تقدیر ِ امم

اس کارگہِ حیات میں اقوام کی تقدیر ہمیشہ سے فطرت کے مسلّمہ اصولوں کے تابع رہی ہے۔ ان اصولوں کے نافذ العمل ہونے میں فطرت نے کسی قوم کے ساتھ نہ تو تخصیص رکھی نہ ہی رعایت۔ فطرت کے اصول ہر قوم پر یکساں لاگو رہے ہیں۔ جن اقوام نے ان اصولوں سے روگردانی کی وہ ناکامیوں اور رسوائیوں سے دوچار ہوئیں اور جن اقوام اور معاشروں نے فطرت کے اصولوں کی پاسداری کی وہ عزت و تکریم سے سرفراز ہوئیں۔ عیش و نشاط اور طائوس و رباب کی رسیا اقوام صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئیں اور تاریخ کے قبرستانوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ایسے معدوم ہوئیں کہ آج ان کے نام تک انسانی حافظہ سے محو ہو گئے۔ فاتح زمانہ وہی ٹھہرا ہے جس نے شمشیر و سناں کو حرزِ جاں بنایا اور انہی کی آبدار تلواروں نے اپنے خون کی روشنائی سے تاریخِ عالم کو رقم طراز کیا۔حکیم الامت شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا ہے
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طائوس و رباب آخر
آپ تاریخِ عالم اٹھا کر دیکھ لیں جن قوموں نے اپنے گھوڑے اور اپنی عسکری قوت کو تیار رکھا انہوں نے ہی دنیا پر حکمرانی کی۔
آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے 622ء میں حضرت محمدﷺ نے مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں وسائل سے محروم جس ریاست کی بنیاد رکھی اس نے صرف 8 برس کے بعد 630ء میں مکہ کے قریش کا غرور خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ جب آپؐ ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپؐ کے مقابلے کے لئے ایک بھی تلوار بلند نہیں ہوئی۔ 632ء میں جب آپ ؐ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو پورا جنوبی جزیرہ نمائے عرب آپؐ کے زیرنگیں تھا۔ آپؐ کے بعد آپؐ کے جانشینوں نے میسوپوٹیمیا، شام اور فلسطین کے علاقوں کو اپنے گھوڑوں کے سموں تلے روند ڈالا۔ 637ء میں جنگِ قادسیہ اور 642ء میں نہاوند کی جنگ میں ایرانی فوجوں کا غرور خاک میں ملا کر رکھ دیا اور 642ء میں ہی مصر کو بازنطینی تسلط سے چھین لیا۔ 711ء تک عربوں کی فوجیں شمالی افریقہ کے پار بحرِ اوقیانوس تک اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑنے کے بعد شمال کی جانب آبنائے جبرالٹر کو عبور کر کے سپین کو فتح کر چکی تھیں۔ ایک صدی سے بھی کم عرصے میں آپؐ کے پیروکاروں نے ہندوستان کی سرحدوں سے لے کر بحرِ اوقیانوس تک22 لاکھ مربع میل پر پھیلی ایک ایسی عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھ دی تھی جس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایسی عظیم الشان سلطنت کے بانی، تاریخِ عالم کی عظیم ترین ہستی، عظیم ترین سپہ سالار، عظیم ترین فاتح، ختم المرسلین حضرت محمدﷺ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپؐ کے ترکہ میں ایک درہم بھی نہیں تھا کہ اس رات چراغ جلانے کیلئے تیل خریدا جا سکے۔ آپؐ کی زوجہ مطہّرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کی زرہ بکتر رہن رکھ کر چراغ جلانے کیلئے تیل لیا لیکن اس وقت بھی پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کے حجرے کی دیواروں پر نو یا سات تلواریں لٹک رہی تھیں۔
طارق بن زیاد جس نے مئی 711ء میں جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے سپین پر اپنی فتح کے پھریرے لہرائے، اس کی آدھی سے زیادہ سپاہ کے پاس پورا لباس تک نہیں تھا۔ ان کے جوتوں میں سوراخ اور تلواروں کے نیام پھٹے ہوئے تھے اور وہ بہتّر بہتّر گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے لیکن ان کی آبدار تلواروں نے آبنائے جبرالٹر کے پانیوں کی چمک کو اپنی خیرہ کن آب و تاب سے تاخت و تاراج کر دیا تھا۔ ادھڑی عبائوں اور پھٹے جوتوں والے گلہ بانوں کی ننگی تلواروں نے ایک صدی سے بھی کم عرصے میں براعظم ایشیا، افریقہ اور یورپ کو زیرِنگیں کر لیا تھا اور 22 لاکھ مربع میل پر پھیلی سلطنت ان کی باجگزار تھی۔
