امریکا افغانستان کے حوالہ سے اپنی فوجی کارروائیوں تک محدود پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھائے
واشنگٹن : 2 فروری : سلامتی اور خارجہ پالیسی کے امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ افغانستان میں محض فوجی کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں، اس کے لئے امریکی انتظامیہ کو جنوبی ایشیا بارے اپنی پالیسی میں غیر فوجی عوامل کو بھی شامل کرنا ہوگا اور جنگوں سے تباہ حال اس ملک میں جمہوریت کی طرف پرامن پیش رفت یقینی بنانے کے لئے امریکا اور پاکستان کو مل کر کام کرنا ہوگا۔امریکا کے وڈرو ولسن انٹرنیشنل سینڑ میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور سینیئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین اور انسداد دہشت گردی اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار شذر شفقت نے آن لائن امریکی جریدے دی ہل کے لئے اپنے مضامین میں کہا ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات افغانستان کے لئے سنگین خطرات کا اظہار کرتے ہیں۔ان واقعات کی ذمہ داری طالبان اور داعش نے قبول کی ہے۔مذکورہ بالا ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان کے حوالہ سے اپنی فوجی کارروائیوں تک محدود پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے اس میں سیاسی عوامل کو بھی شامل کرے اور اس حوالہ سے پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھائے جو اس وقت کم ترین سطح پر ہے۔دونوں ملکوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے الفاظ کی جنگ کی بجائے باہمی تعاون بڑھانا ہوگا۔اگر پاکستان اپنے راستے الگ کرلیتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والا خلا پر کرنا شائد چین کے لئے ممکن نہ ہو بالکل اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ تعاون ختم کرنے سے افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول میں اس کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ فوری طور پر ایسی کسی پیش رفت کا امکان نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا کی مبہم جیو سٹریٹجک اور جیو پولیٹکل صورتحال کو اسی طریقہ سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک امریکا تعلقات اگرچہ اس وقت کشیدگی کا شکار ہیں لیکن یہ اس قدر کشیدہ بھی نہیں جتنے یہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی اور سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملے کے بعد کشیدہ تھے۔افغانستان بارے امریکی صدر کی پالیسی کے تحت کئے جانے والے اہم اقدامات میں افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد اور فوجی کارروائیوں میں اضافہ شامل ہیں لیکن ایسے اقدامات سے اہداف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ جب تک امریکی پالیسی میں غیر فوجی اقدامات کو شامل نہیں کیا جاتا طالبان اور داعش کی طرف سے پرتشدد کارروائیاں جاری رہیں گی۔ امریکی انتظامیہ کو افغانستان میں امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت چار سو اضلاع پر مشتمل افغانستان کے چالیس سے پچاس فیصد اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہے جو افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سب سے زیادہ ہے۔مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ طالبان کی قوت میں اضافے میں کئی عوامل کار فرما ہیں اور اس حوالے سے صرف پاکستان میں ان کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں کو ان کی طاقت میں اضافے کا جواز تصور کرنا غلط ہوگا۔