۱۔ مولانا فضل الرحمن ایک جہاندیدہ سیاست دان ہیں ۔ جب سے تحریک انصاف کے ’’گیسودراز‘‘ نے انہیں الیکشن میں شکست دی ہے یہ اُسے ہضم نہیں کر پائے۔ بجائے حریف کو مطعون کرنے کے انہوں نے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف کر رکھا ہے۔ اس پر تنقید کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کا موقف ہے کہ وہ ہارے نہیں ، ہروائے گئے ہیں۔ ظاہر ہے خان یہ کام اکیلانہیں کر سکتا تھا:
کچھ تو ہے جس کی پردہ دری ہے
’’غائبی ہاتھ‘‘ کا پہلے تو اشارتاً کنایتاً ذکر کیا کرتے تھے لیکن جب سے میاں نواز شریف نے لندن کے محفوظ مقام پر بیٹھ کر ’’گوہر افشانیاں‘‘ شروع کی ہیں ، مولانا صاحب کا بھی حوصلہ بڑھا ہے اور انہوں نے ایک جلسے میں اعلان کیا ہے کہ مارچ اسلام آباد کے علاوہ پنڈی تک بھی جا سکتا ہے۔ حضرت کو شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ آنکھیں بند کر کے انہوں نے ہوا میں جو تیر چلایا ہے وہ آسٹریلین بُوم رینگ کی طرح تیرانداز کو بھی مضروب کر سکتا ہے۔
۲۔ ڈی ۔ جی ۔ آئی ۔ ایس ۔ پی ۔ آر نے اس کا نہایت نپے تُلے اور ذومعنی انداز میں جواب دیا ہے! انکے خیال میں اس قسم کے مارچ کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن اگر حضرت قدم رنجہ فرماتے ہیں تو انکی ’’چائے ، پانی سے تواضع کی جائیگی۔ اس ایک جملے میں دریائے معانی پنہاں ہے اور تبصرہ نگاروں ٹی ۔ وی اینکرز اور ’’اینالسٹ ‘‘ کو ایک جوسی ٹاپک مل گیا ہے۔ اب اسے محض اتفاق سمجھئے کہ ہمیں بھی ایک بُھولا بسرا واقعہ یاد آ گیا ہے۔
۳۔ یہ 1963ء کا واقعہ ہے۔ میں اس وقت ایم ۔ اے پولیٹیکل سائنس کا طالب علم تھا اور شعبہ سیاسیات کی یونین کا صدر تھا۔ یونیورسٹی میں ہڑتال ہو گئی۔ اس کا محرک جماعتِ اسلامی کا فرنٹ مین بارک اللہ خان تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ جنگل کی آگ کی طرح لاہور کے سب تعلیم اداروں تک پھیل گئی۔ گو کافی طالب علم ذہنی طور پر اسکے مخالف تھے لیکن اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا۔ جماعت کا تشدد بریگیڈ طالب علموں کو زبردستی کلاس رومز سے باہر نکالتا۔ ہر روز ہڑتالیں ہوتیں ، ہنگامہ آرائی میں پولیس والے اور طلباء زخمی ہوتے۔ تھوک کے ریٹ سے گرفتاریاں ہوتیں۔ نواب کالا باغ گورنر تھے۔ انکی انتظامی صلاحیتوں کیلئے یہ کھلا چیلنج تھا۔ انہوں نے پولیس کو حکم دیا۔ BREAK THEIR HEADS اسکی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو صدر ایوب پر اپنی انتظامی صلاحیتیں ثابت کرنا۔ دوسری وجہ ذاتی تھی ، طلباء انکی گہری ، دبیز مونچوں کے حوالے سے ’’کیری کیچر بناتے ۔ ایک مطلق العنان حکمران کو سیخ پا کرنے کیلئے اس قسم کی تصویریں جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف تھیں۔
۴۔ ایک روز میں اور سجاد شاہ مرحوم مال روڈ کے ریسٹورنٹ چینیز لنچ ہوم میں چائے پی رہے تھے کہ اچانک دھپ ۔ دھپ کی آواز سنائی دی۔ دس بارہ پولیس والوں نے ہمارا گھیرائو کر لیا۔ تھانیدار نے ہمیں ہاتھ کھڑے کرنے کا حکم دیا۔ وجہ پوچھی تو بولا، کوتوالی تھانے میں آپکی چائے پانی سے تواضع کرنی ہے۔ عرض کیا، وہ تو ہم یہاں بھی پی رہے ہیں۔ بولا۔ وہاں ’’سویٹ ڈش ‘‘ بھی ہو گی۔ ہم طوہاً و کرہاً باہر آئے تو انہوں نے ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح اٹھا کر پولیس کے ٹرک میں ڈال دیا۔