4 مارچ 1193ء کو 55 سال کی عمر میں جب سلطان صلاح الدین ایوبی کی وفات ہوئی تو ایک روایت کے مطابق آپ کے ترکہ میں صرف 47 درہم تھے اور ایک روایت کے مطابق آدھا درہم تک نہ تھا کہ قبر کے لئے مٹی کی اینٹیں بنانے کیلئے بھوسہ خریدا جا سکے اور ان کی تدفین ہو سکے چنانچہ آپ کے کفن دفن کے اخراجات دمشق کے قاضی الفضل نے اپنی جیب سے ادا کئے۔ سلطان کو پوری زندگی حج کی تمنا رہی مگر جہاد اور مالی تنگی نے سلطان کو اتنا موقع بھی نہ دیا کہ وہ حج بیت اللہ سے بہرہ مند ہو سکیں۔ مالی تنگی کے باعث اتنا زادِراہ بھی مہیا نہ تھا کہ دمشق سے مکہ کا سفر کر سکیں۔ پانچ امیر ترین سلطنتوں شام، عراق، مصر، حجاز اور یمن کے فرماں روا کے پاس اپنا کوئی گھر نہیں تھا اور وہ زندگی بھر جنگی سپاہیوں کے ساتھ خیموں میں سوتے رہے۔ اسی سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب قبلۂ اول بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے سے 90 سال کے بعد آزاد کروایا تو پورے یورپ میں کہرام مچ گیا اور اٹلی، فرانس، جرمنی اور انگلستان کے 6 لاکھ فوجی متحد ہو کر فلسطین پر حملہ آور ہوئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس صلیبی جنگ میں مسلمانوں کو ایسی عظیم کامیابی نصیب ہوئی کہ اس کے بعد عیسائیوں کو دوبارہ حملے کی کبھی جرأت نہ ہوئی اور بیت المقدس 761 سال تک مسلمانوں کے پاس رہا۔
کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشاد شرق و غرب
تیغِ ہلال کی طرح عیشِ نیام سے گزر
29 جنوری 1258ء سے 10 فروری 1258ء تک بغداد کے محاصرے اور فتح بغداد کے چند دن بعد چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے 18 فروری 1258ء کو بنو عباس کے آخری خلیفہ معتصم باللہ کو کھانے پر بلایا تو مقیّد خلیفہ کی جان میں جان آئی اور ہزاروں امیدوں کے ساتھ ہلاکو خان کی دعوت پر پہنچا اور کھانے کے لئے بیٹھ گیا۔ ہلاکو خان کے حکم پر تھالوں اور طشتریوں پر پڑے خوان کو ہٹایا گیا تو وہ ہیرے جواہرات اور سونا، چاندی سے بھرے ہوئے تھے۔ ہلاکو خان نے خلیفہ سے کہا کھائو ان کو۔ خلیفہ نے بے بسی سے کہا میں ان کو کیسے کھا سکتا ہوں؟ اس پر ہلاکو نے کہا تو پھر تم نے انہیں اتنی حفاظت اور اہتمام سے کیوں رکھا ہوا تھا۔ ہلاکو نے سیم و زر و جواہرات سے لبریز آہنی صندوقوں کی طرف تلوار سے اشارہ کرتے ہوئے خلیفہ سے کہا کہ تم نے ان سے اپنی فوج کے لئے تیروں کے سوفار کیوں نہ بنوائے اور یہ تمام سونا اور جواہرات اپنے سپاہیوں میں تقسیم کیوں نہ کیا اور پہاڑوں کے دامن میں باہر نکل کر مجھے پہلے سے روکنے اور مقابلے کی کوشش کیوں نہ کی۔ خلیفہ نے بے بسی کے عالم میں جواب دیا: ’’مشیت ایزدی یہی تھی‘‘۔ تاتاری سپہ سالار نے کہا ’’اچھا تو اب ہم جو سلوک آپ سے کریں گے، اسے بھی مشیت الٰہی سمجھنا‘‘۔ اس کے بعد ہلاکو نے جو سلوک خلیفہ معتصم باللہ اور اس کے بیٹوں سے کیا آج بھی محض خیال آنے سے لرزہ طاری ہوتا ہے۔ خلیفہ اور اس کے بیٹوں کو اونی نمدے میں زندہ لپیٹ کر نمدے کو سی لیا گیا اور پھر خونخوار تارتاری سپاہیوں نے اس نمدے پر گھوڑے دوڑائے۔ اس طرح خلیفہ اور اس کی اولاد کو گھوڑوں کے سموں کے نیچے مکمل طور پر کچل ڈالا گیا۔ خلیفۂ بغداد کے زر و جواہر سے لبریز خزانے اسکی سلطنت کو برباد ہونے سے نہ بچا سکے اور ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن