس،، مس،، کر دی اور استاد میری سرزنش کر رہا ہو، ایک روز دوپہر کو فون آ یا تو میں سہم گیا فورا منہ سے نکلا ،،خدا خیر کرے ،،فون اٹھا کر ہیلو کیا تو منو بھائی بولے، ناصر آج چار پانچ بجے آ سکناں ایں،، میں نے کہا ’’آ پ حکم کریں خیریت تو ہے؟ فرمانے لگے‘‘ اک مہمان آرھیاا ہے میرا حال پچھن، میں چاہنا واں توں وی آجا ،،میں نے وعدہ کر لیا لیکن جب ریواز گارڈن پہنچا تو پولیس نے ان کی رھائش گاہ کو گھیرے میں لے رکھا تھا پہلے پریشانی ہوئی، پھر پروٹوکول توڑ تاڑ کے منو بھائی کے دولت خانے میں پہنچ گیا۔ کمرے میں ایک مہمان پہلے سے بیٹھا ہوا تھا میرا ان سے تعارف نہیں تھا میں نے منو بھائی سے پوچھا،، کون صاحب آ رہے ہیں؟ بولے بلاول بھٹو زرداری تھوڑی دیر میں سندس کے رکھوا لے یاسین خان بھی آ گئے ،اس طرح بلاول بھٹو زرداری کی آ مد پر کمرے میں صرف ہم تین لوگ موجود تھے اور بلاول بھٹو زرداری سے میری پہلی ملاقات میں منو بھائی نے ہمیں متعارف کرایا، آ ج منو بھائی کی کمی ہر لحاظ سے محسوس ہوتی ہے لیکن سندس کی کامیابی یاسین خان کو ہی نہیں ،ہمیں بھی نہال کر دیتی ہے۔
منوبھائی کی سندس
Feb 02, 2025