۵۔ تھانہ کوتوالی میں عجیب منظر دیکھا۔ کوئی دو سو کے قریب طالب علموں کو ایک بڑی حوالات میں بند کررکھا تھا۔ تھانیدار صاحب ہمیں بند کرنے کی بجائے ’’انویسٹی گیشن سیل‘‘ میں لے گئے‘ وہاں پر ہر قسم کے ’’ نوادرات ‘‘پڑے تھے۔ ڈنڈا ڈولی کا سامان !9/4 کے لتر، برف کی سلیں اور ایک آدھ سرخ مرچوں کا پیکٹ بھی تاک جھانک کرتا نظر آیا۔ صرف ایک کرسی تھی جس پر وہ خود بیٹھ گئے بولا۔ کل کی ہڑتال میں تم لوگوں نے مجھے پتھر مارے تھے۔ عینک اتار کر دیکھو! سجاد شاہ کے منہ سے نہ جانے کیسے یہ لفظ نکل گئے وہ ایک زناٹے دار تھپڑ جڑتے ہوئے بولا۔ میں عینک کے بغیر بھی تمہیں شناخت کرسکتا ہوں۔ یہ آلات تفتیش دیکھ رہے ہو یہ تو محض ’’ایپی ٹائیزر‘‘ ہیں۔ تمہاری اصل دعوت کا قلعے کے عقوبت خانے میں اہتمام کیا گیا ہے… ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ اسے ڈپٹی صاحب نے بلا بھیجا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا تو مجھے لے کر انکے کمرے میں چلا گیا۔ کافی دیر سوال جواب ہوتے رہے۔ اب اسے محض اتفاق کہے کہ DSP ہمارے بزرگان کا جاننے والا نکلا۔ رات بارہ بجے انہوں نے ہمیں آزاد کردیا اور تھانیدار صاحب کی مٹھائی کھلانے کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔
۶۔ جنرل صاحب نے تو محض چائے پانی پر ٹرخایا ہے۔ مٹھائی کی فرمائش مولانا صاحب نے ازخود کردی ہے۔ امید ہے اس کی نوبت نہیں آئیگی۔ مولانا صاحب کے مارچ نے نہ تو پنڈی یاترا کرنی ہے اور نہ کوئی جانے دیگا! بعض باتیں صرف کمپنی کی مشہوری کیلئے کرنا پڑتی ہیں… البتہ اسلام آباد کی طرف پی ڈی ایم والے ضرور جائینگے۔ یہ مارچ کے مہینے میں ہوگا۔ کڑاکے کی سردی نے پلانرز پر ایک بات واضح کردی ہے۔ اپنے مقلدین کی ہمت اور حوصلے کا اتنا ہی امتحان لیا جائے جتنا وہ برداشت کرسکیں!
۷۔ تمام تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ لانگ مارچ کامیاب نہیں ہوگا۔ سابقہ تاریخ کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔ بینظیر ، میاں نوازشریف قبل ازیں نیم دلانہ کوشش کرچکے ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر قادری کو بھی بھاری پتھر چوم کر رکھنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن بھی ’’فریب وعدہ فردا‘‘ کا شکار ہوئے۔ یہ درست ہے اب کہ گیارہ پارٹیوں نے اتحاد کرلیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ زمینی حقائق کافی حد تک بدل چکے ہیں۔ بھوک، مہنگائی، بیروزگاری سے تنگ عوام کا ناک میں دم ہوگیا ہے۔ جیسے جیسے کاروان آگے بڑھے گا لوگ جوق در جوق ، بستی بستی، قریہ قریہ شامل ہوتے جائینگے۔ اسلام آباد پہنچتے پہنچتے ایک بھونچال آجائیگا۔ ایوان اقتدار لرزنے لگیں گے۔ لاء اینڈ آرڈر لڑکھڑا جائیں گے، دارالخلافہ کو عملاً بند کردیا جائے گا! اس وقت تک ہوسکتا ہے کہ لیبر یونینز، تاجر برادری، لیگل کمیونٹی بھی انکے حق میں آواز بلند کردیں۔ وہ مرغان بادنما جن کی بیساکھیوں پر حکومت کو اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔ حسب روایت ایک ایک کرکے گرنے لگیں اس صورت میں خان کیلئے پگڑی سنبھالنا مشکل ہوجائیگا۔
۸۔ کیا ایسا ہونا ممکن ہے ؟ … بظاہر اسکے امکانات بہت کم ہیں۔ عوام بالفرض حکومت سے ناراض اور ناامید ہی کیوں نہ ہوں ، آزمودہ را ازمودن کے قائل نہیں ہونگے۔ کسی کو ہٹانے کیلئے ضروری ہوتاہے کہ اس کا نعم البدل پیش کیا جائے۔ ایسی شخصیت جسے لوگ اپنا نجات دہندہ سمجھیں جو انکے دُکھ درد کا مداوا کر سکے۔
۹۔ پھر ہو گا کیا؟ تحریک کی کامیابی یا ناکامی سے قطعِ نظر قوم ایک تاریک سرنگ میں گھستی جا رہی ہے۔ دُور دُور تک روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ جہاں 22 کروڑ کی آبادی ہو 2½ کے حساب سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہو۔ قدرتی آفات نے معیشت کو زبوں حالی کر دیا ہو۔ کرپشن ، اقربا پروری ، تعصب ، مذہبی منافرت نے ترقی کے راستے مسدور کر دئیے ہوں ، وہاں بھنور میں پھنسی ، ہچکولے کھاتی کشتی کو باہر نکالنے کیلئے قائد اعظم ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمران خان کتنا ہی ایماندار ، محب وطن اور دبنگ انسان کیوں نہ ہو ، تنِ تنہا کچھ نہیں کر سکتا!
۱۰۔ پیر پگاڑا مرحوم مارچ میں ڈبل مارچ کی پیش گوئی کرتے تھے IDES OF MARCH بھی پیش نظر ہونے چاہئیں! مارچ تو ہو گا ہی دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس مرتبہ سنگل ہوتا ہے یا ڈبل!
٭…٭…٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024